تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-05-2016

چار جدید شاعر

اس کتاب کے مؤلف ہمارے نامور شاعر صابر ظفر ہیں جس میں انہوں نے خاکسار‘من چندہ بانی پروین کمار اشک اور اپنی پچاس پچاس منتخب غزلیں شامل کی ہیں جسے رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی نے چھاپا‘ ٹائٹل دیدہ زیب‘ سفید کاغذ اور ضخامت 271صفحات ہے۔
جہاں تک جدید غزل کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عام طور پر جدید غزل کی جگالی کی جا رہی ہے کیونکہ جدید غزل نے اس صنف کا راستہ کافی آسان کر دیا ہے‘ اور شاعر جیسا بھی ہو‘ اگر جدید غزل اس کی نظروں سے گزرتی رہتی ہے تو اس کے لیے ایسی غزل کہنا چنداں مشکل نہیں ہوتا جس پر جدید غزل کا گمان کیا جا سکے کیونکہ جدید غزل نے جو فضا بنا دی ہے کسی شاعر کواس سے نکلنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی جبکہ اس پیرائے اظہار کو نقل کرنا چنداں مشکل بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یار لوگ شعر کا پُتلا تو بنا بیٹھتے ہیں لیکن اس میں جان نہیں ڈال سکتے‘ چنانچہ ان پتلوں کو بھی جدید غزل سمجھ لیا جاتا ہے‘ حتیٰ کہ قاری کو بھی ان پتلوں پر ہی ٹیون کر لیا گیا ہے اس سے زیادہ کی کسی سے توقع کی جاتی ہے نہ مطالبہ‘ جبکہ نقاد حضرات بھی اسے اپنا دردِ سر نہیں سمجھتے۔
محض اچھا شعر کہنا پہاڑ کی کوئی چوٹی سر کرنا نہیں ہے یعنی الفاظ کی بہتر نشست و برخواست اور کسی عمدہ مضمون کو بہتر طور سے باندھ دینے سے ہی شعر نہیں بنتا۔ اسے آپ زیادہ سے زیادہ شوقیہ شاعری کہہ سکتے ہیں کیونکہ موزوں گوئی ہرگز ہرگز شاعری نہیں ہے اور شاعری اس وقت تک اپنا جواز پیدا کرنے اور صحیح معنوں میں شاعری کہلانے کی حق دار نہیں ہے جب تک وہ غیر معمولی نہ ہو کہ شعراگر زبردست نہ ہو تو وہ شعر نہیں ہے اور جو شعر تازگی سے محروم ہو وہ شعر کہلانے کا حق دار ہی نہیں ہے۔
جہاں تک تازگی اور تاثیر کا تعلق ہے تو وہ شاعر کے اندر اوپر سے نہیں ڈالی جا سکتی اس کی شناخت اور ملکہ اس کے اندر پہلے سے ہی موجود ہو تو بات بنتی ہے۔ شعر کے لیے نیا اور اعلیٰ مضمون کا ہونا ہی کافی نہیں ہے اور نہ ہی کرافٹ کے حوالے سے اس کا نک سک سے درست ہونا۔ شعر توایک ایسے طلسم کا حامل ہوتا ہے کہ جس کی صحیح معنوں میں تعریف بھی نہیں کی جا سکتی کیونکہ شعر خود بولتا ہے کہ وہ شعر ہے۔ شعر تو وہ ہے جوآپ کے ساتھ کچھ کرے‘ آپ کو ایک گو نہ مسرت سے ہمکنار کرے‘ آپ کے منہ سے بے اختیار واہ نکال دے۔ اور اگر یہ نہ کر سکے تو کم از کم آپ کو پریشان تو کرے‘ غصہ تو دلائے کیونکہ ایسا شعر بہرحال اس شعر سے بدرجہا بہتر ہے جو ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود آپ کے سر پر سے ہی نکل جائے اور آپ اسی جگہ موجود رہیں کیونکہ شعر تو آپ کواپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے‘ ایک اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے اور بعض اوقات آپ کو کہیں کانہیں چھوڑتا لیکن اس کی بجائے ہو یہ رہا ہے کہ شعر کی جیسے ری سائیکلنگ اور ولکنائزنگ ہو رہی ہے اور بے جان شعر اپنے ساتھ 
آپ کو بھی بے جان کرکے رکھ دیتا ہے ۔ پرانی عمارت کو لیپا پوتی کر کے پیش کر دیا جائے تو بھی وہ پرانی ہی رہتی ہے۔ چنانچہ جب تک شاعر یہ طے کر کے نہ بیٹھ جائے کہ اس نے ایسی شاعری نہیں کرنی جیسی اس کے گرد و پیش میں ہو رہی ہے تو یہ عمدہ شاعری کی جانب پہلا قدم ہو سکتا ہے ویسے‘ اگر آپ نے بھی ویسی ہی شاعری کرنی ہے جیسی‘ یا جس سے بہتر شاعری ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے تو آپ کو اس تکلف میں پڑنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ ایسی شاعری کوئی جواز ہی نہیں رکھتی۔ بہتر ہے کہ یہ کام دوسروں کو کرنے دیں جو پہلے سے کر رہے ہیں‘ اس بات سے قطع نظر کہ وہ شاعری ہے بھی یا نہیں‘ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ ع
سب کر رہے ہیں آہ وفغاں‘ سب مزے میں ہیں
یہ درست ہے کہ آدمی‘شاعری اپنی ضرورت کے پیش نظر بھی کرتا ہے اور جس سے اسے کوئی منع بھی نہیں کرتا لیکن شاعری کو چھپوانا یا دوسروں کے سامنے پیش کرنا تو گویا ایک چیلنج پھینکنا ہے کہ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ سیدھی سی بات ہے‘ جیسی شاعری آپ کر رہے ہیں‘ اگراسی انداز کی اس سے کہیں بہتر شاعری پہلے ہو چکی ہے تواس شاعری کو کون پڑھے گا‘ ماسوائے آپ کے دوستوں یا جاننے والوں کے۔ میں یہاں اپنی ایک بات دہرانے کی اجازت چاہوں گا کہ شعر کی ٹرین میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا‘ فسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس۔ یعنی جو شعر فسٹ کلاس نہیں ہے وہ تھرڈ کلاس ہے! دیباچے اور فلیپ لکھ کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے‘ جن میں خود میں بھی شامل ہوں یا تو جھوٹ بولتے ہیں یا انہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ شاعری ہے کس چڑیا کا نام۔
ان چار شاعروں میں پروین کمار اشک کے ساتھ تو سیدھی سیدھی زیادتی کی گئی ہے کیونکہ وہ بے چارہ تو شاعر ہے ہی نہیں۔ یہی بات میرے بارے میں بھی کہی جاتی ہے اور وہ لوگ خاصی معقول تعداد میں موجود ہیں جو مجھے شاعرنہیں سمجھتے۔ زیادہ دور کیوں جائیے‘ میں خود اپنے آپ کو کب شاعر سمجھتا ہوں اور یہ بات میںنے لکھ کر بھی بیان کر رکھی ہے‘ نثر میں بھی اور شاعری میں بھی۔ اس سلسلے میں''لا تنقید‘‘ میں ''ہم کو شاعر نہ کہو میر‘‘ کے عنوان سے میرا مضمون قابلِ ملاحظہ ہے اور ایسے شعر بھی کہ ؎
سب نے ناشاعر گردانا
پُوری بات ہماری ہو گئی
سو‘ یہ دو تو ٹھکانے لگے۔ اب رہ گئے من چندہ بانی اور صابر ظفر‘ تو ان کے بارے میں کچھ کہنا ویسے ہی سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کہ ان کی غزلیں چندے آفتاب‘ چندے ماہتاب اور چشمِ بدور۔ ان دونوں کاایک ایک شعردیکھیے جس سے میرے بیان کو تقویت دستیاب ہو سکتی ہے ؎
نہ جائے گا کبھی دل سے ترا غم
یہ جوگی دشت میں بیٹھا رہے گا
(بانی)
کچھ نہیں یاد کہ شب رقص کی محفل میں ظفر 
ہم جدا کس سے ہوئے کس سے بغلگیر ہوئے
(صابر ظفر)
سو بانی اور صابر ظفر کی ملا کر 100غزلیں بنتی ہیں ۔ کتاب کی قیمت500روپے ہے اور فی غزل آپ کو صرف پانچ روپے میں پڑے گی جو یقیناً کوئی مہنگا سودا نہیں ہے!
ہمارے شاعر دوست دلاور علی آزر کی والدہ بے حد علیل ہیں۔ قارئین سے ان کی صحت یابی کی اپیل ہے۔
آج کا مطلع
دامانِ شہ سے دستِ گدا کتنی دور ہے
اے قصرِ شیشہ سنگِ سزا کتنی دُور ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved