مانسہرہ کے جلسہ کے بعد جب وزیر اعظم جانے لگے تو ان کے سٹاف سے چارسدہ تک کا فاصلہ پوچھا گیا تو نواز لیگ کے رکن قومی اسمبلی میل اور کلومیٹر کے حساب میںبات کو ٹال گئے لیکن جب ان سے بنوں میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ سیلفیاں اتارتے ہوئے بنوں سے چارسدہ تک کے فاصلے بارے پوچھا گیا کہ یہاں سے کتنا دور ہے تو پھر بھی وہ کوئی جواب نہ دے سکے چاہئے تو یہ تھا کہ۔۔۔یہی سوال تحریک انصاف کی نا پختہ کار جماعت کے لوگوں کی جانب سے ان کے جلسوں میں پوچھا جاتا کہ میاں نواز شریف صاحب آپ مانسہرہ چلے آئے وہاں سے بنوں آ گئے ہیں۔۔۔۔کیا آپ کو چارسدہ کا رستہ نہیں آتا ؟کیا وہاں پاکستانی قوم نہیں بستی؟ تحریک انصاف کا اگر کوئی میڈیا سیل ہوتا تو وہ روزانہ کی ٹی وی ٹاک شوز پر نواز لیگ کے ترجمانوں سے یہ پوچھتے کہ چارسدہ یونیورسٹی میں مارے جانے والے بچے ۔۔۔کیا پاکستان کے بچے نہیں ہیں؟۔ لیکن نواز لیگ کی اتنی بد قسمتی کہاں کہ اس سے اس طرح کے سوالات پوچھے جائیں اس لحاظ سے نواز لیگ خوش قسمت جماعت ہے کہ اسے اپنی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ملی بھی تو میڈیا کی سوچ اور کارکردگی کی بجائے اندر سے خالی سوائے اس کے چند ایک لوگوںکے۔پانامہ لیکس کے بھونچال کے بعد لندن کے ایک ہفتہ کے نجی دورہ سے بھی کوئی ڈھائی ماہ پیشتر وزیر اعظم میاں نواز شریف چند دن کے نجی دورے پر لندن گئے ہوئے تھے کہ اسی دوران بیس جنوری2016 ء کی صبح چارسدہ یونیورسٹی خیبر پختونخوا پر تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد وں نے حملہ کر دیا سخت ترین سردی اور بے پناہ دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد یونیورسٹی کی عقبی دیوار سے اندر داخل ہوئے۔ نہتے طالب علموں پر‘جن میں خواتین بھی شامل تھیں کلاشنکوف اور مارٹر گولوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے چوبیس طالب علم شہید ہو گئے چاروں جانب اک کہرام مچ گیا ملک بھر میں صف ماتم بچھ گئی جوان لاشے صوبے کے ایک سرے سے دوسرے سرے سے اٹھائے جا رہے تھے مائیں اپنے دلوں کی بے ترتیب دھڑکنوں اور زار و قطار آنسوئوں سے بھری ہوئی آہ وبکا کے ساتھ اپنے جوان بیٹوں کی تابوت میں لپٹی ہوئی میتوں کو حسرت و یاس سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خود سے دور جاتا ہوا دیکھ رہی تھیں جس کسی سے ممکن ہو سکا وہ جہاں تھا چارسدہ اور پشاور پہنچا تاکہ قیا مت کی اس گھڑی میں وہ غم زدہ خاندانوں کے دکھ درد میں شریک ہو سکے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور عمران خان یہ خبر سنتے ہی چارسدہ پہنچ گئے لیکن وزیر اعظم نے پاکستان کے اس صوبے پر ٹوٹنے والی قیا مت کا مقابلہ کرنے اور جوان بیٹوں کے بوڑھے والدین کے غم میں شریک ہونے کی بجائے اپنے لندن کے ذاتی دورے میں مزید توسیع کر دی اس وقت اس پر سخت احتجاج کیا گیا۔ ان کی جماعت مسلم لیگ نواز کی جانب سے کہا گیا کہ میاں نواز شریف سخت مصروفیت کی وجہ سے مزید رک گئے ہیں لیکن یہ نہ بتا سکے کہ مصروفیات کیا تھیں؟۔ کیونکہ وہ کسی سرکاری دورے پر تو گئے نہیں تھے کہ کہا جا سکے کہ اپنی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے وہ اپنا دورہ ملتوی یا مختصر نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔وہ تو اب کہیں جا کر حقیقت سامنے آئی ہے کہ کہ وہ اس وقت بھی پانامہ لیکس کے معاملات درست کرنے گئے ہوئے تھے جس کے بارے میں پاکستان کے ایک اخباری گروپ کے عمر چیمہ نے انہیں با خبر کر دیا تھا کیونکہ انٹرنیشنل جرنلسٹ فورم کا کہنا ہے کہ وہ اس رپورٹ میں شامل تمام لوگوں سے ان کی رائے لینے کیلئے کئی ماہ سے رابطوںمیں تھے اور پاکستان کے وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں سے بھی انہوں نے ان کی رائے لینے کیلئے رابطے کر رکھے تھے۔
بیس جنوری کی قیا مت صغریٰ کو گزرے آج تین ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے وزیر اعظم نواز شریف کو نہ تو چارسدہ یونیورسٹی جانے کی فرصت مل سکی ہے اور نہ ہی چوبیس شہداء کے غم زدہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کا خیال آیا شاید اس لئے کہ وہ سمجھ چکے ہیں کہ کے پی کے میں مانسہرہ کے بعد کوئی دوسرا علاقہ ان کی سیا سی دسترس سے دور ہوتا جا رہا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ چوبیس کے قریب شہید ہونے والے نوجوانوں اور ان کے غم زدہ خاندانوں کی ان کی نظروں میں کوئی اہمیت ہی نہیں ۔۔۔لیکن جیسے ہی پانامہ لیکس نے ان کے خاندان کے خلاف انگلیاں اٹھائیں دنیا بھر کے میڈیا میں ان کی اپنے بیٹوں اور بیٹی کے ہمراہ تصویریں شائع ہونا شروع ہو گئیں تو ان کے ہوش اڑنا شروع ہو
گئے اور ملک کے اندر اور باہر چاروں جانب پھیلی ہوئی خبروں سے انہیں اپنی سیا سی بقا خطرے میں پڑتی نظر آئی تو ان کا دل ایک بار پھر بری طرح کے پی کے جانے کو مچلنے لگا لیکن وہ بھی صرف مانسہرہ اور بنوں تک وہ بھی اس لئے کہ وہاں ان کی عطا کی ہوئی وزارتیں ہیں اور بنوں کا انتخاب ا س لیے بھی کیا گیا ہے کہ وہاں مولانا فضل الرحمان نے اپنی پوری جماعت کو یہ جلسہ کامیاب کرانے کا ٹاسک سونپ دیا ہے اور ایک طرف جہاں مو لانا فضل الرحمان نے اپنی جماعت کے کارکنوں کو حرکت میں آنے کا اشارہ کر دیا ہے تو دوسری جانب میاں نواز شریف نے بھی اسحاق ڈار کو مولانا کی جھولی میںآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے اکٹھی کی ہوئی دولت ڈالنے کی تاکید کر رکھی ہے ۔۔۔اور نواز لیگ چونکہ جانتی تھی کہ مانسہرہ میں جہاں میاں نواز شریف کا جلسہ کیاجا رہا ہے وہاں ایک یونیورسٹی قائم ہے اور وہاں کے طالب علم دہشت گردوں کے ہاتھوں چارسدہ کے شہید ہونے والے اپنے ساتھیوں کی الم ناک موت کا غم ابھی تک نہیں بھولے اس لئے وہ غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف لازمی احتجاج کریں گے ا س لئے وزیر اعظم نواز شریف کے جلسہ کے اعلان کے ساتھ ہی دو دن کیلئے یونیورسٹی کو زبردستی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔۔۔۔اور پھر یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے بنوں میں ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کے جلسہ کو سامنے رکھتے ہوئے ضلع کے تمام تعلیمی اداروں کو دو دن کیلئے بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
چار سدہ یونیورسٹی میںجب مائوں کے بچے قتل کئے گئے جب کے پی کے چارسدہ کی درسگاہ خون سے رنگین کر دی گئی جب ہر گھر میں بیٹھی ہوئی ماں اپنا کلیجہ مسوس کر رہ گئی جب ہر آنکھ اشک بار ہو گئی جب کرب ناک چیخیں دلوں کو چیر نا شروع ہو گئیں اس وقت حکمرانوں کا دل ذرا سا بھی نہ پسیجا لیکن جب پانامہ لیکس نے دنیاکوبتانا شروع کر دیا کہ فلاں فلاں چور ہے تو مانسہرہ اور بنوں کے عوام کی یاد آ گئی ۔۔۔۔اور شرمناک بات یہ ہوئی کہ مانسہرہ میں ایک ایسے پراجیکٹ کا چوتھی دفعہ افتتاح کرنے کیلئے پہنچ گئے جس کا1990 ء سے اب تک تین دفعہ افتتاح پہلے ہی افتتاح کیا جا چکا ہے ان میں سے ایک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھوں اور دو دفعہ میاں نواز شریف کے اور اب وہی پروجیکٹ چوتھی دفعہ افتتاح کی نظر کیا گیا ہے۔کیا یہی وہ سیا ست ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو سیا ست کا علم ہی نہیں کیا مانسہرہ کے پی کے کی عوام کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے کہ اسے جو چاہے جب تک چاہے اور جس طرح چاہے بیوقوف بناتا رہے ان کا مذاق اڑاتا رہے؟۔ اب بھی مولانا فضل الرحمان کو خوش کرنے کیلئے بنوں میں نہ جانے کون کون سے نئے پروجیکٹس کی منظوری دی جا رہی ہے لیکن وزیر اعظم نواز شریف صاحب کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پانامہ لیکس پر عوام کو جھوٹ کے پردوں میں چھپا کر کب تک چھپے رہ سکتے ہیں جو سچ ہے اس نے باہر آنا ہی ہے اور جو جھوٹ ہے اس نے منہ کے بل گرنا ہی ہے یہ فیصلہ ہے میرے اور آپ سب کے خدائے بزرگ و بر تر کا ہے۔۔۔۔!!