تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-05-2016

لافانی انسانی عظمت؟

بطور انسان ، سب سے بنیادی خوف جو ہمیں لاحق ہوتاہے ، وہ روزگار، رزق کمانے کا ہے ۔ یہ خوف انسان کو مار ڈالتاہے کہ کل اسے اور اس کے اہلِ خانہ کو خوراک ملے گی بھی یا نہیں ۔ کروڑوں بے روزگار پاکستانی نوجوان اسی خوف تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ کم علمی ہے۔ اس زمین پر جاندار اس طرح سے زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔ ایک کھا چکنے کے بعد جب ہڈیاں چھوڑتا ہے تودوسرے کو خوراک ملتی ہے ۔ ایک مرتاہے تو دوسرے کو کھانا میسر آتا ہے ۔ جانوروں کا فضلہ زمین کی زرخیزی کا باعث ہوتاہے ۔ پانی، آکسیجن، کاربن ، سب چیزیں ایک چکر (Cycle)میں گھومتی رہتی ہیں ۔ ان چکروں کی بدولت عناصر کی مقدار میں کمی بیشی دوبارہ سے ایک تناسب میں آجاتی ہے ۔ 
زمین ہمیشہ تباہ ہوتی رہی ہے ۔ یہ آج جو کوئلہ، تیل اور گیس ہم استعمال کرتے ہیں ، یہ انہی تباہیوں کی مرہونِ منت ہے ۔ یہ انہی جنگلات اور جانداروں کی باقیات ہیں ، جو زیرِ زمین دفن ہو جایا کرتے ۔ کروڑوں برس میں جانداروں کے یہ جسم اس مفید ایندھن میں تبدیل ہوئے، آج ہم جن سے مستفید ہو رہے ہیں۔اسی طرح آج سے اڑھائی ارب سال پہلے ایک جاندار ، سیانو بیکٹیریا نے سورج کی روشنی سے آکسیجن پیدا کرتے ہوئے بیس کروڑ سال میں آکسیجن کا ایک انقلاب بر پا کیا۔ آج کا انسان اور دوسری ساری مخلوقات کبھی پیدا نہ ہوتیں ، اگر ایک حقیر بیکٹیریا یہ انقلاب برپا نہ کرتا۔ 
آج کرئہ ارض پر آباد سات ارب انسان خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ یہ تصور ہی عجیب لگتا ہے کہ کبھی ہم مکمل طور پر مٹ سکتے ہیں ۔ دوسری طرف تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ بڑی تباہی کسی بھی وقت جنم لے سکتی ہے ۔ دوسرے جانوروں کے ساتھ انسان بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتاہے۔ اس تاریخ پہ ذرا ایک نظر تو ڈالیے ۔ اڑھائی ارب سال پہلے آکسیجن پیدا ہوئی ۔ ایک ارب بیس کروڑ سال پہلے یک خلوی جانداروں میں جنسی تولید کا عمل شرو ع ہوا۔ آج سے 80کروڑ سال پہلے ، پہلی دفعہ کثیر خلوی جاندار پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد زمین ایک برفانی دور(Ice Age)سے گزری ، جو کہ کم و بیش بیس کروڑ سال تک جاری رہی۔ ساٹھ کروڑ سال پہلے آکسیجن کی مدد سے اوزون کی حفاظتی تہہ نے جنم لیا۔
پچاس کروڑ سال پہلے کیمبرین دھماکے (Cambrian Explosion)کی صورت میں جاندار وں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اب جاندار بڑھتے رہے اور پہلی بار زمین پہ پودے اگنے لگے ۔زمین اب بھی کیچڑ سے بھری ہوئی تھی۔ کیڑے اس پہ رینگتے رہتے اورہم جیسے نازک مزاجوں کے لیے یہ رہنے کے قابل نہیں تھی ۔ آج سے پچیس کروڑ سال پہلے زمین کی تاریخ کی بدترین ہلاکت خیزی ہوئی ۔ تاریخ میں اسے پرمین عالمگیر ہلاکت (Permian Mass Extinction)کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔ 100میں سے 96جاندار ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے ۔ اس کے بعد تین کروڑ سال کے طویل عرصے میں بمشکل تمام جاندار دوبارہ پیدا ہوئے ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ ہمیںاس زمین پہ صرف دو لاکھ سال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے 1.5لاکھ سال کا انسان اور ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال پہلے کوئی بڑا واقعہ پیش آیا ۔اس کے بعد سے انسان کرّئہ ارض پہ پھیلتا چلا گیا۔ اس نے ہر قسم کے اوزار بنائے اور ہر قسم کی تسخیر کی ۔ 
پچیس کروڑ سال پہلے جو پرمین ہلاکت خیز دور گزرا، اس کے بعد کرئہ ارض پہ ڈائنا سار حکومت کرتے رہے (تب تک انسان کا کوئی نام و نشان نہیں تھا)۔ چھوٹے جاندار میملز موجود تھے لیکن ظاہر ہے کہ ڈائنا سارز کے مقابلے میں ان کا زیادہ تر وقت چھپتے چھپاتے ہی گزرتا۔ دس کروڑ سال پہلے شہد کی مکھی پیدا ہوئی ، آٹھ کروڑ سال پہلے چیونٹی۔ 6.6کروڑ سال پہلے ایک دمد ار ستارہ زمین پر گرا اور کرّئہ ارض کی آدھی سے زیادہ جاندار نسلیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئیں۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ ڈائنا سار ختم ہوئے، جن کی موت کے بعد چھوٹے میملز تیزی سے پھلے پھولے۔ چھ کروڑ سال پہلے پرندے نمودار ہوئے ۔ آج سے ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے سے بہت سی انسانی نسلیں دکھائی دیتی ہیں ۔ آج ہم نے انہیں مختلف نام دئیے ہیں ، بالکل اسی طرح ، جیسے ڈائنا سار کی مختلف قسموں کو ہم نے مختلف نام دئیے ہیں۔ یہ پیدا ہوتے رہے ، لڑتے او رناپید ہوتے رہے ۔ 
ساڑھے تین لاکھ سال پہلے یورپ کا انسان نی اینڈرتھل نظر آتاہے ۔ اور دو لاکھ سال پہلے ہمارے آبائو اجداد ۔ نی اینڈرتھل چھوٹے قد کے قدرے چوڑی جسامت اور بڑے سر والے انسان تھے۔ ان کے ان گنت ڈھانچے اور ڈی این اے آج مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں ۔ ان کے ڈی این اے کا مکمل مطالعہ بھی کیا گیا ہے ۔ یہ سخت جان انسان تھا ، سردآب وہوا اسے سازگار تھی ۔اس کے نقش و گار موٹے تھے۔ ان میں نزاکت اور خوبصورتی نہیں تھی ۔ 
آج سے غالباً پچاس ہزار سال پہلے کوئی حادثہ پیش آیا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کہتے ہیں کہ یہ جنت سے آدمؑ کے زمین پہ اترنے کا وقت تھا۔ ماہرین کاکہنا یہ ہے کہ اس کے بعد انسان کی چھب ہی نرالی تھی ۔ دوسری طرف تیس ہزار سال پہلے دیکھئے تو نی اینڈرتھل ناپید (Extinct)ہوتا دکھائی دیتاہے ۔ ہمارے آبائو اجداد میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔دوستوں کے ساتھ اپنے تجربات، اپنی مہارت (Speciality)کا تبادلہ کرتے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد ایک دوسرے سے اشیا اور تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے ۔ نی اینڈرتھل میں یہ خصوصیات نظر نہیں آتیں۔ اس کے باوجود تاحال ماہرین کوئی حتمی رائے نہیں دے سکے کہ وہ کیونکر ناپید ہوا۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ زمین کی آب و ہوا گرم ہو رہی تھی اوریہ اسے سازگار نہیں تھی ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر یہ کہتے ہیں کہ نی اینڈرتھل آدم خور تھے۔انہوں نے باہم ایک دوسرے کا خاتمہ کر دیا۔ 
وہ پانچ ارب مخلوقات جو کبھی اس زمین پہ آباد تھیں اور جو ناپید ہو گئیں ، ان میں اگلا نمبر ہمارا بھی ہو سکتاہے ۔ ہمیں صرف اور صرف عقل اور خواہش میں سے ایک کے انتخاب کی خاطر پیدا کیاگیا ہے ۔ لافانی انسانی عظمت کو ئی چیز نہیں ۔ انسان نے خود اپنا دماغ تشکیل نہیں دیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved