تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     12-05-2016

ستونِ دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

''تیس نوجوان میرے پاس آئے اور اپنے آپ کو ندی‘ نالوں‘ پلوں وغیرہ کی نگرانی پر مامور رضاکار دستے میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ ان میں ایک بچہ بھی تھا‘ میں نے کہا: بیٹا تم بہت چھوٹے ہو‘ واپس چلے جائو‘ بچہ میری بات سن کر اپنی ایڑیوں پر کھڑا ہو گیا اور بولا: ''میجر صاحب ہُن تو بڑا ہوئے گاشے‘‘ (میجر صاحب اب تو میں بڑا ہو گیا ہوں) میں اس بچے کا جذبہ دیکھ کر تڑپ اٹھا‘ اور مجھے ابوجہل کو واصل بہ جہنم کرنے والے دو بچے معاذ ؓ اور معوذؓ یاد آ گئے جن میں سے ایک نے اسی طرح ایڑیاں اٹھا کر رسولﷺ سے جہاد میں شامل ہونے کی اجازت طلب کی تھی۔ میں نے بچے کو سینے سے لگایا اور باقی جوانوں کو ہائی کمان کا حکم پامال کرتے ہوئے ضروری حفاظتی سامان دے کر مناسب مقامات کی سکیورٹی سونپ دی‘‘۔ 
برادرم آصف محمود کا شکریہ کہ انہوں نے میجر (ر) ریاض حسین ملک کا ٹیلی فون نمبر عطا کیا‘ اور میجر صاحب کی مہربانی کہ انہوں نے مجھے 1971ء میں ''البدر‘‘ کی تشکیل کا پس منظر بتایا۔ گزشتہ روز بنگلہ دیش میں پاکستان سے وفا کے جرم میں پھانسی پانے والے مطیع الرحمن نظامی کا تعلق بھی اسی ''البدر‘‘ سے تھا‘ جس کا نام سن کر بھارتی‘ بنگلہ دیشی اور بعض پاکستانی دانشور ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ میجر صاحب بتاتے ہیں کہ ''راجشاہی میں فوج کی نفری بہت کم تھی۔ بھارت نے مکتی باہنی کو تخریبی کارروائیوں کی تربیت دے کر مشرقی پاکستان میں داخل کر دیا تھا‘ اور وہ سب سے زیادہ ندی نالوں‘ پلوں کو نشانہ بناتے تاکہ فوجی آمد و رفت متاثر ہو‘ اور اسے خوراک‘ ادویات اور اسلحے کی ترسیل میں مشکل پیش آئے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب 25 مارچ کی بغاوت کے بعد تمام بنگالیوں کو غیر مسلح کرنے کا حکم مل چکا تھا۔ میرے پاس چند نوجوان آئے‘ جن کا تعلق اسلامی چھاترو شنگھو سے تھا۔ نوجوانوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ پاکستان کے دفاع کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے آزمانے کے لئے انہیں کہا کہ آپ لوگ فلاں فلاں پل پر پہرا دیں‘ جہاں سے مکتی باہنی کے شر پسندوں کی آمد و رفت کا خطرہ تھا۔ وہ آمادہ ہو گئے اور بولے: ہمیں اپنی حفاظت کے لیے کچھ دیں۔ یہ سن کر میں اندر گیا اور سورہ یٰسین کا ایک نسخہ لا کر انہیں تھما دیا اور کہا اپنی حفاظت کے لیے تم لوگوں کو اس کے سوا کچھ نہیں دے سکتا‘‘ 
''نوجوان یہ سن کر مایوس نہیں ہوئے بلکہ میرے دیئے ہوئے ٹاسک کو پورا کرنے کے لیے متعلقہ مقام پر پہنچ کر ڈیوٹی دینے لگے۔ بانس کے ڈنڈے ان کے ہاتھ میں تھے اور وہ جدید اسلحے سے لیس بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی کے لیے سدّ سکندری بن گئے۔ دوبارہ انہوں نے اسلحہ مانگا نہ کوئی دوسری فرمائش کی۔ انہی کی دیکھا دیکھی وہ تیس نوجوان میرے پاس آئے‘ جن میں سے ایک بچہ ایڑیاں اٹھا کر اپنے آپ کو رضاکاروں کے دستے میں شامل ہونے کی فرمائش کر رہا تھا۔ میں نے اس رضا کار دستے کو اس بچے اور جنگ بدر کی مناسبت سے ''البدر‘‘ کا نام دیا۔ چند دن بعد ہائی کمان نے پوچھا کہ اس فسادہ زدہ علاقے میں امن کیسے قائم ہو گیا‘ تو میں نے راز فاش کیا اور حکم عدولی کی وضاحت بھی کی کہ سارے بنگالی ناقابل اعتماد نہیں۔ میں نے بھارت کے وفاداروں کے مقابلے میں پاکستان کی وفادار ایک فورس کھڑی کر دی ہے‘ جو دفاع وطن کا فریضہ ایمانی جذبے سے ادا کر رہی ہے تب یہ رضا کار تنظیم پورے مشرقی پاکستان میں قائم کر دی گئی‘‘
میجر (ر) ریاض حسین ملک نے مزید بتایا کہ ''ایک بنگالی نوجوان میرے پاس آیا جو ''البدر‘‘ سے وابستہ تھا اور بتانے لگا کہ میرا بڑا بھائی انڈیا جا کر پاکستانی فوج کی مخبری اور ٹریننگ لے کر مشرقی پاکستان میں سبوتاژ کی کارروائی کرتا ہے‘ آپ براہ کرم اسے گرفتار کر لیں۔ میں نے نوجوان سے کہا کیا: تم بقائمی ہوش و حواس مجھ سے اپنے بھائی کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہو‘ تم جانتے ہو کر دشمن ملک کا ایجنٹ اور مخبر غداری کا مرتکب ہوتا ہے اور اگر یہ جرم ثابت ہو جائے تو اسے سزائے موت ہو سکتی ہے‘ جس سے تمہیں اور تمہارے ماں باپ کو دکھ ہو گا۔ نوجوان بولا سر! جو شخص اسلام اور پاکستان سے غداری کا مرتکب ہو اسے میری ماں کبھی دودھ نہیں بخشے گی۔ اور مجھے بھی دکھ نہیں ہو گا۔ اسلام اور پاکستان سے وفاداری میں اپنے قریب ترین رشتوں کی پروا نہ کرنے والے یہ نیک نفس‘ خدا اور آخرت کے خوف اور قربانی کے جذبے سے سرشار بے لوث نوجوان کسی جرم کا ارتکاب کر سکتے تھے‘ نہ شہوانی و نفسیاتی خواہشات سے مغلوب تھے کہ غیر انسانی جنگی جرائم کے مرتکب ہوتے‘‘۔ یہ کہہ کر فون پر میجر صاحب کی آواز بھر ا گئی اور وہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ ''حسینہ واجد محض اپنا اقتدار بچانے اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے عبدالقادر ملّا‘ مولانا غلام اعظم‘ احسن علی مجاہد‘ صلاح الدین قادر چودھری‘ اور مطیع الرحمن نظامی سے انتقام لے رہی ہے‘ مگر مجھے افسوس اپنے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں پر ہے جو بے بسی اور بے حسّی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر یہی حالت رہی تو خدشہ یہ ہے کہ خدانخواستہ لوگ پاکستان سے وفا کرنے والوں کا یہاں بھی مذاق اڑائیں‘‘۔
بلاشبہ بھارت نے پاکستان‘ اس کی فوج اور وفادار رضا کاروں کو بدنام کرنے کے لیے مفسدانہ پروپیگنڈا کیا۔ فیلڈ مارشل سیم مانک شا اعتراف کر چکے ہیں کہ مکتی باہنی کی ظالمانہ کارروائیاں پاک فوج اور رضا کاروں کے کھاتے میں ڈال دی گئیں‘ اور مغربی میڈیا کے علاوہ جس جس کو پاکستان کی نظریاتی شناخت پسند ہے نہ اسلام سے رغبت اور جو پاکستان و اسلام کی نام لیوا قوتوں کے علاوہ فوج سے خدا واسطے کا بیر رکھتا ہے‘ اس نے بھارت کے اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھایا ''البدر‘‘ و ''الشمس‘‘ کو مکتی باہنی سے زیادہ ظالم فورس ظاہر کیا۔
مطیع الرحمن نظامی پر فرد جرم عائد ہوئی تو اس میں پاکستان سے وفاداری اور پاک فوج سے تعاون کی شق سرفہرست تھی۔ 1974ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے قوم کی بھرپور مخالفت کے باوجود بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا‘ تو ایک قوم پرست اور محب وطن رہنما کے طور پر شیخ مجیب الرحمن سے یہ ضمانت طلب کی کہ بنگلہ دیش نہ تو پاکستان کے وفادار کسی بنگالی سے انتقام لے گا اور نہ کسی پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلائے گا۔ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے اس معاہدے کو باضابطہ طور پر تحفظ فراہم کیا‘ اور آئین میں ایک شق رکھی گئی مگر حسینہ واجد نے اپنی آتش انتقام بجھانے کے لیے یہ معاہدہ اور آئینی شق یکطرفہ طور پر منسوخ کر کے پھانسی گھاٹ کا دروازہ کھول دیا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مطیع الرحمن نظامی جیسے لوگ بنگلہ دیش میں رہ کر پاکستان سے وفا کے تقاضے نبھا رہے ہیں مگر جماعت اسلامی کے سوا پاکستان میں کوئی ان کے حق میں بول رہا ہے‘ نہ کسی نے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نہ سرکاری سطح پر کوئی سفارتی مہم چلائی گئی۔ ہر موقع پر ترکی کے صدر طیب اردوان نے صدائے احتجاج بلند کی مگر پاکستان کے موجودہ اور سابق صدر ‘وزیر اعظم گونگے‘ بہرے بنے رہے۔ کسی نے یہ بھی نہ سوچا کہ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں ریاست اور فوج کا ساتھ دینے والے محب وطن پاکستانیوں‘ کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ یہی کہ پاکستان سے وفاداری کل بھی جرم تھی‘ آج بھی جرم ہے۔ وہاں بھی جرم‘ یہاں بھی جرم‘ جن لوگوں نے 1971ء میں دفاع وطن کے لیے تن من دھن کی بازی لگائی وہ تب بھی معتوب تھے اب بھی معتوب ہیں‘ اور منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ داروں کا مقدر اقتدار ٹھہرا اور وفاداروں کے لیے دار و رسن۔ مطیع الرحمن نظامی تو اقبالؒ اور قائد اعظمؒ اور اپنے اللہ (تعالیٰ) کے سامنے سرخرو ہیں مگر ہم؟ 
قومی اسمبلی میں مطیع الرحمن نظامی کی شہادت پر قرار داد منظور ہوئی۔ چند جذباتی تقریریں بھی سننے کو ملیں اور بس۔ کیا ایک نیو کلیر ریاست کا یہی ردعمل کافی ہے؟ پاکستان کے وفادار اس حسن سلوک کے مستحق ہیں؟ خدا توفیق دے تو سوچنا ضرور چاہیے۔ مطیع الرحمن اپنے اعمال‘ جذبہ وفاداری اور پاکستانیت کے ساتھ خدا کے حضور پیش ہو گئے، بنگلہ دیش اور پاکستان میں جنازے کے اجتماعات ہماری خفّت‘ بے بسی اور شرمندگی کا اظہار ہیں ؎
چلے وہ غنچوں کی مانند مسکرا کے چلے
پر اپنے چاہنے والوں کو خوں رلا کے چلے
گلوں کے سینے ہیں زخمی‘ کہیں دکھ نہ جائیں
کہو صبا سے کہ دامن بچا کے چلے
نفس‘ نفس کو رہِ عاشقی میں کر کے نثار
تم اہل دل کا ساجینا سکھا کے چلے
ترے جنازے پہ نظریں ہیں دونوں خطّوں کی
زمینِ پاک کے دونوں سرے ملا کے چلے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved