عمران خان کے جلسوں میں جس ہولناک رجحان کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ خواتین کی بے حرمتی ہے۔ ان جلسوں میں ہوس کے پجاریوں کی وحشت ناک حرکات معمول بن چکی ہیں۔ لاہور میں ہونے والا ہوس کی وحشت کا کھلواڑ سب حدیں پار کرگیا تھا۔ستم یہ ہے کہ ان واقعات کو طرفین الزام تراشی کی ضرورت کی تکمیل کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔ الزام تراشی کرنے والے لیڈر اور پارٹیاں معاشرے کو لاحق اس' ناسور‘ کی علامات کی تشخیص کرکے (اور وہ بھی غلط) ان کو ختم کرنے کی بجائے، اسی بیمار معاشرے کی طوالت کی سیاست اور پالیسیوں کی محکومی کی ہی غمازی کرتی ہیں۔ تجزیہ نگار اور مفکرین بھی اسی سطحی سوچ اور ظاہر پرستی کے فلسفے کے تحت ہی ان بھیانک 'حادثات‘ کا واقعاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ کوئی عوام کو یہ باور کروانے کے لیے تیار نہیںکہ ایسے غیرانسانی رویے اور حرکات کے پیچھے جو نفسیاتی الجھنیں، محرومیاں اور بیماریاں ہیں‘ ان کی وجہ کیا ہے؟ اگر ہم کسی بھی معاشرے کے سیاسی یعنی سطحی کردار اور حکمرانوں کے معیار کا تعین کریں تو اس میں یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ سماج میں معاشی زوال، سماجی پستی اور محرومی کی ذلت کس حد تک شدت اختیار کر گئی ہے۔ جب مختلف قسم کی محرومیوں کی ذلت‘ معاشرے کی رگوں اور شریانوں کے ساتھ ساتھ اس کے مختلف اعضا میں کسی ناسور کی طرح سرایت کر جاتی ہے تو پورا سماج اس اذیت سے شدید خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ محرومی جب بہت وسیع اور دیوہیکل ہوجائے اور اس کے ازالے کے وسائل اور راستے محدود ہوجائیں تو اس سے نکلنے کے لیے ایک اندھی اور جنونی دوڑ شروع ہوجاتی ہے، جس میں خود غرضی کی مسلط نفسیات ہر کسی کو روند کر آگے بڑھ جانے کے نیم پاگل پن کو جنم دیتی ہے۔ بدعنوانی، دھوکہ دہی، جھوٹ اور فریب معاشرے کا معمول بن جاتے ہیں۔ اس منافقت سے لبریز اخلاقیات میں ہر کوئی وہ بننے کا ڈھونگ کر رہا ہوتا ہے جو شاید وہ ہوتا نہیں ہے۔ لیکن اس منافقت کے نقاب کے پیچھے ہر قسم کی محرومی کا بڑھتا ہوا لاوا ‘جس ہوس کے طوفان کو مسلسل مجتمع کر رہا ہوتا ہے، اس کو جب موقع ملتا ہے تو وہ پھٹ پڑتا ہے۔ دولت اور جائیداد کے حصول کی ہوس کو جب غصب کرنے کا تھوڑا سا بھی موقع ملتا ہے تو یہ اس حد تک بھیانک ہو جاتی ہے کہ خاندانی رشتوں کے ساتھ ساتھ عمر بھر کے یارانوں اور گہرے مراسم کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ اسی طرح جنسی ہوس بھی اتنی بڑھ چکی ہے کہ عورت کو دیکھتے ہی یہ بیشتر مردوں میں بھڑک اٹھتی ہے اور پھر یہ کئی مرتبہ ایسا جنون بن جاتی ہے کہ عورت کے جسم کو ایک استعمال کی جنس سمجھ کر نوچ نوچ کر لوٹ لینے کی درندگی کے مظاہرے کرواتی ہے۔ جہاں اس معاشرے میں عورت کی تکریم کے بارے میں فتوے دیے جاتے ہیں، سرمائے کی سیاست اور فکر کے اَن داتا اپنے اپنے لبرل یا مذہبی انداز میںعورت کی عزت واحترام کا واویلا مچائے رکھتے ہیں، وہاںاہل دانش، پرہیز گار اور نیک و ذہین افراد بھی اپنی ہوس کی اس وحشت کا بھیانک مظاہرہ کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ جو اپنی خود داری ، نیک نامی اور شرافت کا پرچار کرواتے رہتے ہیں وہ ایسی حرکات کرتے ہیں کہ عام انسان صدمے میں آجاتا ہے۔ یوسف حسن نے ایسے معاشرے کے بارے میں کہا تھا ؎
آندھی میں بھی نہ جن کا نشانِ انا گرے
باب ہوس کھلا تو وہ ٹکڑوں پہ جا گرے
اگر عورت کے بارے میں بڑے بڑے نامی مردوں کی اصل حقیقت یہ ہو تو ایسے معاشرے میں عام نوجوانوں‘ خصوصاً معاشرے کی محروم پرتوں کے افراد کا‘ ایسے جمود اور سماجی گھٹن میں جو ردعمل سامنے آتاہے، وہی ہمیں عمران خان کے جلسوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن خواتین کو بن سنور کر آنے پر اعتراض کرنے والے رجعتی سیاست دانوں اور ملائوں کا یہ رویہ پھر اسی نفسیات کی غمازی کرتا ہے کہ عورت ایک استعمال کی جنس ہے جس کی ملکیت ہو‘ وہ اس کو پردوں میں ڈ ھانپ کر رکھے، چار دیواریوں کی قید میں بند کرکے رکھے۔ لیکن عورت بھی آخر انسان ہے، جنم جنم سے اس معاشرے میں عورت نے مرد کے شانہ بشانہ کام کیا ہے، معاشرے میں معاشی اور ثقافتی کام اوران کے ارتقاء میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب سے لے کر اب تک یہاںکی دہقان خواتین نے گھریلو مشقت
بھی کی ہے، بچوں کو بھی پالا ہے اور فصلوں کو بھی بویا اور کاٹا ہے۔ تپتی دھوپ میں 'بُرقعے‘ پہن کر گندم کی کٹائی ممکن نہیں ہے۔ اس کی محنت کا معاشرے کے ارتقاء اور ترقی میں مرد سے شاید زیادہ ہی کردار بنتا ہے کیونکہ اس نے کھیتوں اور فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں کوبھی سنبھالا، چلایا اور بنایا ہے۔ تما م تر مشقت اور دوہری تہری محنت کے ساتھ ساتھ عورت میں اپنے پریوارکو خوشیوںکا گہوارہ بنانے کا عزم زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ لیکن جب عمران خان اپنے جلسوں میں یہ سبق پڑھائے گا کہ ''اس خطے کی تاریخ محمد بن قاسم کے سندھ آنے سے شروع ہوتی ہے‘‘ تو اس سے رجعت ہی کو تقویت ملتی ہے، جو یہاں پر مذہبیت کے نام پر مسلط ہے۔ جہاں ایسے'' نظریات‘‘ کا پرچار ہو رہا ہو، وہاں فیشن ایبل درمیانے طبقے کی خواتین کو ہوس کی نفسیات ، تضحیک اور جنسی حملوں ایسے واقعات کا سبب سمجھنے کے لئے راکٹ سائنس درکار نہیں ہوتی۔ لیکن دوسری جانب یہاں کی لبرل سیکولر سول سوسائٹی کا اپنا المیہ ہے۔ یہ لوگ خواتین کی آزادی کو میک اپ، کار ڈرائیونگ، مغرب زدہ لباس اور کیٹ واکس وغیرہ جیسے 'کارناموں‘ سے جوڑتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کی خواتین کا وسیع تر حصہ جن مزدور اور دہقان طبقات سے تعلق رکھتا ہے، ان کے پاس تو روٹی روزی کی کشمکش سے ہی فرصت نہیں، وہ ایسی ثقافتی اور ماڈرن سرگرمیوں کو جاننے سے محروم ہیں۔ عورت
کو اشتہاروں میں اشیاء کی مارکیٹنگ کے لیے ایک جنس کے طور پر استعمال کیا جائے یا پھر اس کو مذہب کے نام پر زمانے اور سماج کے ہر ناتے، ہر شعبے میں شراکت سے کاٹ دیا جائے تو یہ دونوں صنفی استحصال اور ظلم کی ہی شکلیں ہیں۔ عورت کو جن تاریخی اور رجعتی توہمات کے ذریعے مردوںسے کم تر انسان بنا کر معاشرے میں پیش کیا جاتا ہے، اس کا بنیادی مقصد عورت کو غلام بنانے کے علاوہ اس کی محنت ‘ سماجی و گھریلو مشقت کا استحصال ہے۔ محنت کش عورت ہمارے ہاں دوہرے استحصال کا شکار ہے، اس کے اندر اس ظلم وجبر کے خلاف نفرت اور حقارت کا لاوا ابل رہا ہے۔ آزادی نسواں یا صنفی جبر و استحصال سے آزادی کا مسئلہ‘ بنیادی طور پر معاشی، اقتصادی اور خاندانی مروجہ ڈھانچوں سے آزادی کے ساتھ منسلک ہے۔ اس نظام زر کو چلانے کے لئے محنت کش خواتین استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ اس نظام میں جنسی طور پر ہراساں ہونے کی صورت میں انہیں تحفظ فراہم نہیں ہوتا‘ اس طرح انہیں کمزورا ور مجبورکیا جاتا ہے۔ خواہ مذہبی رجعت کا جبر ہو یا عورت کو 'نمائشی جنس‘ بنانے کا لبرل ازم کاستم‘ اسی نظام کے ڈھانچوں کے ذریعے ہی ان پر مسلط کیا جاتا ہے۔
لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا: ''ہر سماج کے تمام دھارے جس نقطے اور محور پر مرکوز ہوتے ہیں وہ ماں ہوتی ہے۔ جب تک ماں آزاد نہیں ہوتی معاشرہ محکوم رہے گا‘‘۔ صنفی جبر سے آزادی' طبقاتی جدوجہد کا ایک بنیادی حصہ اور انقلابی سوشلزم کے مقاصد کا بنیادی جز ہے۔ جب بھی یہا ں کے محنت کش کسی انقلابی بغاوت پر اتریںگے، عورت اس میں ہراول دستہ ہوگی۔ لاتعداد انقلابات کی تاریخ اس کی گواہی ہے۔