تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-05-2016

فولاد ہے مومن

افغانستان سے ملحق انتہائی بلند اور دشوار گذار پہاڑوں اور ان کے درمیان بنی ہوئی مضبوط دفاعی چوٹیوں پر قابض دنیا کے بہترین اور تباہ کن اسلحہ کے انباروں سے لیس دہشت گردوں کو ان کے مضبوط ٹھکانوں سے پیچھے دھکیلتے ہوئے اُن کی جگہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانا کوئی قصہ کہانی نہیں نہ ہی کسی فلم کے کمپیوٹر پر تیار کر دہ مناظرہیں بلکہ ان انسانوں کے کارنامے ہیں جن کے جسم تو بے شک گوشت پوست کے ہیں لیکن ان کے ارادے اور ولولے فولادی ہیں۔۔۔۔ سوچئے! آپ 9 ہزار سے بھی بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کے چاروں جانب بے تحاشا تباہ کن اسلحہ سے لیس مورچہ زن ہیں۔ شدید برف باری کے باعث درجہ حرارت منفی بارہ ہے ۔نیچے سینکڑوں فٹ کی گہرائی سے کوئی اوپر چڑھتے ہوئے آگ و بارود کی بارش میں سے گزرتا ہوا وہ چوٹی چھین لے، جن پر قابض ہر دہشت گرد خود کش حملہ آور بننے کیلئے تیار بیٹھا ہو ۔عقل حیران ہے محو تماشائے لب بام ابھی۔ آتش نمرود میں بے خطر کودنے کا کام وہی کر سکتے ہیں جن کی رگ رگ میں ستائیس رمضان المبارک کی شب اﷲ کے نام سے وجود میں آنے والے وطن کی عزت و حرمت کا جذبہ موجزن ہو۔ جن کے دلوں میں دنیا کی ہر آسائش اور رنگینیوں کے مزے لینے کی بجائے اپنے خون سے وطن کو سر سبز اور رنگین کرنے کی تمنا ہو۔ پا ک فوج نے ضرب عضب کے آخری مرحلہ میں اس ہمت اور شجاعت سے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے۔اگر کبھی ہالی وڈ والوں نے دوسری جنگ عظیم کے معرکوں کی کوئی فلم بنانے کا ارادہ کیا تو ان کے پاس وادی شوال کو دنیا کی پانچ سے زائد دہشت گرد تنظیموں سے آزاد کرانے سے بڑا حوالہ کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔وادی شوال جہاں ہر جھاڑی کے پیچھے دشمن، ہر پہاڑی اوٹ سے چپکا ہوا بد ترین دشمن، بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی گزر گاہیں اور پہاڑی راستوں سے گزرتے ہوئے خود کش جیکٹیں پہنے ہوئے دشمن سے دو بدو مقابلہ کرتے ہوئے اسے آزاد کرنا یہ گوشت پوست کے انسانوں کا کام نہیں بلکہ فولادی مومنوں کی شان ہے جو اپنے ایمان کی تجلی سے برق کی طرح لپکتی ہے۔ایک جانب لاالٰہ الا اﷲ کے نام سے حاصل کئے گئے وطن کی مائوں کے لعل وادی شوال کو دشمنوں سے واپس لینے کیلئے آتش نمرود میں کود رہے تھے پاکستانی فوج کے فولاد صفت جوان اپنے ہم وطنوں کو دہشت گردی کے نا سور سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نجات دلانے کیلئے جانیں نچھاور کر رہے تھے تو دوسری طرف چار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ کی تقریر میں انہیں آئین اور جمہوریت کا درس دے رہے تھے۔ انہیں جتایا جا رہا تھا کہ تم نوے ہزار کی تعداد میں جنگی قیدی بن گئے تھے ۔۔۔ اس سے پہلے بھی اپنے ایک مضمون میں اقوام متحدہ کے سرکاری ریکارڈ کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ پاکستانی فوج کے جنگی قیدی بننے والوں کی کل تعداد34 ہزار تھی باقی پولیس، ٹیلی فون، تار اور ڈاک کے محکموں سے مغربی پاکستان سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ لیکن ایک مخصوص گروہ پاک فوج کے امیج کو گہنانے کے لیے مسلسل یہی تاثر دیتا چلا آ رہا ہے کہ مشرقی پاکستان میں نوے ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے۔ بلاول بھٹو سمیت ایسے تمام حضرات کو چیلنج ہے کہ وہ کسی بھی جگہ اس تعداد کا فیصلہ کر لیں تاکہ سچائی سامنے آ جائے تاکہ جھوٹی سیا ست کی داستان کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے ۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ایک ایک حصے پر ہونے والی اس لڑائی کو نہ قوم ہی اچھی طرح جان سکی ہے اور نہ ہی ہمارے سیا ستدان، ورنہ وہ کبھی بھی نوے ہزار کے طعنے نہ دیتے ۔۔۔انشااﷲ اپنے اگلے کالم میں بلاول بھٹو کو جواب دیتے ہوئے انہیں1971ء کی جنگ کے فوری بعد وادی لیپا میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ کا منظر سنائوں گا اس سے اندازہ کیا جا سکے گا کہ ہماری فوج نے سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت سے کس طرح بدلہ لیتے ہوئے ان کے ایک سو سے زیا دہ فوجی افسر اور جوان قیدی بنائے؟۔
شوال اور اس کے ارد گرد کی پہاڑی چوٹیوں پر دہشت گردوں کا صفایا پاکستان کے اس مشن اور مقصد کو واضح کرتا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی آخری پناہ گاہوں کو نیست و نا بود کرنے پر تلا ہوا ہے کیونکہ 
اس وقت وہ لوگ جو پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان تو خود ان سے کہیں زیا دہ دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے ایک ہی مقصد رہا ہے کہ اپنے ہمسایہ افغانستان سے بھر پور تعاون کرتے ہوئے وطن عزیز سے دہشت گردی کی جڑوں کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس طرح اکھاڑ دیا جائے کہ ان کا کوئی نشان تک بھی باقی نہ رہے لیکن اس کیلئے عالمی طاقتوں کو بھی منافقت سے دوررہتے ہوئے ہر اس قوت کو رستے سے ہٹانا ہو گا جوپاکستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بکھیر رہی ہیں۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ جانے پہچانے ہمسائے نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہے ہیں بلکہ ان کی سرکاری پالیسی ہی یہی ہے کہ دہشت گردی کے ذریعے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا جائے اور اس کیلئے امریکہ کی وزارتِ خارجہ، وزارت دفاع،کانگریس اور سینیٹ کے اراکین کو کل بھوشن یادو کی گرفتاری اور اس کے اعترافات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا کہ افغان حکومت کے کچھ طاقتور حلقوں اور بھارت کی ملی بھگت سے کی جانے والی دہشت گردی پر ان کا اپنا رد عمل اور پالیسی کیا ہوتی؟۔اب وقت آ ن پہنچا ہے کہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرنے کی بجائے بھارت کوشٹ اپ کال دی جائے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر یہ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ ''ظلم بھی رہے اور امن بھی ہو‘‘۔آخر کب تک پاکستان ہاتھ پائوں بندھوا کر مار کھاتا رہے گا۔
نہ جانے وہ ایک چھوٹی سی بات ہماری سیا سی حکومت کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی کہ ا گر ان کے دوست نریندر مودی پاکستان سے دوستی رکھنے میں واقعی ہی مخلص ہیں تو پھر بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملے کرنے والے اپنے کمانڈوز واپس کیوں نہیں بلاتے؟۔ تحریک طالبان پاکستان کی مدد سے ہاتھ کیوں نہیں کھینچتے؟۔ افغانستان میں جگہ جگہ کھمبیوں کی مانند اگے ہوئے دہشت گردی کے نیٹ ورک چلانے والے اپنے قونصلیٹ کو کابل تک محدود کیوں نہیں کرتے؟۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مہران بیس کراچی پر بھارت کے ایجنٹ حملہ کرتے ہوئے پاکستان کے انتہائی قیمتی دو اورین طیارے تباہ کرتے ہیں لیکن بھارت سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا کوئی احتجاج نہیں کیا جاتا مگر پٹھان کوٹ پر کئے گئے مبینہ حملے کے نتیجے میںمارے جانے والے سات بھارتی سکیورٹی فورسز کے ارکان پر ہماری حکومت بھارت کے سامنے جھکتے ہوئے گوجرانوالہ پولیس میں مقدمہ در ج کرا دیتی ہے یوں نواز حکومت نے بالواسطہ طور پر پٹھان کوٹ حملے کی ذمہ داری تسلیم کی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے26/11 کے حملے کے دوسرے دن پہلے سے طے شدہ ایک ٹی وی گفتگو میںانہوں نے بھارت اور دنیا کو پیغام دیتے ہوئے بتایا ''کہ اجمل قصاب فرید پور کا رہنے والا ہے اور ایجنسیاں، میڈیا سمیت کچھ این جی اوز کو فرید پور جانے سے روک رہی ہیں۔ یہ بات میاں نواز شریف نے اس وقت کہی جب ان کی پنجاب میں حکومت تھی جہاں فرید پور واقع ہے ۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved