تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     12-05-2016

چورن کون خریدے گا؟

پاناما لیکس میں اپوزیشن زیادہ سے زیادہ کیا کر لے گی؟ وزیراعظم کا استعفیٰ لے لے گی۔مگر یہ تو نہیں ہو گا کہ وزیراعظم کی جگہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے یا پھر دوبارہ الیکشن ہوں گے۔ یہ دونوں امکانات نہیں ہوں گے۔ اول تو وزیراعظم آسانی سے استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ پانامہ لیکس میں ان کا اپنا نام موجود نہیں۔ ان کے بچوں کے نام آئے ہیں‘ اب بچے جانیں اور جوڈیشل کمیشن۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اس کے باوجود وزیراعظم سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو وہ اپنی جگہ کسی اور کو نامزد کر دیں گے۔ ممکن ہے چودھری نثار وزیراعظم بن جائیں یا پھر یہ تاج وزیراعلیٰ شہباز شریف کے سر پر رکھ دیا جائے لیکن یہ کبھی نہیں ہو گا کہ وزیراعظم کو ہٹا کر تحریک انصاف یا پیپلزپارٹی برسر اقتدار آ جائے۔ دھرنے میں اس طرح کی ایک کوشش کر کے دیکھ لی گئی تھی اور یہ بات اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ گارنٹرز نے عمران خان کو یقین دلایا تھا کہ انہوں نے اس اس طرح فلاں پلان پر عمل کرنا ہے‘ اتنے لوگ اسلام آباد لے جانے ہیں‘ اتنی لاشیں گریں گی‘ یہ سب ہو گا تو تیسری قوت خوبخودمداخلت پر مجبور ہو گی اور یوں ایک قومی حکومت کے ذریعے عمران خان کے اقتدار میں آنے کا خواب پورا ہو جائے گا۔ خان صاحب غلط فہمی میں اس پلان پر عمل کرتے رہے۔ دھرنے میں انہوں نے رج کر مخالفین خاص کر نواز لیگ اور حکمران جماعت کو لتاڑا‘ ہر ممکن کردار کشی کی اور الزامات لگائے جنہیں میڈیا مسلسل براہ راست نشر کرتا رہا۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا 
ان سے جو کام لیا جا رہا ہے اس کا انہیں معاوضہ نہیں مل سکے گا اور یہی ہوا۔ دھرنے کے بعد خان صاحب نے شادی کر لی اور اعلان کیا کہ اب وہ پوری توجہ خیبر پی کے پر دیں گے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اس سے قبل ان کی توجہ صوبے پر تھی ہی نہیں۔ ایک ڈیڑھ سال یونہی چلتا رہا۔ اب پانامہ لیکس آیا ہے تو تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کی قسمت پھر جاگ اٹھی ہے لیکن یقین مانئے جو خان صاحب اب بھی سوچ رہے ہیں ویسا اب بھی نہیں ہو گا جیسا دھرنے میں نہ ہوا تھا۔ یہ درست ہے کہ ملکی حالات اور معیشت سیاسی تنائو کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتی لیکن اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کا کردار بھی اتنا ہی اہم ہے۔ پانامہ لیکس میں پانچ چھ سو نام آئے لیکن تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کا سارا زور حکمران خاندان کو گرانے پر ہے۔ خان صاحب کو معلوم ہی نہیں پیپلزپارٹی اس مرتبہ تکنیکی کھیل کھیل رہی ہے۔ دھرنے میں گیارہ جماعتیں ایک طرف کھڑی ہو ئی تھیں لیکن اس مرتبہ یہ کام دوسرے طریقے سے ہو رہا ہے۔ بظاہر پیپلزپارٹی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہے لیکن یہ اس تحریک کو جلد ہائی جیک کر لے گی‘ ویسے بھی شاہ محمود کے ہوتے یہ جماعت دھڑے بندیوں کے علاوہ کسی اور چیز کا شکار ہو نہیں سکتی۔ ڈاکٹر عاصم اور دیگر معاملات پر پیپلزپارٹی کو حکمران لیگ سے جو اختلافات تھے، پیپلزپارٹی دراصل وہ حساب چکا رہی ہے۔ وہ حکمران جماعت کو دبائو میں لا کر بارگیننگ کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے کبھی بلاول زرداری سامنے آجاتا ہے تو کبھی چودھری اعتزاز احسن کرپشن پر دھواں دار تقریریں کرنے لگتے ہیں۔جیسے ہی اس کی لائن سیدھی ہوئی‘ یہ حکمران جماعت کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی اور خان صاحب ایک مرتبہ پھر سولو فلائٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اعتزاز احسن کبھی اتنے جوش اور ہوش سے اپنے قائد آصف علی زرداری کی کرپشن کے خلاف کیوں نہیں بولے؟ جب زرداری صاحب نے مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا‘ تب اعتزا ز احسن کہاں تھے؟ جب سرے محل اور چھ کروڑڈالر باہر سے واپس لانے کی آوازیں آتی تھیں‘ تب اعتزاز خاموش کیوں تھے؟ جب یوسف رضا گیلانی سوئس حکومت کو خط لکھنے سے ہچکچا رہے تھے ‘ تب اعتزاز صاحب نے احتجاج کیوں نہ کیا؟ کیوں انہوں نے اس وقت ملک کے مفاد کو مقدم نہ رکھا؟ آج یہ کرپشن کے خلاف یوں چیمپئن بنے ہوئے ہیں جیسے اپنی پارٹی کو‘اپنے گھر کو کرپشن سے پاک کر چکے ہوں!
سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکمران جماعت کے جلسے بے وقت کی راگنی ہیں تو تحریک انصاف کے جلسے ضروری کیسے ہو گئے؟کیا کرپشن کے خلاف عوام یکجانہیں؟ کیا عوام نہیں چاہتے کہ کرپشن ختم ہو؟ اگر ایسا ہے تو پھر جلسے کیوں؟ یہاں ماننا پڑے گا خان صاحب بھی سیاست کے رنگ میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ فیصل آباد جلسہ یہ کہہ کر ملتوی کیا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو لاہور جلسے میں خواتین کی بے حرمتی کا دُکھ تھا۔ لیکن اصل وجوہات میڈیا میں آئیں تو سب نے انگلیاں دانتوں میں دبا لیں۔ فیصل آباد میں پی ٹی آئی کے دو دھڑوں کے درمیان جو چپقلش جاری تھی‘ یہ جلسہ اسی وجہ سے ملتوی ہوا لیکن عوام کو کچھ اور بتایا گیا۔ اسی طرح پشاور جلسہ کرپشن بے نقاب کرنے کی سیریز کا حصہ کہا گیا لیکن اصل میں یہ ضمنی انتخاب کے لئے انتخابی مہم تھی جس کی آڑ میں جلسہ کیا گیا۔ جلسے سے قبل ایک مقامی خاتون ماڈل کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ اس پر خان صاحب نے افسوس کا اظہار تک نہ کیا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا یہ خاتون کسی نے بھیجی تھی؟ اگر بھیجی تھی تو وہاں موجود ٹائیگرز تو پی ٹی آئی کے تھے جنہوں نے اسے مسلسل ہراساں کیا۔ اگر یہ ٹائیگرز بھی مخالفوں نے بھیجے تھے تو پھر پی ٹی آئی کے ورکرز اور ٹائیگرز کہاں تھے جبکہ یہ صوبہ بھی انہی کا تھا؟ جلسے سے خطاب کے دوران گانوں اور بھنگڑوں سے نوجوانوں میں مستی کے جذبات اُمڈ آتے ہیں جس کے نتیجے میں خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ اس پر خان صاحب کی ''ولولہ انگیز‘‘ تقاریر اور جملے کسر نکال دیتے ہیں۔ پشاور جلسے سے خطاب کے دوران خان صاحب نے مولانا فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے فرمایا: ''خاموشی سے میری بات سنیں۔ ابھی آپ کو بڑے مزے آئیں گے‘‘۔یہاں سوال اٹھتا ہے ،کیا لوگ 
جلسوں میں مزے لینے آتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ جن رہنمائوں کو قوم کی فکری اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کرنا تھا‘ وہ آج مخالفین کو ڈیزل اور دیگر القابات سے اس لئے پکار رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ کردار کشی کے ذریعے مخالف کو سیاسی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ یہ المیہ قومی سیاست کا حصہ بن جائے گا‘ کسی نے سوچا نہ تھا۔ آج الزامات کی سیاست کامیابی کا زینہ سمجھی جاتی ہے۔کچھ دنوں بعد مری کے گورنر ہائوس میں سارک ممالک کے سربراہان نے ٹھہرناہے۔ اس کی تزئین و آرائش شروع ہوئی تو خان صاحب نے جدہ سے ٹویٹ کر دیا کہ وزیراعظم کی ذاتی رہائشگاہ پر قوم کے کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ یہ وزیراعظم کی ذاتی رہائشگاہ ہوتی تو بات اور تھی۔ یہ رقم سکیورٹی کے حالات کی وجہ سے درجنوں سربراہان مملکت کی حفاظت کیلئے خرچ کی گئی لیکن خان صاحب نے یہ موقع بھی گنوانا مناسب نہ سمجھا اور وہ بھی ایسی مقدس جگہ پر سے جہاں انسان کو اصولاً موبائل فون لے جانا ہی نہیں چاہیے۔ وہاں جائیں تو اللہ سے تعلق جوڑیں اور بس۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ ایک ایسی بات کریں جس کی حقیقت بارے آپ کو معلوم ہی نہ ہو۔
گزشتہ روز حکومت نے اپوزیشن کے سات سوالوں کا جواب دے دیا اور اپوزیشن سے سات سوالات کے جوابات مانگ لئے‘ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں آ کر بھی یہی کرنا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اپوزیشن کی تسلی پھر بھی نہیں ہونی کیونکہ اپوزیشن صرف اس سیاسی جماعت کا نام ہے جو تعمیری نہیں‘احتجاجی سیاست پر زندہ ہے‘ اگر احتجاج اور شورش ہی نہ رہی تو اس کا چورن کون خریدے گا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved