تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     13-05-2016

خاموش فلم

خاموش فلم میں ڈائیلاگ نہیں ہوتے‘ لیکن باڈی لینگویج یا اعضا کی شاعری کے ذریعے آسانی کے ساتھ پیغام پہنچ جاتا ہے۔ اسی لئے بلیک اینڈ وائٹ فیتے پر بنی ہوئی فلمیں آج بھی اتنی ہی مقبول ہیں‘ جتنی گلے پھاڑ کر کان کے پردے چاک کر دینے والی ڈرامے بازی۔
لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل، بر یگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل اور میجر ایک دن میں نہیں بنتے۔ خاص جسمانی ساخت اور ذہنی طاقت والے شیر دل بچے بھرتی کر کے پہلے انہیں سیکنڈ لیفٹیننٹ، پھر لیفٹیننٹ پھر کپتان بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد تحریری، جسمانی اور دوسرے خون آشام امتحانوں سے گزر کر میجر کا عہدہ ملتا ہے۔ ایسے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بارڈر سمگلنگ جیسے الزام میں رینک، مراعات سے محروم کر کے فارغ کر دیئے جائیں‘ تو اس پیغام کا کوئی مطلب بھی تو ہونا چاہیے۔ کیا ایسی بے معنی ایکسرسائز کی عیاشی دنیا کی کوئی بڑی فوج برداشت کر سکتی ہے؟ اس سخت ترین عسکری احتساب کا پیغام ممکنہ طور پر دو جگہ پہنچا۔ ایک سویلین اداروں اور ان کی قیادت کو۔ دوسرے احتساب کرنے والے ادارے کی اپنی صفحوں کے اندر بھی۔ ملکی تاریخ کے اس فوری مگر ''تگڑے‘‘ احتسابی فیصلے کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی پاناما لیکس سامنے آ گئے؛ چنانچہ جدید دنیا کی طویل ترین جنگ میں پھنسی ہوئی سپاہ کی صفوں میں کچھ سوال اٹھنا انسانی نفسیات کے مطابق قدرتی بات ہو گی۔ یہی کہ مَریں بھی ہم، بچے بھی ہمارے کَٹ گریں۔ میڈیا ٹرائل ہمارا ہو۔ سیاسی اشرافیہ ہمیں ''وِلن‘‘ کے طور پر پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے۔ حکومت ہمارے آگے تو کیا مودی کے مقابلے میں ساتھ کھڑے ہونے کے لئے بھی تیار نہ ہو۔ ہمارا نہ ختم ہونے والا امتحان مسلسل بڑھتا جائے۔ تنخواہ، مراعات بلکہ عساکر میں سب سے بڑے عہدے کی تنخواہ اور مراعات ہائی کورٹ کے جج سے بھی کم ہوں۔ ایسے میں دنیا کا بہترین کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام اپنی جگہ‘ ان سوالوں کے جواب تو دینا پڑتے ہیں۔ سخت ترین سوال، کھلے سوال۔ بے رحم احتساب کے بعد بے لاگ سوال اٹھنا لازمی ہیں۔ فلم خاموش ہے مگر پیغام سیدھا اور واضح ۔
دوسری جانب چوروں کی بارات اس کوشش میں ہے کہ یار لوگ اسے فرشتوں کا طائفہ کہہ کر پکاریں۔ ذرا سوچ ملاحظہ کیجئے۔ چوری ہوئی لاہور، قلعہ گجر سنگھ کے علاقے میں۔ چور کہتا ہے: مانسہرہ میں بھی تو 62 سال پہلے چوری ہوئی تھی۔ پہلے اس چور کو پکڑو‘ پھر میرا نمبر آئے گا۔ ڈکیتی کی واردات ہوئی راجہ بازار پنڈی میں۔ ڈاکو کہتا ہے کہ اس سے بڑی ڈکیتی‘ لی مارکیٹ کراچی میں ہوئی تھی۔ وہ بر آمد کر لو پھر بیشک میرا چالان کرنا۔ اغوا کار سے برآمدگی ہوئی کوئٹہ میں۔ وہ کہتا ہے کہ جو پاکستانی اغوا ہو کر پکتیا، بگرام اور گوانتانامو بے پہنچائے گئے‘ پہلے ان کے ملزموں کا ٹرائل کرو‘ پھر میرے خلاف مقدمہ چلاتے رہنا۔
اگلے روز مجھے ایک الیکشن پٹیشن کا ریکارڈ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نااہل ایم این اے الیکشن ٹربیونل میں گواہی کے دوران اپنا تعارف یوں کرواتا ہے۔ مجھ سے پہلے میرے ابا اس سیٹ پر ایم این اے بنے تھے۔ تب میں ایم پی اے تھا۔ ابا مَر گئے، اور میں ایم این اے بن گیا۔ پھر کہا: ''یہ ہماری خاندانی سیٹ ہے‘‘۔ خاندانی سیٹ والوں نے 20 سے 40 ہزار کے درمیان جعلی ووٹ بنوائے‘ ساتھ ان کو پول کروانے کا خاندانی نسخہ بھی ایجاد کر لیا۔ 2013ء کے قومی الیکشن 11 مئی کے دن منعقد ہوئے تھے۔ چوتھا سال شروع ہو چکا۔ پچھلی حکومت میں قانون تبدیل ہوا‘ اور الیکشن پٹیشن کے فیصلے کا وقت120 دن مقرر کیا گیا۔ اس الیکشن کے چوتھے سال میں بھی جعلی طور پر جیتنے والے ایوانِ اقتدار میں بیٹھے ہیں‘ جبکہ فرضی طور پر شکست کھانے والے انصاف کی تلاش میں دربدر۔ 
قومی خزانے سے اربوں کھربوں لگا کر بھی کرکٹ جنازہ نکل گیا۔ معیشت سر کے بَل نیچے آ رہی ہے۔ 'قرض اتارو ملک سنوارو‘ سے لے کر سستے تندور تک کھربوں روپے ڈکارے گئے۔ ایٹمی ریاست کا ٹوٹل ذریعہ آمدنی بیرونِ ملک سے آنے والا زرِ مبادلہ ہے‘ یا تیل پٹرول، بجلی، گیس کے نام پر عوام کی جیب تراشی سے نکلنے والی بوٹی۔ منصوبہ بندی کی ترجیحات کیا ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لیں۔
پنجاب میں صحت کے میگا پروجیکٹس کا پیسہ اپریل میں ہی وزیر اعلیٰ ہاؤس واپس آ گیا۔ اب کلر سیداں یا لیہ میں ہسپتال کی بجائے یہ پیسہ اورنج ٹرین پر لگے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل جج حضرات کے خلاف شکایتیں نہ سنتی ہے‘ نہ انہیں پبلک کر رہی ہے۔ اگر یہ شکایات جھوٹی ہیں تو جھوٹوں کو سزا دی جائے۔ اگر سچی‘ تو عدل کے ایوان ہوسِ زر اور پارٹی بازی سے پاک ہونے چاہییں۔ کئی دن سے قوم کے ذہن میں ایک ہی سوال پھنسا ہوا ہے۔ قوم اس وقت یکسو ہے کہ احتساب ہونا چاہیے‘ مگر پورے پاکستان کا سوال یہ ہے احتساب کرے گا کون؟ سیاسی پولیس، بے ضررر اینٹی کرپشن کا محکمہ، یا تین وفاقی ادارے‘ جن کا حکومت نے گلا گھونٹ رکھا ہے۔ ایسے میں فلم تو خاموش رہ سکتی ہے اس کے کردار نہیں۔
ان دنوں پارلیمنٹ کی لابیوں میں عجیب و غریب چہرے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سیٹھ نما اور دور دیس کے ملکوں میں کاروبار کرنے والے۔ یہ اپنی پسندیدہ جمہوریت کو بچانے کے لئے ''محفوظ رابطے‘‘ کر رہے ہیں۔ ضمیر کے اجتماعی سوداگر ہر ممکنہ ''ٹارگٹ‘‘ تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اور تو اور حکومت مخالف پروگراموں کی سرکار کی ہاں میں ہاں نہ ملانے والے اینکرز کی ریٹنگ پر ''راشن کنٹرول‘‘ لاگو ہے۔ مغربی ملکوں کے ٹی وی چینلز کی ریٹنگ Real Times)) میں رپورٹ کی جاتی ہے‘ یعنی ریٹنگ اس وقت رپورٹ ہوتی ہے جب پروگرام ٹی وی پر چل رہے ہوں۔ اب 4,3 دن 7 دن بعد ریٹنگ رپورٹ ہو رہی ہے۔ دراصل بڑے گھر کی میڈیا ٹیم ناپسندیدہ چہروں کو جلد سزا دینا چاہتی ہے۔ اسی میڈیا ٹیم کے ارکان کی زبان بڑھک اور دھمکی کے درمیان لٹک گئی ہے۔ کیا پاکستانی ریاست اور اس کے بے کس عوام کا کوئی والی وارث نہیں؟ بڑھک، ڈرامہ، ایکشن، سازش اور بزنس سے بھرپور فلم بظاہر ساتواںکھڑکی توڑ ہفتہ منا رہی ہے‘ لیکن اصل کہانی انہیں پتا ہے جو خاموش فلم دیکھنے کا ذوق رکھتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرپٹ اشرافیہ اپنی مرضی سے کرے ''گاڈ فادر‘‘ کی طرح۔ باقی سب نیرو کی بانسری کی لَے پر ناچتے رہیں۔ ہمارے شہیدوں کے خون کی کمائی سے ملک میں جو استحکام واپس آیا‘ کیا اس کو منی لانڈرنگ کے بادشاہوں اور ان کی اولادوں کی خواہش پر قربان کر دیا جائے گا؟ 
کیا پاکستان کی ریاست قانون اور انصاف کی دنیا میں ناکام ریاست ہے؟ چور، چوکیدار اور کرپشن کے سردار ماورائے ریاست ہیں یا ماورائے قانون؟ کیونکر ممکن ہے کہ پاکستان کی ریاست کو (Remedyless) یعنی انصاف تک رسائی سے محروم کر دیا جائے۔ فلم خاموش ہے، ان 16 کروڑ لوگوں کی طرح‘ جنہوں نے 2013ء کے الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالے‘ لیکن ہر فلم کا ایک انجام اور ہر کہانی کا ایک (Morale) لازماً ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہیرو اور وِلن مفاہمت کر لیں۔
شاہ زادوں کے تصرف میں ہے، فرِ سلطنت
کاسہ لیسوں کے سروں پہ، سایہء افرنگ ہے
خونِ محنت سے فروزاں ہے، چراغِ اقتدار
سیم و زر اور آدمیت میں پرانی جنگ
بے نواؤں کے لئے ملک خدا بھی تنگ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved