تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-05-2016

ٹوٹے

ظلم کیا ہے؟
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب پرویز رشید ‘ جن کی دیانتداری کی ہم شب و روز قسمیں کھاتے نہیں تھکتے‘ ان کے اپنے محکمے اور ان کی ناک کے عین نیچے انفارمیشن اتاشی اور پاکستانی سفارت خانوں کے لیے مشنوں اور ہائی کمشنوں کی تعیناتی کے سلسلے میں اقربا پروری کے علاوہ میرٹ کی وہ دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ وزارت نے ان امیدواروں کو بھی منتخب کر لیا جو نمل یونیورسٹی میں منعقدہ تحریری امتحان میں فیل ہو گئے تھے۔ کل چھتیس امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا جبکہ مطلوبہ اسامیاں اٹھارہ تھیں جن میں سے چودہ فیل ہونے والوں کو بھی رکھ لیا گیا جبکہ کامیابی کے لیے ساٹھ فیصد مارکس حاصل کرنا ضروری تھے اس اعلیٰ سطحی بورڈ کی سربراہی سیکرٹری ای پی ونگ شفقت محمود کر رہے تھے جبکہ سیکرٹری خارجہ‘ سیکرٹری اطلاعات اور چیئرمین پی ٹی وی بطور رکن کام کر رہے تھے۔
بددیانتی اور کرپشن صرف روپے پیسے کا حصول ہی نہیں ہوتا‘ سفارشی تعیناتیاں بجائے خود کرپشن کی ذیل میں آتی ہیں۔ ظلم کی تعریف ہی یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسی جگہ رکھ دینا جہاں وہ رکھے جانے کے قابل نہ ہو۔ ہمارے دوست عطاء الحق قاسمی چیئرمین پی ٹی وی کس حد تک اس کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوں گے۔؟
دورے!
اس پس منظر میں جبکہ امریکہ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد 
روک دی ہے۔ ایران نے بھارتی جاسوس کو اپنے ساتھ جوڑے جانے پر احتجاج کیا ہے۔چین اقتصادی راہداری منصوبے پر پاکستانی حکومت کی سست روی پر مضطرب ہے اور بھارت ہر طریقے سے پاکستان پر اپنا دبائو بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔ہمارے وزیر اعظم نے اپنے حالیہ غیر ملکی دوروں پر 63کروڑ روپے خرچ کر دیئے ہیں جو کہ ایک باقاعدہ صدمے سے کم نہیں۔ جبکہ دورہ سکھر کے موقع پر حکومت نے کھانے پینے اورایئر کنڈیشننگ وغیرہ کی مد میں دو کروڑ روپے خرچ کر ڈالے۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کی تعداد69ہے اور یہ سارا خرچہ قومی خزانے سے کیا گیا ہے اور جو صرف پچھلے سال کیے گئے۔ صاحب موصوف اکیلے نہیں بلکہ 631افراد بھی ان کے ہمرکاب تھے جو غیر ملکی لذائذ سے باقاعدہ لطف اندوز ہوئے۔ ان میں سے چھ دوروں کے اخراجات کی تفصیلات ابھی تک وزارت خارجہ کی طرف سے یہ کہہ کر مہیا نہیں کی گئیںکہ یہ ابھی مکمل نہیں ہوئیں۔ وزیر اعظم کا پسندیدہ اور محبوب ترین ملک برطانیہ ہے جس کا دورہ انہوں نے 18بار کیا‘ بلکہ دوسروں ملکوں کو جاتے ہوئے بھی لندن کو ٹرانزٹ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان میں یہ دو آخری دورے بھی شامل کر لیں جو لندن میں ''بغرض علاج‘‘ کیے گئے۔ اس خبر کے ساتھ یہ پخ بھی لگا لیجیے کہ پی آئی اے نے سال2013-14ء میں بجٹ منظوری کے بغیر ہی ایک ارب تیرہ کروڑ روپے خرچ کر ڈالے!
امکانات
وزیر اعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ ٹی او آرز پر ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے اور عمران خاں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے ٹی او آرز سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے ؛چنانچہ درمیانی راستہ نکالنے کے لیے فریقین میں رابطے کی داغ بیل بھی ڈال دی گئی ہے لیکن اس کا امکان بہت کم ہے کہ دونوں ایک نقطے پر متفق ہو جائیں جبکہ حکومت خود بھی اس معاملے کو ‘ جہاں تک ہو سکے لٹکانا چاہتی ہے لیکن ہر گزرا اور ضائع کیا گیا دن حکومت کے مسائل میں اضافہ ہی کرے گا۔ سب سے اہم خدشہ یہ ہے کہ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چیف جسٹس اس کام میں پڑنے سے معذرت ہی کر دیں اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو حکومت کی پوزیشن مزید کمزور اور اپوزیشن کے بازو میں گویا طاقت کا ٹیکہ لگ جائے گا جس کے لیے حکومت کو اپنا پلان بھی سامنے لانا پڑے گا‘ اگر اس کے پاس کوئی ہے تو!
بصورتِ دیگر
اس بات پر سوشل میڈیا کا باقاعدہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ملک کی روز افزوں بگڑتی ہوئی صورت حال کو چیف جسٹس اور آرمی چیف مل کر ہی بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ کیونکہ آنے والے دنوں میں ملکی حالت مزید خراب ہو گی جس میں سول وار کا خطرہ بھی موجود ہے۔ لیکن اس میں بھی پہل کاری آرمی چیف ہی کو کرنا پڑے گی۔ اگر صورت حال جوں کی توں بلکہ اسی طرح رواں دواں رہتی ہے تو اس کی زیادہ تر ذمہ داری بھی صاحب موصوف پر ہی آئے گی کیونکہ قوم نے ان حالات میں انہیں مسیحا تسلیم کر لیا ہے اور ملک کو اس بحران سے نکالے جانے کی ساری توقعات ان سے وابستہ کر لی ہیں۔ اور‘ اگر وہ ان توقعات پر پورا نہیں اترتے تو سارے بگاڑ کا ذمہ دار صاحب موصوف ہی کو سمجھا جائے گا اور مقبولیت کے جس گھوڑے پر آج وہ سوار ہیں‘ اسی شدت سے انہیں غیر مقبول ہونے کا بھی انتظار کرنا ہو گا۔ جس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔!
بے بس
ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور شہر میں 11ہزار سے زائد بوگس گیس کنکشنوں کا انکشاف ہوا ہے اور چھاپہ مار ٹیمیں بے بس ہو کر رہ گئی ہیں جبکہ کارروائی میں گیس کمپنی کے بعض اہلکار‘ ٹھیکیدار اور سیاستدانوں کے کوآرڈی نیٹ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں‘ اورشعبہ بلنگ کی رپورٹ میں سب سے زیادہ‘ ساڑھے چھ ہزار اور شعبہ پی ایف جی میں پونے تین ہزار بوگس کنکشن پائے گئے ہیں جبکہ ان علاقو ں میں ہربنس پورہ ‘ تاج پورہ‘ گجا پیر‘ حنیف پارک اور علی محمد پارک میں سب سے زیادہ بوگس کنکشن پائے گئے ہیں ان میں متعدد کنکشن کاٹ دیئے گئے ہیں لیکن اکثریت ایسی ہے کہ ان کے بارے میں انتظامیہ نے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں‘ اور یہ کوئی انکشاف نہیں ہے کہ اس قسم کے جرائم کے پیچھے اہل سیاست اور مقتدر اہل سیاست ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اور‘ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ دن رات کرپشن سے پاک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ ہر روز کروڑوں کے سیکنڈلوںکا انکشاف بھی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر خادم اعلیٰ واقعی کرپشن سے پاک صاف ہیں تو ان کی ناک کے نیچے جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے جبکہ اصول تو یہ ہے کہ اگر اوپر کرپشن نہ ہو تو نیچے ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلہ کے۔؟
آج کا مطلع
غریب ِشہر ہوں سڑکوں پہ ہے سفر میرا
ہوا کی طرح کوئی گھاٹ ہے نہ گھر میرا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved