''نواز شریف جیسا شخص پاکستان کو نہیں چلا سکتا، اسے انگریزی بولنا آتی ہے نہ عالمی سیاست کے بارے میں کچھ پتا ہے۔اسے بس ایک ہی بات کا پتا ہے کہ سڑکیں کیسے بنانی ہیں۔ اس کو تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے، جب اس کو میری طرف سے تھوڑی تکلیف ہوئی تو آگیا میرے پاس، ہم ایوانِ صدر کے لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے تو اس نے کہا 'صدر صاحب میںچاہتا ہوں کہ ملک میں موٹروے کا جال پھیلا دوں ‘۔ جب موٹروے کی بات کررہا تھا توساتھ میں دونوں بازو بھی پھیلا رہا تھا، یہ کوئی طریقہ ہے صدر سے بات کرنے کا۔ ابھی آپ لوگ دیکھنا کہ اس کا کڑاکا کیسے نکلتا ہے‘‘، سردار فاروق خان لغاری اتنے جوش و جذبے سے اپنے دلائل دے رہے تھے کہ انہیں یقین تھا کہ وہ سرگودھا کی اس مجلس میں اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو ہمنوا بنا چکے ہیں اور اب یہ سب لوگ ان کی ملت پارٹی میں شامل ہوکر ا ن کے ہاتھ مضبوط کریں گے۔ لغاری صاحب نے دسمبر 1997ء میں صدارت سے نکلنے کے بعد ملت پارٹی کی داغ بیل ڈالی تھی اور ان کا خیال تھا کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کو ہدفِ تنقید بنا کر کچھ توجہ حاصل کرلیں گے۔ تھوڑی دیر تک نواز شریف کے مزید لتے لینے کے بعد انہیں یاد آیا کہ سرگودھا میں تو وہ ایک جلسے میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہیں جس کا انتظام جناب محمد علی درانی نے اپنے کچھ دوستوں کی مدد سے کیا تھا۔ جب وہ جلسے کے لیے نکلنے لگے تو اسی مجلس میں سے کسی نے پوچھا کہ جناب آخر نواز شریف کا کڑاکا کیسے نکلے گا اور آپ کو اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ سوال سن کر لغاری صاحب
ایک لمحے کو ٹھٹھکے اور پھر گویا ہوئے ، '' بھائی صاحب آپ دیکھتے جاؤ ہوتا کیا ہے، اور پھر ہماری حکومت کیسے بنتی ہے‘‘۔ لغاری صاحب نے اپنی دانست میں کارکنوں کو یہ پیغام دے دیا تھا کہ مایوس نہ ہوں کیونکہ میں نے حکومت میں آنے کا بندوبست کرلیا ہے۔ خیر صدر لغاری شہر کی مصروف سڑک کے فٹ پاتھ پر قائم شدہ جلسہ گاہ میں پہنچے جہاں پچاس ساٹھ لوگ کھڑے ان کے منتظر تھے۔ اس جم غفیر سے خطاب فرماتے ہوئے نواز شریف کی مذمت کے ساتھ ساتھ خود کو عام آدمی سے محبت کرنے والا شخص بتایا اور ثبوت کے طور پر دائیں ہاتھ کی انگلی مجمعے کے سامنے لہرائی اور بتایا کہ یہ لوگوں سے ہاتھ ملا ملا کر ٹوٹ گئی ہے اور انگلی ٹوٹ جانے کے باوجود وہ آرام کرنے کی بجائے عوام کے درمیان آگئے ہیں۔اس وقت لغاری صاحب کی پارٹی کی تقریباً وہی حالت تھی جو کچھ عرصہ پہلے تک مصطفی کمال کی پارٹی کی تھی یعنی جھنڈا، نام اور نعرے وغیرہ نہیں تھے البتہ لیڈرتھے جو سازش پر تلے ہوئے تھے۔ بہرحال لغاری صاحب کی اقتدار شناسی کہیے یا سیاسی دور بینی کہ کچھ عرصے بعد ہی جنرل پرویز مشرف آن دھمکے اور نواز شریف کو جیل میں ڈال کر خود بندوق کے زور پر حکمران بن بیٹھے۔ سابق صدر نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقاتیں شروع کیں اور انہیں ملک چلانے کے مفید مشورے دینا شروع کردیے۔ سابق
حکمران کا خیال تھا کہ موجودہ حکمرا ن اب انہیں وزیر اعظم بنا کر ہی دم لیں گے ، یہ سوچ کر انہوں نے دل و جان سے نواز شریف کے احتساب کے راستے تلاش کرنے شروع کردیے اور فوجی نرغے میں آئے نواز شریف سوائے تڑپنے پھڑکنے کے کچھ نہیں کرسکے۔ خود فاروق لغاری کی سیاست بھی اس طرح انتہا کو پہنچی کہ جنرل پرویز مشرف نے ان کی ملت پارٹی کی بجائے ق لیگ کو سرکاری پارٹی کا درجہ دے دیا اور فاروق لغاری تڑپنے پھڑکنے کے سوا کچھ نہیں کرسکے۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد چوٹی زیریں کے اس طرحدار سردار پر ایک وقت وہ بھی آیا جب اس کے چاہنے والوں نے مشورہ دیا کہ ق لیگ کو چھوڑ کر کسی اور منڈیر پر جابیٹھتے ہیں مگر اس نے کہا ''اس عمر میں مجھ سے مزید کوئی پارٹی نہیں بدلی جائے گی‘‘۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 2010ء میں جب سابق صدر کی وفات ہوئی تو اس وقت مرکز میں وہی پارٹی برسرِ اقتدار تھی جس کا احتساب وہ بطور صدر اپنے ہاتھوں کر چکے تھے اور پنجاب میں ن لیگ حکمران تھی جس کے احتساب کے لیے انہوں نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا تھا۔ طاقت کی سیاست پر عوامی سیاست ایک بار پھر غالب تھی اور فاروق لغاری مغلوب۔
جب فاروق لغاری ایوانِ صدر سے نکالے جانے کے بعد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی کرپشن کی کہانیاں کو بکو سناتے پھر رہے تھے انہی دنوں عمرا ن خان بھی صدائے احتساب لگاتے قریہ بہ قریہ گھوم رہے تھے۔ ان کے ایک عزیزنے سرگودھا کے ایک بڑے گھر کے بڑے سے لان میں ان کے لیے جلسے کا اہتمام کیا تھا جس میں تقریر کرتے ہوئے ان کا چہرہ شدت احتساب سے اتنا ہی لال ہوگیا جتنا آج کل ہوتا ہے۔ جلسے کے بعد اسی مکان کے ڈرائنگ روم میں شہر کے نوجوان سیاسی کارکنوں اور خان صاحب کی ایک ملاقات کا بندوبست کیا گیا تاکہ خان صاحب انہیں تحریک انصاف میں آنے کے لیے قائل کرسکیں، جس کے وہ چیئرمین تھے۔ خان صاحب اس وقت تک اقتدار میں نہیں آئے تھے اس لیے ان کے پاس سنانے کے لیے کوئی لذیذ حکایت نہیں تھی بس اپنی سیادت کا ایک موہوم سا خیال تھا جسے وہ نظریہ نظریہ کہہ رہے تھے اور نواز شریف و بے نظیر بھٹو کے بے رحمانہ احتساب کا مطالبہ تھا جسے وہ بار بار دہراتے تھے۔ بات سے بات نکلتی رہی اور جمہوری نظام کے ارتقاء کی طرف مڑ گئی تو خان صاحب ذرا چوکس ہوکر بیٹھے ، دائیں کہنی دائیں گھٹنے پر ٹکائی ، دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی ملا کر ایک دائرہ سا بناکر گویا ہوئے، ''پاکستان میں کوئی جمہوریت نہیں ہے بلکہ یہ ایک بد ترین آمریت ہے، اسے ختم کیے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا، صحیح جمہوریت صرف ہم لاسکتے ہیں‘‘۔ کسی نے پوچھا ''چیئرمین صاحب، ہمیں اقتدار میں آنے کے لیے بھی تو اسی جمہوریت سے گزرنا ہوگا‘‘۔ خان صاحب نے ایک لمحے کا توقف کیا اور فرما یا''یہ جمہوریت تو اقتدار میں آنے کے کئی راستوں میں سے صرف ایک راستہ ہیــ‘‘۔ ایک اور آواز آئی ، ''خان صاحب ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کا کوئی پچھلا راستہ بھی ہیــ اور آ پ اس راستے سے بھی حکومت میں آسکتے ہیں؟‘‘ خان صاحب نے ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی اور فرمایا، ''اس میں بھی کیا حرج ہے‘‘۔ سیاسی کارکن یہ سن کر کچھ متحیر ہوئے لیکن ان کے اس جملے کے بعد محفل خاست ہوگئی اور اس محفل کے کچھ عرصے بعد نواز شریف کی حکومت بھی برخاست ہوگئی، جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آگئے۔عمران خان بلا تامل جرنیلی اقتدار میں حصہ دار بننے کے لیے راولپنڈی جا پہنچے پھر ان کے ساتھ جنرل مشرف نے جو کچھ کیاتاریخ کا حصہ ہے ، اس تاریخ کا حصہ جسے پڑھ کر سمجھ نہیں آتی کہ آخرکسی نہ کسی عنوان سے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور نواز شریف ہی کیو ںبار بار احتساب کی ٹکٹکی پر کسے جاتے ہیں ، کیوں عوام انہی لوگوں کو بار بار منتخب کر ڈالتے ہیں!