جرمنی کے شہر ایرفورٹ کی یونیورسٹی آف ایرفورٹ میں فیکلٹی آف ہیومینٹیز کے تحت ایک شعبہ مذہبی علوم کا قائم ہے۔ اس شعبے میں ایک مَسند برائے مسلم ثقافت و مذہبی تاریخ (Chair of Muslim Cultural & Religious History) قائم ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر جمال ملک اس کے مَسند نشین (Chair Professor) ہیں۔ ڈاکٹر حسنین بخاری اُن کے ماتحت اسسٹنٹ پروفیسر کے منصب پر فائز ہیں اور اُن کے معاونِ خصوصی ہیں۔ اس ادارے نے اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان کے قائدین کے وفد کو 2 تا 6 مئی ایک مطالعاتی دورے کی دعوت دی، جس میں میرے علاوہ مولانا محمد حنیف جالندھری، ڈاکٹر عطاء الرحمن، مولانا یاسین ظفر اور ڈاکٹر محمد نجفی شامل تھے۔ انگریزی میں فورڈ (Ford) اور جرمنی میںفورٹ (Furt) ایسے قصبے یا شہر کو کہتے ہیں‘ جس کے نیچے دریا بہتا ہو، جیسے آکسفورڈ، فرینک فورٹ، ایرفورٹ وغیرہ۔ ایرفورٹ میں ایک مقام پر دریا کے اوپر عمارتیں اور مارکیٹ قائم ہے۔ مذکورہ بالا مسند برائے مسلم ثقافت و مذہبی تاریخ کے تحت طلبہ و طالبات پوسٹ گریجویٹ اور ریسرچ یعنی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح تک زیر تعلیم ہیں، ان میں پاکستانی طلبہ و طالبات کی تعداد نمایاں ہے۔
ہمارے وفد کو یونیورسٹی کے متعلقہ شعبے کا دورہ کرایا گیا، ان کے طلبہ کے ساتھ بھی ایک نشست ہوئی اور ریسرچ میں مصروف طلبہ نے اپنے اپنے تحقیقی کام کا اجمالی تعارف کرایا۔ ایک نشست میں ان کے پروفیسرز کے ساتھ تبادلہ افکار ہوا اور آخری نشست Podium Discussion کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس میں خواتین و حضرات کی معتَدبہ تعداد شریک تھی‘ اور ہمارے پینل سے انہوں نے مختلف سوالات کیے۔ اس بحث کا عنوان تھا: ''Euro Islam‘‘، ہم نے کہا: آپ ''Islam in Europe یا Muslims in Europe‘‘ عنوان رکھیں، انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ ہم نے بتایا کہ جرمنی اور یورپ یہاں کے مسلم شہریوں کے لیے دارالامن ہے۔ یہاں مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں، مسلمانوں کی مساجد قائم ہیں اور انہیں اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے‘ لہٰذا یہاں کے مسلمانوں کو ملکی قوانین کی پابندی کرنی چاہیے اور رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ''مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ذلّت سے دوچار نہ کرے، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کوئی شخص اپنے آپ کو ذلت سے کیسے دوچار کرتا ہے؟، آپﷺ نے فرمایا: وہ اپنے آپ کو ایسی مشکل میں مبتلا کر دیتا ہے کہ جس سے باعزت طور پر عہدہ برآ ہونا اُس کے لیے دشوار ہو جاتا ہے، (سنن ترمذی: 2254)‘‘۔ ظاہر ہے قانون شکنی کی صورت میں کسی بھی شخص کو بے توقیری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور مسلمان کے لیے اپنی عزت کا تحفظ ضروری ہے۔ جہاں تک ان ممالک کے اُن امور کا تعلق ہے جو ملکی قانون کے تحت مباح ہیں، لیکن اسلام کی رُو سے حرام ہیں، جیسے ہم جنس پرستی، خنزیر کا گوشت، شراب نوشی، غیر ذبیحہ گوشت، جوئے بازی اور رِبا وغیرہ، تو ان ممالک کا قانون مسلمانوں کو اِن امور کے ارتکاب پر مجبور نہیں کرتا، الغرض یہ قوانین اِجباری نہیں ہیں بلکہ اختیاری ہیں، لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان امور میں اپنے مذہبی احکام کی شدت سے پابندی کریں۔
شخصی قوانین جیسے نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے بارے میں ہم نے کہا کہ یہ جمہوری ممالک ہیں اور جمہوری ممالک میں قانون سازی کے وقت عوام کے حقوق اور جذبات کا پاس رکھا جاتا ہے، لہٰذا اِن امور میں مسلمانوں کو رعایت دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا: ان معاملات کو مسلمان باہم کیسے طے کر سکتے ہیں، تو ہم نے بتایا کہ مسلم سوسائٹی کے ثقہ اور معتمد علماء پر مشتمل ایک کونسل قائم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح بعض مغربی ممالک میں حجاب پر جبری پابندی کا قانون بھی جمہوریت کی رُوح اور انسانی حقوق کے منافی ہے، لہٰذا مغربی ممالک کو ان مسائل پر ہمدردانہ غور کرنا چاہیے، اس رعایت سے معاشرے کی عمومی ساخت اور قانون کی حکمرانی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمیں بتایا گیا کہ جرمنی میں قادیانی نسبتاً بڑی تعداد میں ہیں، اُن کے ادارے مالی لحاظ سے کافی مستحکم ہیں اور حکومت انہیں کافی رعایت دیتی ہے۔ قادیانیوں کے بارے میں سوال پر ہم نے بتایا کہ پاکستان کی دستوری پوزیشن یہ ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں، لہٰذا اُن پر لازم ہے کہ وہ اپنی دستوری حیثیت کو تسلیم کریں اور آئینِ پاکستان کا احترام کریں۔ دیگر غیر مسلموں کی طرح ان کی جان، مال اور آبرو کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے اور اُن کے شہری حقوق مساوی ہیں۔ ہم نے بتایا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر اپنے مَن پسند امیدواروں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے اور مقامی حکومت سے لے کر پارلیمنٹ کی سطح تک تمام منتخب اداروں میں اُن کے لیے محفوظ نشستیں بھی رکھی گئی ہیں، یہ سہولت مسلمانوں کو دنیا کی کسی جمہوریت میں حاصل نہیں۔ اسی طرح ہمارے تمام منتخب اداروں میں خواتین کے لیے بھی نشستیں مخصوص ہیں جو دنیا کی دوسری جمہوریتوں میں نہیں ہیں اور دستوری اعتبار سے خواتین کو عام انتخابات میں ووٹ دینے کا مردوں کے برابر حق حاصل ہے۔
مذہبی تکثیر (Plurality) اور تکثیریت (Pluralism) کا مطالعہ کرنے کے لیے پاکستان کے مدارس کے طلبہ و طالبات کے لیے محدود تعداد میں انہوں نے پروگرام مرتب کیا ہے۔ اس کا تعلق تنظیمات سے نہیں ہے بلکہ بعض مدارس سے وہ براہِ راست رابطہ کرتے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے چند شرائط رکھیں جو انہوں نے منظور کر لیں: (الف) چونکہ اُن کے پروفیسر ان طلبہ و طالبات کو لیکچر دیں گے، لہٰذا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مذہبی تصلُّب رکھنے والا پاکستانی عالم یا پروفیسر اس گروپ کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ کسی مسئلے میں اگر تشکیک یا ابہام پیدا ہو، جو طلبہ و طالبات کی علمی سطح سے بلند ہو، تو یہ عالم یا پروفیسر اسلام کا موقف مدلل انداز میں پیش کر سکیں۔ (ب) طالبات کے حوالے سے ہماری مذہبی اقدار کی پاسداری کی جائے، حجاب پر پابندی نہ ہو، نشستیں مخلوط نہ ہوں اور جرمن گھرانوں میں قیام کی صورت میں ستر و حجاب کی پابندی ملحوظ رکھی جائے۔ (ج) موسیقی کے پروگرام نہ رکھے جائیں۔ (د) طالبات کے ساتھ ایک ایک مَحرَم کی سہولت بھی فراہم کی جائے یا اگر کوئی شادی شدہ جوڑا مطلوبہ معیار کا دستیاب ہو تو اُسے ترجیح دی جائے۔ (ہ) جس فقہ میں سفر کے لیے مَحرَم کی شرط نہیں ہے، اُن کی طالبات کے لیے مَحرَم کی پابندی لازمی نہیں ہو گی۔ پروفیسر ڈاکٹرجمال ملک نے ان شرائط سے اتفاق کیا اور ان کی پاس داری کا وعدہ کیا۔
ہمیں جرمنی کے شہر گوتھا اور وَیمار (Weimar) بھی لے جایا گیا‘ اور جرمنی کے مشہور کلاسیکل شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نگار، ڈپلومیٹ اور فلاسفر گوئٹے (Goethe) کے آثار کا بھی مشاہدہ کرایا گیا، کہا جاتا ہے کہ گوئٹے نے رسول اللہﷺ کا نام سن رکھا تھا اور وہ آپ سے متاثر تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ وَیمار کے ایک نواب یا جاگیردار (Duke) نے گوئٹے کو اپنا تقرب عطا کر رکھا تھا اور وہ اس کی بڑی ناز برداری کرتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گوئٹے مشہور ایرانی شاعر حافظ شیرازی سے متاثر تھا‘ اور اُسے مشرق و مغرب کی فکر کے ملاپ کی بڑی خواہش تھی۔ وہاں ہم نے سٹیل پر خوبصورتی سے کندہ حافظ شیرازی کے اشعار بھی دیکھے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ محمد اقبال بھی گوئٹے سے متاثر تھے اور بعض کے بقول ان کا فارسی دیوان پیامِ مشرق گوئٹے کے ''دیوانِ مغرب‘‘ کا جواب تھا۔ ڈیوک آف ویمار ایک علم دوست شخص تھا، اس کے محل میں ایک بڑی لائبریری ہے، جس میں اسلام پر کتابیں اور مخطوطے بھی ہیں، جن میں بعض قدیم اسلامی کتب بھی شامل ہیں۔ مشہور حنفی فقیہ امام ابراہیم حلبی کا مخطوطہ ''مُلْتَقَی الْاَبْحُرْ‘‘ بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیوک نے ایک صاحبِ علم کو اُس عہد کے سونے کے سکّے دے کر عالَمِ عرب سے کتابیں منگوانے کے لیے بھیجا، اُس شخص نے مختصر عرصے میں عربی سیکھی اور پھر عربی علوم کا گراں قدر سرمایہ خرید کر لایا۔
اس سفر کے دوران ہمیں جرمنی کے منتخب ڈکٹیٹر ہٹلر کے جنگِ عظیم دوم کے عقوبت خانے (Buchenwald concentration camp) کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ اس کیمپ میں ہزارہا جنگی قیدیوں کو انتہائی اذیتیں پہنچا کر قتل کیا گیا، اس طرح کے عقوبت خانے جرمنی میں کئی مقامات پر تھے۔ ان عقوبت خانوں میں یہودیوں، خانہ بدوشوں اور روسیوں کو بے حساب قتل کیا گیا۔ ایک پاکستانی پروفیسر نے بتایا کہ اِن خانہ بدوشوں کے ڈین این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ ان کا نسلی تعلق پاکستان کے خطے پنجاب سے تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ ہٹلر نے گیس چیمبر بنا رکھے تھے، قیدی کو کہا جاتا کہ کپڑے اتار کر شاور لے لو اور اوپر سے زہریلی گیس چھوڑی جاتی اور اس کا خاتمہ ہو جاتا۔ اُس دور کے اذیت کے آلات اور بھٹیاں بھی دیکھیں، ان عقوبت خانوں میں اُن کا ایک جعلی عدالتی نظام بھی موجود تھا۔ ایک بشپ نے ظلم کے خلاف آواز بلند کی تو اُسے بھی اس عقوبت خانے میں موت سے ہمکنار کر دیا گیا۔ اس عقوبت خانے کے تمام مناظر کو الفاظ میں بیان کرنا دشوار بھی ہے اور اذیت ناک بھی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ جنگِ عظیم کے دوران اہلِ جرمنی کے احساسِ جرم کی یاد تازہ کرنے کے لیے نئی نسل کو کم از کم ایک بار ان مقامات کا دورہ کرایا جاتا ہے، اسے German Guilt کہتے ہیں۔ اس سوال پر کہ آیا جرمنی میں ایسے قوم پرست لوگ آج بھی موجود ہیں جو ہٹلر کو اپنا ہیرو مانتے ہوں، ہمیں بتایا گیا کہ ایسے لوگ موجود ہیں، اگرچہ تعداد میں کم ہیں۔ جرمنی کی معیشت اپنے حجم کے اعتبار سے یورپ کی سب سے بڑی اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ جرمن انتہائی محنتی اور قابل قوم ہے، جرمن ٹیکنالوجی کی فوقیت مسلَّم ہے، یہ عالمی سطح پر سپر پاور بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس لیے امریکہ نے آج تک اپنے فوجی اڈے وہاں قائم کر رکھے ہیں۔ جنگِ عظیم اول و دوم کی عبرت ناک تباہی و بربادی کے بعد یورپ کو جنگ کی ہولناکی کا خوب تجربہ ہو چکا ہے، اس لیے انہوں نے یورپی یونین کی صورت میں اپنی ایک وحدت قائم کر رکھی ہے۔ ماضی کے باہم برسرِ پیکار ممالک جرمنی، برطانیہ اور فرانس بقائے باہمی کے لیے مل بیٹھے ہیں۔ لیکن یہی قومیں تباہ کُن ہتھیار بنا رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنے زیرِ اثر ممالک میں مصنوعی جنگیں برپا کر کے اُن کے لیے مارکیٹ بھی پیدا کرتی ہیں۔ آج کل ان تباہ کن ہتھیاروں کا سب سے زیادہ ہدف مسلمان اور مسلم ممالک ہیں اور کافی حد تک اپنی بربادی کے وہ خود بھی ذمے دار ہیں۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت بھی توسیع پسندانہ عزائم اور جنگی جنون میں مبتلا ہے، کاش کہ وہ جنگِ عظیم اول ودوم کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھے اور اپنے خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے لیے کوئی قابلِ قبول صورت نکالے، مگر اس کے لیے عصبیت کے دبیز پردوں کو اتارنے اور بصیرت (Vision)کی ضرورت ہے، جو شاید سرِدست وہاں مفقود ہے۔