تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-05-2016

بھنور ہے تقدیر کا بہانہ

زندگی آدمی کو نہیں الجھاتی، آدمی خود اپنے آپ کو الجھا لیتا ہے ع
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اللہ جانے اب اس بھنور میں کس کس بدنیت کی کشتی ڈوبے گی۔
سیاستدانوں کو چھوڑیے۔ اقتدار کی تمنا اور کشمکش میں وہ دیوانے ہیں۔ حزب اختلاف کے بعض لیڈر تخت کی بو پا کر وحشت کا شکار ہیں۔ وزیر اعظم کا حال بھی یہی ہے۔ حکومت سے محرومی کا اندیشہ اعصاب پر سوار ہے اور جینے نہیں دیتا۔ جیسا کہ عرض کیا تھا، اس حال میں جذباتی توازن برقرار نہیں رہتا۔ ترجیحات کا شعور کھو جاتا ہے۔ آدمی صحرا کے بگولے کی طرح ہوتا ہے، پیہم رقصاں اور پیہم بے بس، حالات کے رحم و کرم پر ؎
نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں
ہسپتالوں اور گھروں میں، لاچار مریضوں کے آخری لمحات پر غور کرنے والے بعض عجیب و غریب کہانیاں سناتے ہیں۔ دشمن کو بھی اللہ تعالیٰ اس انجام سے دوچار نہ کرے کہ بعض سے توبہ کی توفیق تک چھین لی جاتی ہے۔ مجیب الرحمن شامی علیل ابن الحسن سے ملنے گئے تو واپسی پر عجیب سی ایک بات کہی۔ تب بھید نہ کھلا تھا۔ الحمد للہ آج اس موضوع پر سوچتے ہوئے رمز آشکار ہوگئی۔
بہت ہی بھلے آدمی تھے ابن الحسن ۔ پہلی نظر ہی میں احساس ہوتا کہ نجابت ہے اور ہڈیوں کے گودے تک میں رچی ہوئی نجابت۔ شائستگی ہے اور مہ و سال کی گردشوں سے گزر کر صیقل ہو گئی ہے۔ طرزِ زندگی ہو گئی ہے۔ سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ دکھاوا نام کو نہ تھا۔ دعویٰ کبھی نہ کرتے۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں موتی رولتے۔ کم لوگوں کی قلم پر ایسی گرفت ہو گی، جیسی انہیں تھی۔ نادر خیالات کی تلاش میں رہتے اور نہ شکوہ الفاظ کا روگ پالا۔ آمدن معقول ہی تھی مگر 
ایسی ایک نعمت اللہ نے بخشی تھی کہ کسی کو عطا ہو جائے تو مزید کسی چیز کی ضرورت نہیںرہتی۔ غنی ہو گئے تھے۔ سرکارؐ نے فرمایا: الغنیٰ غنی النفس۔ بے نیازی دل کی بے نیازی ہوتی ہے۔ غیبت سے گریزاں رہتے۔ حسد کو نوچ کر پھینک دیا تھا۔ ظاہر و باطن ایک۔ اندر باہر سے اجلے۔ یہ سطور لکھ رہا ہوں اور دل سے دعائیں امنڈ رہی ہیں۔ خوش اخلاق، خوش کردار، نکلتا ہوا قد، سرو کی سی شان۔ اپنے اندر کے بچے کو مرنے نہ دیا تھا۔ لباس عمدہ پہنتے اور ہمیشہ اجلا۔ چہرے پہ مسکراہٹ، کبھی آنکھوں میں بھی۔ پاکباز تھے مگر یہ تاثر کبھی نہ دیتے۔
چھبیس برس ہوتے ہیں، اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں، ان کے کمرے میں ہونے والی پہلی ملاقات اب تک یاد ہے۔ خبطِ عظمت کے مارے ایک ایڈیٹر کے بارے میں ان سے سوال کیا: کیا اللہ کی ساری مخلوق سے وہ ناراض ہیں۔ بولے: میرا خیال ہے کہ اللہ سے بھی۔ مدتوں بعد عصر رواں کے عارف سے پوچھا تو فرمایا: ایسا ہی ہوتا ہے۔ مستقل طور پر جو آدمی شکوہ مند ہو، در اصل وہ خالق سے ناخوش ہوتا ہے۔ اپنی تقدیر پہ نالاں۔ جو یہ نہیں سمجھتا کہ انسان کو پیدا ہی آزمائش کے لیے کیا گیا۔ جہل کی یہ بہت عام سی صورت ہے۔کم یا زیادہ، بہت سے لوگ جس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ خود ترحمی کا شکار ہوجاتے اور زندگی کا دھاگہ الجھائے رکھتے ہیں۔
میجر ابن الحسن مرحوم نے ایک اور بات ایسی کہی جو ایک صاحب عمل ہی کہہ سکتا ہے، تجربات جسے دانائی عطا کرتے ہیں۔ عرض کیا نماز میں بے قاعدگی ہے اور بہت بے قاعدگی۔ رسان سے بولے: عبادت کو اگر بوجھ سمجھا جائے تو دائم وہ گراں بار ہی رہے گی۔ ایک ذمہ داری اسے کیوں سمجھا جائے۔ پانچ دس منٹ کی بات ہوتی ہے۔ وقت آیا تو وضو کیا اور پڑھ لی۔ آدمی اس میں الجھا کیوں رہے۔ بعد ازاں غور کیا تو فریب نفس کے کتنے ہی پہلو آشکار ہونے لگے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمانِ خدا وندی سے آدم کی اولاد کو آگاہ کر دیا تھا: جب نفس کو میں نے پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ یہ آدمی کا ذہن ہے جو مغالطے جنم دیتا اور پروان چڑھاتا ہے۔ عارف سے کسی نے سوال کیا: آدمی کو شیطان گمراہ کرتا ہے یا اس کا نفس۔ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔ اگر اپنی خواہشات ہی عزیز ہیں تو رفتہ رفتہ اتنی عزیز ہو جاتی ہیں جس قدر اپنی اولاد، جان اور مال۔ فکر و خیال کے دروازے اگر بند کر دیئے تو نجات کا در نہیں کھلتا۔
خوش بخت ہیں میجر ابن الحسن ایسے لوگ۔ اخلاقی اور روحانی اقدار کے امین مگر روشن خیال، زعم تقویٰ اور خبط عظمت سے پاک۔ شامی صاحب نے کہا: بستر مرگ پہ ابن الحسن نے کہا: اگر پہلے سے اپنا انجام معلوم ہو جاتا تو کچھ تسلی ہو جاتی۔ ان کی یاد سے دل بے چین ہو جاتا ہے۔ اگر ابن الحسن ایسے باوفا بہشت بریں کے مکین نہ ہوں گے تو وہ بنائی کس کے لیے گئی؟ غالباً جناب ابوہریرہؓ سے، جب وہ کم سن تھے اور ایک دن سرکارؐ کے ہمرکاب، آپ نے ارشاد کیا: لڑکے، ایک بات تجھے بتا دوں؟ جس نے کہا اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں وہ جنت میں جائے گا۔ اہل تقویٰ کے سرخیل سیدنا ابوذر غفاریؓ سے آپؐ نے کہا تھا۔ ابوذر جس نے کہا اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، وہ بخش دیا جائے گا۔ حیرت زدہ انہوں نے کہا، خواہ اس نے چوری اور بدکاری کی ہو۔ فرمایا: ہاں خواہ اس نے چوری اور بدکاری کا ارتکاب کیا ہو۔ باردگرِ آپؐ کے رفیق نے تعجب سے اپنا سوال دہرایا تو رحمتہ للعالمین نے یہ کہا: ہاں! خواہ ابوذر کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ ظاہر ہے کہ خطا کا ارتکاب کرنے والا توبہ کرے گا۔ جس کی چوری کی ہے، اسے لوٹا دے گا۔ ثانوی ترجیحات پر کچھ نہیں ملتا،اللہ نہ اس کا راستہ، حسنِ عمل اور نہ علم و معرفت۔ اپنی خطا پر، اپنی ترجیحات پر آدمی اگر ڈٹا رہا۔ 
خالد مسعود خان نے کہا: نشتر ہسپتال میں آلو کے بھائو پوچھتے پوچھتے وہ مر گیا۔ ہرچیز معاف کر دی جائے گی مگر مایوسی نہیں کہ وہ کفر ہے۔ ترجیحات ہماری غلط ہیں۔ ہمارے ذہن اسی لیے الجھ گئے ہیں۔ کوئی سا معرکہ، امتحان اور آزمائش ہو، اس الجھائو کو بڑھاتا اور دراز کرتا ہے۔
پاناما لیکس سے پیدا ہونے والے سوالات میں ہرگز کوئی پیچیدگی نہیں۔ سمندر پار کمپنی بنا لینا ہرگز کوئی جرم نہیں۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ روپیہ کس طرح کمایا اور کس طرح بھیجا۔ حلال یا حرام۔ کیا قانونی طریق سے سمندر پار پہنچایا؟ تعین اس کا عدالت کرے گی کوئی اور نہیں اور سیاسی حریف تو ہرگز نہیں۔ میاں محمد نواز شریف کے خاندان پر اعتراض یہ ہے کہ روپیہ انہوں نے اقتدار کے بل پر کمایا، دھونس اور دھاندلی سے۔ ٹیکس ادا نہیں کیا۔ گوشواروں میں ظاہر نہ کیا۔ معاملہ جب الم نشرح ہو گیا تو چھپانے کی کوشش کی۔ عدالت اور عوام کو چکمہ دینے کی۔ وزیر اعظم کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کو وضاحت کرنا تھی۔ چار مختلف بیانات ان کی طرف سے سامنے آئے۔ 2000ء میں برطانوی اخبار گارڈین کو بیگم کلثوم نواز نے بتایا کہ بچوں کی تعلیم کے لیے مے فیئر کے مکانات انہوں نے خریدے تھے۔ 2016ء میں مریم نواز نے فرمایا کہ ان کی کوئی جائیداد بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی موجود نہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں حسین نواز نے دو کمپنیوں کے وجود اور لندن میں اپنی ملکیت کا اقرار الحمد للہ کے ساتھ کیا۔ برسوں قبل ان کے چھوٹے بھائی حسن نواز نے کہا کہ وہ تو کرایہ دار ہیں۔ مکان ان کی ملک ہی نہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ یہ فلیٹ 1993ء میں خریدے گئے۔ حسین نوازکہتے ہیں 2006 ء میں سعودی عرب کی سٹیل مل بیچ کر۔ بیانات کا یہ بے پناہ تضاد کس چیز کی شہادت ہے؟
عمران خان کا معاملہ پوری طرح قابل فہم ہے 1983ء میں ایک فلیٹ خریدنے کی خاطر ایک کمپنی انہوں نے بنائی۔ دوعشرے کے بعد فروخت کیا تو ختم ہو گئی۔ ملا نصیر الدین کی دو بکریوں کی طرح، ان سے کہا گیا کہ سونے سے پہلے اپنے جانوروں کی گنتی کر لینی چاہیے۔ کہا: دو ہیں، ایک کھڑی اور ایک سوئی ہوئی۔ عمران خان میں سوجھ بوجھ کم اور اعتماد ضرورت سے زیادہ ہے۔ ان کی غلطی یہ ہے کہ پہلے ہی یہ بات انہیں بتا دینی چاہیے تھی۔ ان کا ذہن سیاسی نہیں اور مشیر بدترین۔ نواز شریف کا وہ احتساب نہیں انتقام چاہتے ہیں۔ احتساب کی بجائے وہ انہیں اقتدار سے محروم کرنے در پے ہیں۔ 
زندگی آدمی کو نہیں الجھاتی، آدمی خود اپنے آپ کو الجھا لیتا ہے ع
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
اللہ جانے اب اس بھنور میں کس کس بدنیت کی کشتی ڈوبے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved