تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-05-2016

مالک کائنات سے کیا بعید ہے؟

ایک لمبی غیر حاضری تھی۔ اس غیر حاضری کی وجہ دراصل حاضری تھی۔ مالک کائنات اور وجہ کائنات کے در پرحاضری! جہاں جا کر آنکھیں ٹھنڈی اور دل روشن ہو جاتا ہے۔ بس اتنا ہی لکھا جا سکتا ہے کہ اس سے آگے کا معاملہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے جس میں معافی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور اللہ کے محبوب اور اس کے غلام کے درمیان ہے جس میں شفاعت کی عرضی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ باقی سب کچھ بے معنی ہے۔ واپسی ہوئی تو سب کچھ ویسے ہی تھا۔ ملال تو اس بات کا ہے کہ واپس آ کر یہ عاجز بھی ویسا ہی ہے جیسا یہاں سے چلا تھا ‘بس کچھ پرانے بوجھ کم ہونے کا احساس ہے جو باعث راحت ہے وگرنہ خسارے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور خسارے کا کیا بیان کرنا؟
پاناما پیپرز کا معاملہ وہی ہے جہاں چھوڑ کر گئے تھے اور میٹرو کی تنگیاں اور خرابیاں بھی بالکل ویسی ہی ہیں جیسی روانگی سے قبل تھیں۔ میاں نواز شریف کا رویہ وہی ہے جو سدا سے ہے اور عمران خان کی زبانی کلامی گولہ باری بھی معمول جیسی ہے۔ صرف فرق یہ پڑا ہے کہ حمام میں ننگے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے اور ابھی اس میں مزید اضافے کی کافی گنجائش ہے۔ علیم خان کی آف شور کمپنی بھی نکل آئی ہے اور عمران خان کی بھی۔ مونس الٰہی کا نام بھی آیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ پرویز الٰہی کے نزدیک ''چھوٹو گینگ‘‘ کی آف شور کمپنیاں تو سچی بھی ہیں اور ناقابل معافی جرم بھی تاہم مونس الٰہی کے خلاف سارا الزام ہے‘ من گھڑت قصہ ہے اور مخالفوں کا پراپیگنڈہ ہے۔ یہی حال پی ٹی آئی کا ہے کہ مریم نواز شریف والی آف شور کمپنیاں تو نہایت سنگین جرم ہے تاہم ان کی اپنی پارٹی کے لوگوں کی آف شور کمپنیاں بنانے کی بے شمار وجوہات ہیں۔ پارک لین‘ مے فیر اور ہائیڈ پارک والی پراپرٹی کی خرید کے لیے بنائی جانے والی شریف آف شور کمپنیاں بھی اس خرید پر لگنے والے ٹیکس سے بچنے کے لیے بنائی گئی تھیں اور عمران خان کا فلیٹ خریدتے ہوئے بنائی جانے والی آف شور کمپنی بھی یہی ٹیکس بچانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہاں تک تو معاملہ برابر کا ہے ‘نہ کوئی زیادہ مجرم اور نہ ہی کم۔ پراپرٹی کی مالیت زیر بحث آ سکتی ہے مگر میرا موقف ہے کہ جب خریداری کی بات آئے گی تو ہر شخص اپنی مالی استطاعت اور جیب کے وزن کے مطابق ہی خریداری کرے گا۔ معاملہ خواہ ایک فلیٹ کا ہو یا چار کا‘ آٹھ کاہو یا دس کا‘ غلط بات غلط ہے‘ گنتی کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ البتہ گنتی سے متعلق معاملات ایک علیحدہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں ان کو علیحدہ سے دیکھنا ہو گا۔
جب بات گنتی کی آئے گی کہ کس کے پاس کتنے فلیٹ ہیں؟ کتنی پراپرٹی ہے؟ کتنی مالیت کی ہے؟ تو پھر جو سوال پیدا ہو گا وہ اپنی جگہ جواب مانگے گا۔ اتنی پراپرٹی کیسے خریدی؟رقم کہاں سے آئی؟ ملک سے باہر کیسے گئی؟ خاص طور پر بچوں کے پاس کیسے اتنی بڑی رقم آ گئی؟ اگر کمائی بچوں کی ہے تو کیا یہ بات عقل کو لگتی ہے؟اگر کمائی بچوں کی نہیں تو کس کے پیسے سے یہ ساری جائیداد خریدی گئی؟ اس ساری دولت پر ملک میں ٹیکس دیا گیا؟ یہ دولت اپنی ٹیکس ریٹرن میں دکھائی گئی؟اگر نہیں دکھائی تو کہاں سے آئی؟ یہ دولت محض ٹیکس چوری والی دولت ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ بظاہر یہ معاملہ''کچھ اور ہے‘‘ جیسا لگتا ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب دنیا کے حاضر جواب ترین وزیر صفائی جناب پرویز رشید کے پاس بھی نہیں ہے کہ ان سوالوں کے جوابات صرف ثبوتوں کے ساتھ ہی دیے جا سکتے ہیں اور وہی سارے گڑ بڑ کی جڑ ہیں۔
بچوں کا فرمانا ہے کہ کمپنیاں 2006ء میں بنیں جبکہ اسی جائیداد سے متعلق لندن کی ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جو 2006ء سے سات سال قبل1999ء میں حدیبیہ پیپر ملز والے معاملے میں سامنے آ چکا تھا اور اس میں یہی پراپرٹی شریف خاندان کی ملکیت ثابت ہو چکی تھی۔ بچہ پارٹی کہتی ہے کہ یہ فلیٹس اور جائیداد جدہ والی سٹیل مل بیچ کر لی ہے جبکہ یہ پراپرٹی جدہ جانے سے بھی پہلے شریف فیملی کی ملکیت ثابت ہو چکی ہے ۔ جدہ والی سٹیل ملز کا لگنا اور فروخت ہونا تو بہت بعد کی بات ہے۔ جدہ کی مل کی فروخت اگر2006ء میں بھی مان لیں تو آخری پراپرٹی کی خرید کی بابت پتہ چلتا ہے کہ اپارٹمنٹ نمبر1ہائیڈ پارک لندن (W2-22H) مورخہ30 مارچ 2016ء کو حسن نواز شریف کے نام پر رجسٹر ہوا۔ اس کا چارج 21 مارچ کو رجسٹر ہوا۔ یہ سودا بذریعہ فری مین باکس سولیسٹر ہوا اور اس پراپرٹی کی قیمت ساڑھے بیالیس(42.2) ملین پائونڈ تھی۔ آسان لفظوں میں اس کی قیمت پاکستانی روپوں میں بحساب148روپے فی برٹش پائونڈ چھ ارب انتیس کروڑ روپے بنتی ہے۔ اتنی بڑی رقم صرف سٹیل ملز کے نفع سے تو نہیں آ سکتی۔ اگر آئی ہے تو یہ دنیا کی سب سے منافع بخش سٹیل ملز تھی ‘اسے بیچنا تو دنیا کی سب سے بڑی حماقت تھی۔
اب سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست پر کمیشن بنانے سے معذرت کر لی ہے کہ اس کا دائرہ کار اتنا پھیلا دیا گیا تھا کہ اس کا نتیجہ کم از کم ہماری زندگی میں تو سامنے آنا ممکن نہیں تھا۔ حکومتی ٹرمز آف ریفرنس بالکل ایسے تھے کہ جیسے چھوٹو گینگ کے سرغنہ غلام رسول چھوٹو کی گرفتاری کے بعد کہا جائے کہ چھوٹو کی گرفتاری ایک بڑا بریک تھرو ہے‘ تاہم یہ صرف ابتدا ہے اور اس کے ذریعے ہم اس قسم کے تمام کرداروں پر کریک ڈائون کریں گے اور چھوٹو کو اس کے کیفر کردار تک پہنچانے سے پہلے اس سے ایک بڑا آپریشن کرنا چاہیے تاکہ آئندہ سے ایسی چیزوں کا سدباب کیا جا سکے؛ لہٰذا ایک جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی جاتی ہے جو یہ طے کر ے کہ برصغیر میں اس قسم کی منفی سرگرمیوں کی ابتدا کس نے کی اور قیام پاکستان کے بعد اسے یہاں کس نے متعارف کروایا؟ نیز پاکستان کے تمام کچے پکے علاقوں میں 1947ء سے لے کر اب تک بننے والے ایسے تمام گروہوں اور ڈاکوئوں کے خلاف کمیشن قائم کیا جائے جو جے آئی ٹی کی سفارشات کے مطابق پاکستان بھر میں اغوا برائے تاوان‘ ڈکیتی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ کار چوری اور بھتہ خوری کا مکمل احاطہ کرے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے زندہ مردہ تمام ڈاکوئوں‘ قاتلوں‘ اغوا کاروں‘ بھتہ خوروں اورکار چوروں کے خلاف تحقیقات کرے۔ ان کے جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کا خاتمہ کرنے کے بعد اس ساری کارروائی کی روشنی میں چھوٹو کے جرائم کا تعین کیا جائے اور اس کے خلاف چالان مکمل کر کے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ غلام رسول چھوٹو کو قرار واقعی سزا دی جا سکے اور ملک میں جرائم کا قلع قمع کیا جا سکے۔
ادھر وزیر اعظم صاحب کی جمہوری طبیعت کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں کسی کو جوابدہ نہیں ہوں۔ ایک طرف نیوزی لینڈ میں اسمبلی کا سپیکر اپنے وزیر اعظم کو غیر جمہوری رویہ اپنانے پر اسمبلی سے نکال دیتا ہے۔ دوسری طرف منتخب وزیر اعظم خود کو کسی کے آگے جوابدہ ہی نہیں سمجھتا۔ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جون کی (John Key)گرین پارٹی کے نمائندے جیمز شا کے ساتھ سوال جواب کے دوران الجھ پڑا۔ سپیکر نے وزیر اعظم کو اپنی نشست پر بیٹھنے کا کہا اور حکم عدولی پر اسمبلی سے باہر نکل جانے کا حکم دیا۔ سپیکر نے بعدازاں کہا کہ میری واضح رولنگ کے باوجود جان کی نے چلانا بند نہیں کیا تھا ‘لہٰذا اس کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو عام ممبر اسمبلی کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ ان سے بالاتر نہیں تھا۔
ملک طارق نے پوچھا یہ کیسے ہوتا ہے؟ میں نے کہا یہ وہاں ہوتا ہے جہاں ایاز صادق ٹائپ سپیکر نہیں ہوتے۔ ورکر غلام نہیں ہوتے اور پارلیمانی پارٹی کے ارکان زرخرید نوکر نہیں ہوتے۔ کیپٹن(ر) صفدر دھمکا رہے ہیں کہ اگر اینکرز نے اپنا رویہ نہ بدلا تو لاکھوں کارکن ان اینکرز سے حساب لے لیں گے۔ یہ سیدھا سادا دھمکانے کا کیس ہے۔ کھلی بدمعاشی ہے اور جمہوریت کے منہ پر تھپڑ ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ یہ معاملہ قانون سے کہیں زیادہ اخلاقی ہے۔ میرے ایک دوست کالم نویس نے لکھا کہ میاں صاحب کے کاروبار کو دوبار برباد کیا گیا‘ لہٰذا ان کے بچوں کا پاکستان سے باہر کاروبار کرنا بالکل درست ہے کہ ان کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں بچا تھا۔اگر دوبار کاروبار برباد ہونے سے یہ جواز درست مان لیا جائے کہ ان کو پاکستان میں کاروبار نہیں کرنا چاہیے تو دوبار میاں صاحب کی حکومت بھی برباد کی گئی‘ وہ تیسری بار آخر پاکستان میں ہی کیوں حکومت کرنا چاہتے ہیں؟ کہیں باہر جا کر ٹرائی کیوں نہیں کرتے؟ اللہ ان کو بھی ان کے بچوں کی طرح رنگ لگا سکتا ہے۔ مالک کائنات سے کیا بعید ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved