کرپشن اور صرف کرپشن
خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ نہ نوازشریف نے میرا باپ مارا ہے اور نہ عمران خان سے میری کوئی رشتے داری ہے۔ عمران خان اس لیے اچھا لگتا ہے کہ کرپشن کے خلاف ہے اور خود کرپٹ نہیں ہے جبکہ دوسرے کرپشن کے خلاف تقریریں بھی کرتے ہیں اور انہوں نے کرپشن کے ریکارڈ بھی قائم کر رکھے ہیں‘ نہ ہی اس بات کا دور دور تک کوئی امکان ہے کہ نوازشریف اگر فارغ ہو بھی گئے تو عمران خان وزیراعظم بن جائیں گے کیونکہ حکمرانوں کی طرح وہ گھاگ اور خرانٹ نہیں ہے اور اگر اپوزیشن جمہوریت کے لیے لازمی ہے تو عمران واحد اپوزیشن ہے۔ اس میں جماعت اسلامی کو بھی شامل کر لیجئے۔ باقی کم وبیش سارے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سب کا حلوہ مانڈہ لگا ہوا ہے ۔وہ حکومت میں ہوں یا نہ ہوں‘انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا‘ بلکہ حکومت میں نہ ہوں تو زیادہ مزے کرتے ہیں!
دوستانہ میچ
اخباری اطلاع کے مطابق انہی دنوں پنجاب اور خیبرپختونحوا کے ارکان اسمبلی کے درمیان ایک دوستانہ کرکٹ میچ ہونے جا رہا ہے جس کی کپتانی خیبر پختونوا کے شوکت علی یوسف زئی اور پنجاب سے میاں محمد منیر کریں گے جو اس میچ کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ میاں منیر ہمارے شہر اوکاڑہ سے رکن پنجاب اسمبلی ہیں اور تعلق نواز
لیگ سے ہے جو پاکستان کرکٹ کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور 1996ء سے 2011ء تک ٹیم کے منیجر بھی رہ چکے ہیں۔ میچ لاہور میں ہو گا جبکہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی شیر علی گورچانی دونوں ٹیموں کے اعزاز میں استقبالیہ دیں گے۔ اس تقریب سے ایک توقع یہ بھی باندھی جا سکتی ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونوا کے لیڈروں کے درمیان جو تلخی پائی جاتی ہے اُسے کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ایسے ایونٹ ہوتے رہنے چاہئیں اور اس میچ کا اہتمام کرنے پر میاں منیر صحیح معنوں میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔
وزیراعظم کی دُرگت
ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں پاناما پیپرز کے حوالے سے دھواں دھار بحث کے دوران سپیکر نے وزیراعظم کو ایوان سے باہر نکال دیا۔ بی بی سی کے مطابق سپیکر ڈیوڈ کارٹر نے وزیراعظم جان کی اور دیگر ارکان کو خبردار کیا کہ وہ کارروائی میں خلل نہ ڈالیں لیکن وزیراعظم نے سپیکر کی وارننگ کی پروا نہ کی جس پر سپیکر نے انہیں ایوان سے باہر نکال دیا۔ سپیکر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ دیگر ارکان سے مختلف رویہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ مسٹر جان کو پہلی بار ایوان سے نہیں نکالا گیا۔ وزیراعظم بننے سے پہلے رکن پارلیمان کی حیثیت میں مسٹر کی کو تین مرتبہ ایوان سے باہر نکالا جا چکا ہے۔ مسٹر جان کی پارلیمان سے نکالے جانے والے پہلے وزیراعظم بھی نہیں ہیں بلکہ اس حوالے سے وہ ہیلن کلارک اور ڈیوڈ لینگ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جنہیں ماضی میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے۔
صحیح نمائندے
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عام انتخابات زیادہ دور نہیں‘ عوام کے صحیح نمائندے پارلیمنٹ میں آنا چاہئیں۔ اگلے روز جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت کی جس دوران یہ ریمارکس دیئے
گئے۔ اس میں درخواست گزار کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پندرہ لاکھ روپے میں انتخابی مہم چلانے کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ انتخابی مہم میں بہت زیادہ اخراجات کا نقصان عام آدمی کو ہو رہا ہے اس لیے انتخابی مہم کی غیر ضروری چیزوں پر پابندی ہونی چاہیے اور ہر شخص کو الیکشن لڑنے اور برابری کا موقع ملنا چاہیے‘ ہمارے دانشور‘ اساتذہ قوم کا اثاثہ ہیں‘ یہ لوگ انتخابی عمل میں آئیں تو ان کی کوئی نہیں سُنتا‘ الیکشن کمیشن تمام سیاسی پارٹیوں کا اجلاس بلا کر حکمت عملی بنائے۔ سپریم کورٹ اسی طرح کرپشن کی بھی مذمت کرتی رہتی ہے لیکن وہ بھی صدائے صحرا ہی ثابت ہوتی ہے۔
نیب ایکشن لے!
حکومتی ارکان کی طرف سے عمران خان کی اس بات کا بھی مذاق اڑایا جا رہا ہے جس کے مطابق نیب نوازشریف کے خلاف ایکشن لے جو وہ کر سکتا ہے‘ کمیشن نہیں۔ ان کے مطاق نیب ہفتوں میں تحقیقات کر دے گا جبکہ جوڈیشل کمشن میں تاخیر ہو سکتی ہے ۔یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ معاملہ تادم تحریر گومگو میں ہے کہ آیا جوڈیشل کمیشن قائم بھی ہوتا ہے یا نہیں‘ جبکہ بنیادی طور پر یہ کام ہی نیب کا ہے۔ اس لیے اگر نیب کی باگیں کھینچ دی جائیں تو اس کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں کہ تھوڑے ہی عرصے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے‘ کیونکہ جن باتوں کا پہلے ہی اعتراف کیا جا چکا ہے‘ ان پر دوبارہ تفتیش و تحقیق کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نیب بھی الزام علیہان سے وہی سوال کر سکتی ہے جو اپوزیشن نے مشترکہ اور متفقہ طور پر طے اور پیش کئے ہیں اور اگر نیب کے بازو میں طاقت کا ایک ٹیکہ لگ جائے تو یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کام ہے! اور اب عباس رضوی کی یہ خوبصورت غزل :
ستارے چاہتے ہیں‘ ماہتاب مانگتے ہیں
مرے دریچے نئی آب و تاب مانگتے ہیں
عجیب ہے یہ تماشا کہ میرے عہد کے لوگ
سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ہیں
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
یہ احتساب تو دیکھو کہ محتسب ہی نہیں
رکاب تھامنے والے حساب مانگتے ہیں
ستون و بام کئی دیوار و در کی شرط نہیں
بس ایک گھر ترے خانہ خراب مانگتے ہیں
آج کا مطلع
ہوا کو روکنے والو ہوا تو آئے گی
نظر نہ آئے گی صورت صدا تو آئے گی