تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     15-05-2016

یہ کرے گا کون۔۔۔۔؟

قوم کو مبارک ہو کہ نئے پاکستان کی جدوجہد میں اب پیپلز پارٹی فیم راجہ ریاض بھی شامل ہو چکے ہیں۔ راجہ صاحب کا یہ بیان گمبھیر سیاسی حالات میں کسی Comic relief سے کم نہیں کہ پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کیا ہے، اب نیا پاکستان بنانے کے لیے جدوجہد کروںگا۔ جی ہاں، پاکستانیوں کی خوش نصیبی کہ سیاست کے انمول ہیرے مل کر ان کے لیے نیا نکور پاکستان بنانے پر تلے ہیں! ویسے اس نئے پاکستان کی جھلکیاں اکثر پی ٹی آئی کے جلسوں اور دھرنوں میں ضرور دکھائی دیتی ہیں۔ سیاسی جلسوں میں آج تک خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے ایسے واقعات نہیں دیکھے گئے جیسے پی ٹی آئی کے متوالوں نے دکھا دیے۔ کپتان نے بھڑکیلی تقریریں کر کے ان میں ایسا جنون بھر دیا ہے جس کی کوئی سمت نہیں۔ بپھرے ہوئے دریا کا ایک ریلا ہے جو کناروں سے نکل کر تباہی پھیلاتا چلا جائے۔ کئی دفعہ تو خود کپتان اس ریلے کی زد میں آتے آتے رہ گئے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں بدترین بدنظمی شروع سے ہی اس کا خاصہ رہی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران کپتان دھکم پیل کی وجہ سے ہی لفٹ سے نیچے گرے اور الیکشن مہم کے عین عروج پر ہسپتال جا پہنچے۔ اس کے بعد ملتان میں ہونے والے جلسے میں دھکم پیل سے وہ بھگدڑ مچی کہ کئی لوگ اس کی زد میں آئے۔ حال ہی میں لاہور کے جلسے میں خواتین کے ساتھ بدتہذیبی اور بدسلوکی کے شرمناک مناظر پوری دنیا نے دیکھے۔ مگر حیرت ہے کہ یہ سلسلہ پھر بھی نہیں رکا۔ اس کے بعد پشاور اور بنوں میں ہونے والے جلسوں میں بھی ایسی ہی بد انتظامی دیکھی گئی۔ ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ پارٹی کارکنوںکو ٹریننگ ہی اسی طرح کی دی گئی ہے۔
مار دو! گرا دو! کھینچ لو! چھین لو! ۔۔۔۔ کپتان کو اس رجحان پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ اگر ان بے لگام متوالوں کو تہذیب اور نظم و ضبط میں رہنے کی تربیت نہ دی گئی تو پھر پی ٹی آئی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اب تک پی ٹی آئی اپنے دھرنوں اور جلسوں میں رونق کی بدولت ہی زیادہ مقبول رہی ہے، اگر یہی حال رہا تو ان کے سپورٹرز بھی ایسی ہتھ چھٹ قسم کی پارٹی کے جلسوں سے آنا چھوڑ دیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف نے کئی برس کی طویل سیاسی جدوجہد کے بعد حاصل ہونے والے عروج کو مختصر عرصے میں کھونا شروع کر دیا ہے، اس میں سب سے بڑا حصہ ظاہر ہے کہ کپتان ہی نے ڈالا۔ 
دو تازہ ترین واقعات۔۔۔۔ لندن کے میئر کے الیکشن میں پاکستان نژاد مسلمان محمد صادق کے مقابل یہودی کی الیکشن مہم میں کپتان نے اس لیے حصہ لیا کہ وہ ان کا سابق سالا ہے۔ مجھے تو حیرت ہوئی کہ کپتان کا مشیر کون ہے یا پھر کوئی مشیر ہی ہے نہیں کیونکہ کوئی بھی پاکستانی انہیں یہ مشورہ نہیں دے سکتا۔ اس اقدام سے برطانیہ میں تحریک انصاف کے پاکستانی سپورٹر بھی بے حد نالاں ہیں۔ انہیں بھی اپنے لیڈر سے ایسی سیاسی حماقت کی ہرگز توقع نہ تھی جو خود ان کی پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ اسی طرح آف شور کمپنیوں پر کپتان کے احتجاج کا معاملہ ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے دائیں بائیں کھڑے سرمایہ دار بھی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، موصوف خود بھی آف شور کمپنی کے مالک رہے ہیں جس کی تفصیلات اخبارات میں آ چکی ہیں۔ ویسے آف شور کمپنی پر شور مچانے والوں کو دیکھ کر چور مچائے شوروالا محاورہ ذہن میں آتا ہے۔ پاناما لیکس پر صرف سیاست ہو رہی ہے، اس ایشو نے فی الحال کھڈے لائن لگی ہوئی سیاسی جماعتوں کو بھی متحرک کر دیا ہے، سو سیاسی بازار اس وقت خوب گرما گرم ہے۔ بلاول زرداری، خورشید شاہ ، اعتزاز احسن اور دوسرے بڑے لیڈر جب کرپشن کے خلاف تقریریں کرتے ہیں اور جمہوریت کو بچانے کا اعلان کرتے ہیں تو یہ باتیں سننے والے ان کو ہضم نہیں کر پاتے۔
جناب! سندھ میں آپ ہی کی حکومت ہے اور وہاں روزانہ کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس کرپشن نے ادارے تباہ کر کے رکھ دیے ہیں۔ خورشید شاہ‘ بلاول زرداری اور اعتزاز احسن کو کوئی بتائے کہ جس کرپشن کے خلاف آپ میڈیا میں تقریریں کرتے پھرتے ہیں، اسی کرپشن کے باعث تھر میں قحط اور موت کا رقص جاری ہے۔ کاغذی رپوٹوں اور فائل ورک کے مطابق سندھ حکومت نے تھر میں ڈیڑھ ارب روپے مختلف منصوبوں کی مد میں خرچ کئے لیکن حقیقت میں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آ رہا۔ تھر کے بھوکے، قحط زدہ بدحال لوگوں کے نام پر صرف سرکاری فائلوں میں یہ خطیر رقم خرچ کی گئی جبکہ اصل میں بلاول زرداری کی زیر سرپرستی حکومت کے کرتا دھرتا لوگوں کی جیب میں یہ رقم چلی گئی۔ اگر یہ بدترین کرپشن نہیں تو اور کیا ہے؟ اگلے روز سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تاریخ کی اس بدترین کرپشن کی تفصیلات سننے کے بعد کہا، الفاظ نہیں کہ سندھ حکومت کی بے حسی پر تبصرہ کیا جائے۔ میں حیران ہوں کہ اتنی بڑی کرپشن کی خبر میڈیا میں نمایاں کوریج حاصل نہ کر پائی ۔ سندھ حکومت کی اس کرپشن سے تھر میں براہ راست انسانی جانیں موت کے منہ میں جا رہی ہیں، سینکڑوں بچے بیماری اور قحط کی وجہ سے مائوں کی گودیوں میں دم توڑ رہے ہیں۔ ان بد حال لوگوں کے نام پر کرپشن ہوئی۔ کیا کوئی اس ''دیسی لیکس‘‘ پر بھی سٹینڈ لے گا؟ خورشید شاہ صاحب بتائیں کیا اس قسم کی کرپشن جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے؟ پاناما لیکس پر یہ شور شرابہ بظاہر عوام کو بے وقوف بنانے کا محض ڈھونگ ہے۔ کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ احتساب اور اکائونٹیبلیٹی کے نعرے یہاں صرف سیاست کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ کسی کمیشن میں اتنی جان نہیں کہ شفاف اور نتیجہ خیز تحقیقات کر سکے۔ شاید اسی لیے چیف جسٹس آف پاکستان نے اس حوالے سے کمیشن بنانے سے انکار کر دیا ہے۔ بدیسی پاناما لیکس پر یہاں بیٹھ کر تفصیلی اور مکمل تحقیقات کرنا یقیناً مشکل ہے مگر یہاں تو ''دیسی لیکس‘‘ کے بم آئے روز عوام کے سروں پر پھٹتے ہیں، ان کی بھی نتیجہ خیز تحقیقات نہیں ہوتی۔ صرف بے رحم احتساب ہی پاکستان کو کرپشن سے نجات دے سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کرے گا کون؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved