جس دوران پاکستان میں سیاست دان پاناما لیکس پر باہم دست وگریباں تھے، برطانوی وزیر ِاعظم ڈیوڈ کیمرون لندن میں بدعنوانی کے موضوع پر ایک کانفرنس کی میزبانی کر رہے تھے۔ اس کانفرنس کے موقع پر مسٹر کیمرون کو اُس وقت خفت اٹھانا پڑی جب بکنگھم پیلس میں ملکہ برطانیہ سے گفتگو کے دوران ایک لائیو مائیکرو فون نے آواز کیچ کی اور وزیر ِاعظم کا یہ جملہ براہ ِراست سنا گیاکہ اس کانفرنس میں '' کچھ انتہائی بدعنوان ممالک، جیسے نائیجریا اور افغانستان بھی شرکت کر رہے ہیں‘‘۔ اگرچہ کانفرنس کا یہ آغاز کسی طور پر مناسب تھا لیکن نائیجریا کے صدر جنرل محمد وبوہاری نے بڑے شائستہ انداز میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیے اورکہا کہ وہ معذرت طلبی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہاں، یہ ضرور چاہتے ہیںکہ ان کے ملک سے لوٹی گئی رقم جو برطانیہ میں جمع یا انویسٹ کی گئی ہے، واپس کی جائے۔ عالمی بدعنوانی کا یہ پہلو بہت واضح ہے کہ دنیا، خاص طور پرغریب اور ترقی پذیر ممالک کے مکار سیاست دان، جنرل، سرکاری افسر اور کاروباری افراد اپنے اپنے ممالک سے لوٹی ہوئی بھاری رقوم سمندر پار اکائونٹس یا مغربی دنیا کے دارالحکومتوں میں رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے غریب اقوام کی رقوم کا ترقی یافتہ ممالک بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
بہرحال بدعنوانی اور ناجائز طریقے سے رقم حاصل کرنے اور اسے چھپانے پر ترقی پذیر ممالک کی اشرافیہ کی ہی اجارہ داری نہیںہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والی عظیم کمپنی ہالی بروٹن کے معاملات پر غور کریں۔ آئل فیلڈزکوکنٹرول کرنے والی دنیا کی اس سب سے بڑی کمپنی میں کئی برسوں تک ڈک چینی جو صدر بش کے دور میں نائب صدر تھے، کام کرتے رہے۔ اس فرم پر زائد بل بنانے کے علاوہ کئی بلین ڈالر وصول کرکے سنگل ٹینڈرز کو سہولت فراہم کرنے کا الزام بھی لگا۔ اسی طرح ''بی اے ای‘‘ (برٹش ائیر کرافٹ مینوفیکچرر) نے پرکشش کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے کچھ سعودی شہزادوں کو کئی ملین پائونڈ کمیشن بطور رشوت دیا۔ جب اس پر ''سیریس فراڈ آفس‘‘ نے تحقیقات شروع کی تو ٹونی بلیئر نے اس میں مبینہ طور پر رکاوٹ ڈالی۔
ہائی پروفائل بدعنوانی کی میڈیا میں آنے والی یہ چند مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں بزنس کی گاڑی چلانے کے لیے ''پہیوں کو گریس‘‘ لگانی ہی پڑتی ہے (امید ہے کہ پاکستانی قارئین اس اصطلاح کو سمجھ گئے ہوں گے۔) جیسے اگر کونسل کا کوئی ممبر کسی رہائشی منصوبے کی اجازت دینے سے انکار کر رہا ہو توکوئی بات نہیں، سیر و تفریح ہر انسان کا حق ہے۔ اُس شریف آدمی کو فیملی سمیت کسی مہنگے تفریحی سفر پر بھیجا جاسکتا ہے یا ڈاکٹروں کو قائل کرنے کے لیے کہ اگر مریضوں کوکچھ مہنگی ادویات تجویز کرتے رہیں تو اُن (ڈاکٹروں کا) بھلا ہوگا۔ کانفرنسوں میں شرکت کی دعوت کے بہانے مہنگے قیام و طعام اور تحفے تحائف کی سہولیات سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ یقیناً دولت آنی جانی شے ہے، تھوڑی سی جائے گی تو ہی زیادہ آئے گی۔ تاہم ان مثالوں سے یہ ثابت کرنا مقصود نہیں کہ مغرب میں پھیلی ہوئی بدعنوانی پاکستان جیسے ممالک کی معیشت پر جھاڑو پھیرکر صفایا کردینے والی بدعنوانی کے برابر ہے۔ ہرگز نہیں، رائی کوپہاڑ سے کیا نسبت! مغرب والے کس منہ سے اپنی بدعنوانی کو ہمارے مقابل لاسکتے ہیں؟ یہ منہ اور مسور کی دال! لیکن یہ بات طے ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ہونے والی ہوشربا بدعنوانی سے اکٹھی کی گئی رقم سے ترقی یافتہ ممالک میں جائیدادیں وغیرہ خریدی جاتی ہیں۔ اس طرح اس رقم کا حتمی فائدہ اُنہیں ہی ہوتا ہے۔
مستقبل میں ان واقعات کی روک تھام کے لیے ڈیوڈ کیمرون نے وعدہ کیا ہے کہ برطانیہ آئندہ اس بات کو نوٹ کرے گا کہ سمندر پار کمپنیوں کے ذریعے خریدی گئی جائیداد کا اصل مالک کون ہے ۔ اس سے لندن اوردیگر مقامات پر خریدی گئی مہنگی جائیدادوں کے اصل مالک بے نقاب ہوجائیںگے۔ خدشہ ہے کہ رازداری کا نقاب اترنے سے پاکستان کی بہت سی اشرافیہ کو خفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ایشو پر دی گارڈین میں سیمن جنگنز (Simon Jenkins) لکھتے ہیں: ''کئی عشروں سے برطانوی حکومتوں نے دنیا بھر کے دولت مندوںکو سمندر پار کمپنیوں کی سہولت فراہم کر رکھی ہے کہ وہ خود پر عائد اپنے معاشرے کی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے
اپنی دولت چھپا سکیں۔ چنانچہ سبسڈی دیے بغیر دولت لانے کے لیے برطانوی ہیونز قائم کی گئیں۔ یہ ہیونز دنیا کی دیگر ریاستوں کے وسائل اپنے اندر جذب کرتی ہیں۔ ان میں وسائل رکھنے کی ٹیکس چوری کے سوا اور کوئی وجہ نہیں۔ اندازہ ہے کہ غریب ممالک کے بیس سے تیس ٹریلین ڈالر ان ٹیکس ہیونز میں چھپائے گئے ہیں۔ سمندر پار فنانس اب ماضی کی طرح عالمی معیشت کا برائے نام نہیں، خاطرخواہ حصہ ہے۔ اکانومسٹ کے ایک حالیہ سروے کے مطابق عالمی سرمایہ کاری کا تیس فیصد سمندر پار اکائونٹس میں موجود ہے‘‘۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ ٹیکس ہیونز کے قوانین کو تبدیل کیوں نہیں کرتا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ برطانیہ کی برائے نام تابع یہ خود مختار ریاستیں ان اکائونٹس سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے روجن آئی لینڈز کی آبادی صرف 28,000 نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہاں 450,000 آف شور کمپنیاں ہیں۔ وہاں کی مقامی حکومت کے ساٹھ فیصد محصولات انہی کمپنیوں کی لائسنس فیس سے اکٹھے ہوتے ہیں۔ تبدیلی لانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ برطانیہ وہاں گورنر راج نافذ کرکے قوانین تبدیل کردے۔
یقیناً اس پر ''بی وی آئی‘‘ (برٹش ورجن آئی لینڈز) کی طرف سے مزاحمت کی جائے گی۔ درحقیقت بی وی آئی نے لندن کانفرنس میںشرکت نہیں کی۔ اپنے دفاع میں ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بڑی ریاستوں کی طرف سے دھمکایا جا رہا ہے؛ حالانکہ یہ بڑی ریاستیں خود کالے دھن سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ان کے اس موقف میں سچائی موجود ہے۔ درحقیقت سوئٹزرلینڈ اورLichtenstein جیسی ریاستیں دنیا بھر کے بدعنوان اور جرائم پیشہ افراد کو کالا دھن محفوظ کرنے کے لیے محفوظ اکائونٹس فراہم کرتی ہیں۔ امریکی ریاست دیلاویئر (Delaware) کا کردار بھی ان سے مختلف نہیں۔
اگر مہنگی جائیداد کے مالکوں کو بے نقاب کیا جاتا ہے تو یقیناً لندن میں جائیدادوں کی قیمت گرے گی جن کا ایک بڑا حصہ بدعنوان سیاست دانوں نے خرید ہوا ہے تاکہ برے وقت میں یہ رکھی ہوئی چیز کام آئے۔ یہ شرفا اپنے نام ظاہرکرنا پسند نہیںکریںگے۔ اسی طرح کاروباری افراد بھی چاہے اُنھوں نے جائزذرائع سے رقم کمائی ہو، اپنے ناموں کی تشہیر نہیں چاہیںگے۔ سمندر پار کمپنی قائم کرنے کا اورکیا مقصد ہوتا ہے؟ لیکن اگر برطانیہ ان کے ناموں کی تشہیرکا ارادہ کرلیتا ہے تو یقیناً یہ افراد کسی اور ساحل کا رخ کریں گے ۔ اگر جائیداد کی تفصیل حاصل کرنے کی تجویز عملی شکل اختیار کرتی ہے تو لند ن کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری سر کے بل گرتی دکھائی دے گی۔ اس پر لندن کے بہت سے شہری جشن منائیںگے کیونکہ جائیداد کی قیمت میں اضافے نے اُنہیں شہر سے باہر دھکیل دیا ہے۔ سرمایہ کاروں کی طرف سے خریدی گئی مہنگی جائیدادیں خالی پڑی ہوئی ہیں۔ چنانچہ پراپرٹی بزنس کرنے والوں کے لیے یہ ایک بری خبر ہوگی۔ لگتا ہے کہ اُن میں سے کچھ کا کباڑا ہوجائے گا۔ لیکن جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے ہر کھیل میں کسی کی ہار ہوتی اورکسی کی جیت۔ جب غیر ملکی یہاںسے بوریا بستر لپیٹ کر روانہ ہوںگے تو ان لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے۔