تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-05-2016

ٹکڑے اور سلیم کوثر

اِس بار
اگلے روز وزیراعظم اور آرمی چیف میں ملاقات کے بعد جب ٹی وی پر ٹکر چل گئے کہ آرمی چیف نے پاناما لیکس کا مسئلہ جلد حل کرنے کو کہا ہے کہ اس سے ملکی سلامتی کو خطرہ ہے تو اخبارات سے یہ فرمائش کی گئی کہ اسے شہ سرخی نہ بنائیں‘ جس پر دو حکومتی نواز اخبارات ہی نے عمل کیا بلکہ ایک کی تو شہ سرخی ہی علی حیدر گیلانی کی بازیابی تھی اور اس بار سب نے یہ بھی دیکھا کہ آرمی چیف خالی ہاتھ نہیں تھے، حالانکہ اس سے پہلے وزیراعظم سے ملنے وہ کبھی سٹک ہمراہ نہیں لائے تھے‘ چنانچہ یہ بھی خیر گزری کہ کسی اخبار نے اس کا حوالہ ہی نہیں دیا، اگرچہ یہ ایک غیر معمولی صورتحال تھی بلکہ خواجہ آصف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آرمی چیف نے پاناما لیکس کے موضوع پر وزیراعظم سے کوئی بات ہی نہیں کی‘ حالانکہ موصوف اس ملاقات میں موجود ہی نہیں تھے‘ ہو سکتا ہے کہ کسی کے نزدیک صاحب موصوف کی سٹک برداری کی کوئی علامتی توضیح بھی موجود ہو!
وہاں سے بھی 
ڈیلی ٹیلی گراف اس خبر کا ذمہ دار ہے جس کے مطابق ایسے کرپٹ افراد کو جو لندن کے لگژری ہومز کی خریداری کے لیے منی لانڈرنگ کرتے ہوں‘ کریک ڈائون کا خطرہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ہر ایسی جائیداد جو کسی رجسٹرڈ فرم کی طرف سے خریدی گئی ہو اور جس کا مقصد ٹیکس چھپانا ہو لازمی طور پر منی لانڈرنگ کا شاخسانہ نہیں ہوتی‘ تاہم لندن میں ان کی تعداد ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جہاں کرپٹ افراد کے لیے چھپا رہنا ظاہر کرتا ہے کہ جہاں دھواں ہے وہاں آگ بھی ہو گی۔ چنانچہ ان پر یہ بتانے کے لیے زور دیا جائے گاکہ ان کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی ہے کہ اس طرح ان تجاویز کے ذریعے عالمی کرپشن کا قلع قمع کیا جا سکے۔ چنانچہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے کہ لندن کے غیر ملکی سیاستدانوں اور سرکاری ملازموں کے لیے کالے دھن کی آماجگاہ ہونے کے تصور کو دور کیا جا سکے‘ ایسے افراد پولیس کو یہ بتانے پر مجبور ہونگے کہ ان کے ذرائع آمدنی کیا ہیں؟
بس سٹاپ پر
لندن ہی کی ایک خبر ہے کہ اگلے روز میئر لندن صادق خان دفتر جانے کے لیے صبح بس سٹاپ پر کھڑے بس کا انتظار کرتے پائے گئے۔ بے حد افسوسناک بلکہ شرمناک بات ہے کہ آخر انہیں اپنے عہدے کا ہی کچھ خیال کرنا چاہیے کہ وہاں کھڑے دوسرے لوگ کیا کہتے ہوں گے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اُن کے ساتھ کوئی سکیورٹی یا گارڈ وغیرہ بھی نہیں تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ انہیں اس عہدے کی قدر اس لیے نہیں ہے کہ یہ انہیں آسانی سے مل گیا ہے۔ اول تو ہمیں اس خبر کا یقین ہی نہیں آیا کہ اتنے بڑے عہدے کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی کیوں کر روا رکھی جا سکتی ہے اور اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بس کا ڈنڈا پکڑ کر کھڑے کھڑے ہی دفتر پہنچے ہوں کیونکہ صبح کے وقت بسوں میں رش بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ آخر ان کی سرکاری گاڑیاں کہاں گئیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ انہوں نے کرائے پر چڑھا رکھی ہوں کیونکہ ایسے کنجوس مکھی چُوس آدمی سے کسی بھی بات کی توقع کی جا سکتی ہے‘ ہیں جی؟
کوئی جلدی نہیں 
لیجئے، یہ خبر بھی آ گئی کہ وزیراعظم پارلیمان میں جمعہ کے روز نہیں بلکہ تین دن مزید تاخیر سے تشریف لائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ارکان کے سوالوں کا جواب بھی نہیں دیں گے کیونکہ ایسا وہ صرف جوڈیشل کمیشن کے سامنے کریں گے۔ اس لیے اپوزیشن والے کل تک جو بغلیں بجا رہے تھے وہ سبھی بے محل اور بے معنی تھا۔ ویسے بھی معزز ارکان اپوزیشن ایک منتخب وزیراعظم سے سوال جواب اور تُوتکار کرتے کوئی اچھے لگیں گے، آخر بقول خواجہ آصف کچھ شرم ہونی چاہیے‘ کچھ حیا ہونی چاہیے جبکہ وزیراعظم اپنے بارے میں یہ تاثر بھی پیدا نہیں ہونے دینا چاہتے کہ وہ خدانخواستہ کسی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں‘ اس لیے اپوزیشن ارکان اسمبلی وہاں آ کر وزیراعظم کی زیارت ہی کر سکیں گے جبکہ سوالات کے جواب دینے کے لیے اُن کے جانثار وہاں پہلے ہی سے موجود ہوں گے۔ اول تو معزز ارکان اپوزیشن کو مارے شرم کے اسمبلی ہال کی طرف اس روز منہ ہی نہیں کرنا چاہیے۔
پیش رفت؟
اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی کہ فوج نے متعدد کرپٹ افراد کی فہرست حکومت کو فراہم کر دی ہے جس میں سیاستدان اور سرکاری افسران شامل ہیں اور کہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے اور اگر حکومت کارروائی نہیں کر سکتی تو گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ ہم خود کس مرض کی دوا ہیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ حکومت اگر بار بار یہ اعلان کر رہی ہے کہ اس کے خلاف اگر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ گھر چلی جائے گی‘ اگرچہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کرپشن ثابت ہونے پر کم از کم گھر ضرور جانے دیا جائے کیونکہ سرکاری گھر کا مزہ یہ حضرات پہلے ہی چکھ چکے ہیں اور وہ ان کے لیے صبح قیامت تک کافی ہے۔ پھر اصل بات یہ ہے کہ کرپشن کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ وہ ثابت نہ ہو سکے اور جس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں آج تک کبھی ایسا ہوا ہی نہیں۔ تاہم حکومت کو اگر پتا ہوتا کہ ایک دن اُس کے ساتھ یہ سلوک ہونا ہے تو وہ برسراقتدار آنے کے لیے اتنا تردد ہی نہ کرتی‘ الیکشن کمشن کا احسان سر پر اٹھاتی نہ پنکچر لگانے والوں کا‘ اور نہ ہی اپنے پٹواریوں‘ نمبرداروں‘ اساتذہ اور دیگر ماتحتوں کے زیرباد ہوتی ع
اے کمال افسوس ہے تجھ پر کمال افسوس ہے
اور اب سلیم کوثر کا ہدیہ نعت :
حق تعالی نے عطا کی یہ زمیں آپ کا ہوں
میرے آقا میں کسی کا بھی نہیں آپ کا ہوں
کُرۂ عشق سے باہر بھی حضور آپ کا تھا
کُرۂ عشق میں جب سے ہوں مکیں آپ کا ہوں
وسعتِ چادرِ رحمت کی کوئی حد ہی نہیں
میں گنہگار گناہوں کے تیئں آپ کا ہوں
مُجھ کو بہکائے گا کیا جلوۂ دُنیا کا غبار
میرا ایمان کی حد تک ہے یقین آپ کا ہوں
سب کو ہے ناز غلامی پہ بڑی طاقتوں کی
میرا اعزاز کہ میں خاک نشیں آپ کا ہوں
چشم بینا جو میّسر ہو تو آتا ہے نظر
صاف لکھا ہے سرِ مدحِ جبیں آپ کا ہوں
آج کا مقطع
اُس شہر کا تو ذکر ہی کیا ہے ابھی‘ ظفر
یہ پوچھئے کہ شہر نما کتنی دُور ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved