تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     16-05-2016

خوش فہمی

انسان کو جسمانی امراض کی طرح نفسانی امراض بھی لاحق ہوتے ہیں، جیسے تکبر ،حرص وطمع ، بغض وکینہ اور خوش فہمی وغیرہ۔تکبّر واستکبار کے لفظی معنی ہیں:اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،یہ شیطانی خصلت ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اُس نے انکار کیا اورتکبر کیا اور وہ کافر ہوگیا،(البقرہ: 34)‘‘۔ شیخ سعدی نے کہا ہے:
تکبر عزازیل را خوار کرد
بزندانِ لعنت گرفتار کرد
ترجمہ:'' تکبر نے شیطان کو ذلیل کردیا اوروہ ہمیشہ کے لیے لعنت کا ہدف بنا ‘‘۔یہ قرآن کی اس آیت کا ترجمہ ہے :
''(اللہ نے )فرمایا:تو جنت سے نکل جا،بے شک تو راندۂ درگاہ ہے اور بے شک تجھ پر قیامت تک لعنت ہے،(الحجر:35)‘‘۔حدیثِ میں تکبر کے معنی بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تکبر حق کے انکار اور لوگوں کوحقیر جاننے کا نام ہے ،(مسلم: 91)‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جو اللہ کے لیے تواضع کرے گا ،اللہ اُسے سرفراز فرمائے گا،وہ اپنے دل میں اپنے آپ کو معمولی سمجھے گااور لوگوں کی نظر میں عظیم ہوگااور جو تکبر کرے گا ،اللہ اُسے ذلیل کردے گا،سو وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوگا اور اپنے دل میں اپنے آپ کو بڑا سمجھے گا،( بیہقی:8140)‘‘۔حضرت عبداللہ دعا مانگا کرتے تھے: ''اے اللہ !تو مجھے اپنی نظروں میں حقیر بنا اور لوگوں کی نظروں میں معظَّم بنا،(مُصَنَّف ابن ابی شیبہ:29528)‘‘۔ امام رازی لکھتے ہیں:''ایک دفعہ جبریلِ امین بارگاہِ رسالت میں حاضر تھے کہ حضرت ابوذرغِفاری کو انہوں نے آتے ہوئے دیکھا اور کہا:کیایہ آنے والے ابوذر ہیں؟۔رسول اللہ ﷺ نے جبریلِ امین سے پوچھا: کیا آپ اسے جانتے ہیں؟، جبریل امین نے عرض کی: یہ ہمارے ہاں یہاں سے زیادہ مشہور ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اِن کی عالَم بالا میں اس مقبولیت کا سبب کیا ہے؟،جبریل امین نے عرض کی:ایک تو یہ کہ یہ اپنے آپ کو اپنے دل میں معمولی سمجھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ سورۂ اِخلاص بہت زیادہ پڑھتے ہیں،(التفسیر الکبیر،جز:32، ص:356)‘‘۔
ان نفسانی عوارض میں ایک خوش فہمی ہے،اسے ہم انگریزی میں Overestimationسے تعبیر کرتے ہیں،یعنی اپنے آپ کو اپنے حقیقی مقام سے بہت بالا تر سمجھنا اور دوسروں کو اپنے مقابل حقیر جاننا۔یہ اُن لوگوں کا شِعار ہے جو اپنے مقام کا تعیّن خود کرتے ہیں،حالانکہ یہ کسی غیر جانب دار فرد یا ادارے کا کام ہوتاہے۔ معاشرے میں عزت وتکریم کا مدار انسان کے علم اور تقویٰ پر ہوتا ہے اور ہمارے سیاسی نظام میں یہ فیصلہ قومی انتخابات کے موقع پرعوام کرتے ہیں،وہ جسے چاہیں تختِ اقتدار پر بٹھادیں اور جسے چاہیں معزول کردیں،بشرطیکہ انتخابات منصفانہ ،شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں۔ اپنی تکریم کے لیے دوسروں کی تذلیل وتحقیر لازمی نہیں ہے ،ہمیں اپنے سیاسی کلچر میں اَقدار کو فروغ دینا چاہیے ،ایک دوسرے کی تذلیل سے لطف اندوز ہونا اچھا شِعار نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف کی بارہ آیات میں ماضی کی امتوں کے دو اشخاص کے حالات اور مکالمہ تفصیل سے بیان فرمایا ہے ، اُن میں سے ایک شخص کے پاس دولت کی فراوانی تھی اور وہ مالی اور افرادی قوت پر بے انتہا نازاں تھا، اِن نعمتوں کی پائیداری پر اُسے بے انتہا یقین تھا،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والا تھا ،اُس نے کہا:مجھے یقین ہے کہ یہ (باغ)کبھی تباہ وبرباد نہیں ہوگا اورمیں نہیں سمجھتا کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر (بالفرض)مجھے اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو میں آخرت میںاس سے بھی بہتر مقام پائوںگا، (الکہف: 35-36)‘‘۔اورپھر وہ وقت آیا کہ سب کچھ تباہ ہوگیا اور وہ کفِ افسوس ملتا رہ گیا،بجز ندامت کے اُس کے پاس کچھ نہ رہا ۔
ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''اور اگر ہم اس کو تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا ذائقہ چکھائیں ،تو وہ ضرور یہ کہے گا:میں بہر صورت اس کا حق دار تھا اور مجھے گمان نہیں کہ قیامت قائم ہوگی اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹایا بھی گیا تو بے شک اُس کے پاس میرے لیے خیر ہی ہوگی ،(حم السجدہ:50)‘‘۔
الغرض انسان کی ایک خوش فہمی یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطاکی ہوئی راحتوں اور نعمتوں کو ، وہ مال ودولت یا جاہ واقتدار کسی بھی صورت میں ہوں، اللہ کا انعام ،اپنا استحقاق اور اُس کی بارگاہ میں اپنی محبوبیت کی دلیل سمجھ لیتاہے،حالانکہ ضروری نہیں کہ دنیاکی نعمتیں کسی کے لیے ہر صورت میں انعام ہی ہوں ،یہ کبھی امتحان اور آزمائش کے لیے بھی ہوتی ہیں ،کاش کہ انسان پر یہ حقیقت آشکار ہوجائے ۔
انسان کی دوسری نفسانی کمزوری یہ ہے کہ وہ ان نعمتوں کو لازوال اور دائمی سمجھنے لگتاہے ،جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ عارضی اور زوال پذیر ہیں ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے : '' دنیاکی زندگی کی مثال اُس پانی کی طرح ہے ،جس کو ہم نے آسمان سے نازل کیا تو اس کی وجہ سے زمین کی وہ پیداوار خوب گھنی ہوگئی ،جس کو انسان اور جانور سب کھاتے ہیں ،یہاں تک کہ عین اُس وقت جب زمین نے اپنا حسن لے لیا اور وہ آراستہ ہوگئی اور اُس کے مالکوں نے سمجھاکہ اب یہ ہماری دسترس میں ہے کہ( اچانک) رات یا دن کو (کسی وقت) اُن پر ہمارا عذاب آگیا ،پس ہم نے اُن کھیتوں کو کٹاہواڈھیر بنادیا، گویا کل یہاں کچھ تھاہی نہیں (سو ) غور وفکر کرنے والوں کے لیے ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں ،(یونس :24)‘‘۔
سو حقیقت پسندی اچھا شِعار ہے ،انسان کو اپنا اور دوسروں کا تجزیہ ،اپنی اور دوسروں کی صلاحیتوں ،استعدادِ کار اور مقبولیت کا جائزہ منصفانہ انداز میں لینا چاہیے ،ورنہ بعد میں مایوسی ہوتی ہے اور مایوسی کا غلبہ بھی تباہ کن ہوتا ہے ۔شیخ سعدی نے اس کیفیت کو ایک عربی اشعار میں بیان کیا ہے:
وقت ضرورت چو نماند گریز
دست بگیرد سر شمشیر تیز
اِذَا یَئِسَ الْاِنْسَانُ طَالَ لِسَانُہُ
کَسِنَّوْرٍمَغْلُوْبٍ یَصُوْلُ عَلَی الْکَلْبِ
''یعنی جب مصیبت سے گریز کی کوئی صورت باقی نہ رہے توکمزور انسان بھی لازمی طور پر اپنے دفاع کے لیے تیز دھار تلوار کو ہاتھ میںاٹھالیتا ہے ۔جب انسان ناامید ہوجاتا ہے تو اس کی زبان دراز ہوجاتی ہے ،جیسے جب کتا بلی کا تعاقب کر رہا ہو اور نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ وہ اچانک اُسے اپنے منہ میں پکڑ لے گا،تو آخری حیلے کے طور پر وہ واپس پلٹ کر کتے پراس انداز سے غرّاتی ہے کہ جیسے اس پر حملہ کر رہی ہواور کتا ایک لمحے کے لیے رُک جاتا ہے اور اس کی رفتار کا بہائو(Rhythm) ٹوٹ جاتا ہے اور اسی لمحے سے فائدہ اٹھاکر بلی دائیں بائیں نکل جاتی ہے‘‘۔
پس ہمارے سیاست دانوں کا بے قابواندازِ بیان اسی کیفیت کا آئینہ دار ہے ،ہر فرد یا جماعت اپنے آپ کو طیّب وطاہر اور پارسا سمجھتی ہے اور اپنے مقابل فریق کو پاپی اور گناہ گار ،حالانکہ خرابیاں کسی نہ کسی درجے میں سب میں ہیں ۔یہ ضرور ہے کہ کسی کا گراف نسبتاً کم ہے اور کسی کا بہت زیادہ ہے اور یہ بھی مسلم ہے کہ :''جن کے رتبے ہیں سِوا ، اُن کو سِوا مشکل ہے‘‘۔پس جو جتنا صاحبِ اختیار ہے ،اس کی مسئولیت بھی اتنی ہی زیادہ ہے اور یقینا وزیرِ اعظم کی مسئولیت سب سے زیادہ ہے، کیونکہ وہ سب سے بااختیار منصب پر وقفوں کے ساتھ ایک عرصے سے فائز رہے ہیں ۔ 
لیکن بصد ادب یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ نظام کی اصلاح اور احتساب کے کسی جامع وسریع العمل پیکیج کو قانونی شکل دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے سیاسی اثاثے میں بہت کم افراد پارسائی کا دعویٰ کرسکتے ہیں ۔اس لیے ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں یہ سنہری موقع بھی شوروغوغا کی نذر نہ ہوجائے اور انجامِ کار قوم کا ہاتھ خالی رہ جائے ۔اس پورے عرصے میں مجھے اس موضوع پرصرف پروفیسر خورشید احمدکی جامع تحریر،تجزیہ اور تجاویز پڑھنے کو ملیں ،انہوں نے پورے نظام کی اصلاح کی بات کی ہے اور یہ بھی تجویز دی ہے کہ دائرہ سب پر محیط کیا جائے ۔ہماری صحافت بھی کم وبیش دو کیمپوں میں منقسم ہے اور سب اپنے اپنے کیمپ میں مورچہ زن ہیں اور فریقِ مخالف پر زبانی اور تحریری بم باری کر رہے ہیں،اس سے بظاہر کسی مثبت نتیجے کی توقع عبث ہے ،سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کچھ فیصلے مقدر ہوچکے ہوں تو انہیں کوئی ٹال نہیں سکتا۔
کاش کہ جنابِ سراج الحق اپنی انقلابی مصروفیات سے وقت نکال کر پروفیسر خورشید کی تحریر کو خالی الذہن ہوکر پڑھیں،کیونکہ اگرخودجماعتِ اسلامی کے اندر ان کی فکر کے صائب ہونے کا اعتبار نہیں ہے ،تو اس ضعیف العمری اور بیماری کی حالت میں ان کی یہ فکری مشقت بے سود رہے گی ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان اسلامک فرنٹ کے دور کی طرف واپس پلٹ گئی ہے ، جو اُن کے فکری انتشار کا دور تھا ،جس سے بعد میں جناب قاضی حسین احمد نے رَجعت کرلی۔ سرد وگرم چشیدہ چونسٹھ سالہ جوان جنابِ لیاقت بلوچ بھی سراج الحق صاحب کی قیادت میں چائے کی پیالی میں طوفان برپاکرنے اور اُس سے انقلاب کشید کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں ،حالانکہ جماعت نے تو انقلابی ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا اور وہ ہمیشہ نظام کے تسلسل کی حامی رہی ہے ، اگرچہ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں انہیں بہت سی ملامتوں کا سامنا کرنا پڑا اور یہ طعنے آج تک اُن کا تعاقب کرتے رہے ہیں ۔جماعتِ اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے مختلف کیڈرہیں ،اُس کی مجالسِ شوریٰ وعاملہ بظاہر فعال ہیں ،لیکن اُن کی اجتماعی دانش کی راستی کے بارے میں ذہن میں خدشات ہیں ،خدا کرے کہ ہمارے خدشات غلط ثابت ہوں۔
سیاست فریضہ ٔ نبوت ہے ،اسلام نے اسے تقدیس عطاکی ہے ،لیکن زوال کے اس دور میں ہمارے ہاں سیاست گالی بن چکی ہے ،اسے فریب دہی ،ابن الوقتی ،موقع پرستی اورعیّاری کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے یا بنادیا گیا ہے۔لیکن ہمیں اسی کے ساتھ جینا ہے ۔ بہت سے دوست جس متبادل کے لیے بے قرار رہتے ہیں ،قوم اس کے تجربے سے بارہا گزر چکی ہے اور اُس کی یادیں بھی انتہائی تلخ اور اذیّت ناک ہیں۔بہتر ہے کہ موہوم کامیابی کی امید میں دستیاب اثاثے کو مہم جُوئی کی نذر نہ کیا جائے ۔ہوسکتا ہے کہ ہماری دانش بہت سوں کی رائے میں مَحَلِ نظر ہو،لیکن اس پر غور کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،اسے قبول کرنا یا رد کرنا ہر ایک کے اختیار میں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved