اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا ظاہر و باطن واشگاف نہ ہو جائے ع
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر؟
جب کوئی دانشور یہ کہتا ہے کہ نوازشریف کا اقتدار تمام نہیں ہو سکتا‘ شریف خاندان کا احتساب ممکن ہی نہیں تو میں حیران رہ جاتا ہوں۔ تاریخ کی لوح پر کچھ اور لکھا ہے۔ اس ملک میں کبھی کوئی حکمران دس گیارہ سال سے زیادہ ٹکا ہی نہیں۔ کیا نوازشریف ایک استثنیٰ ہیں؟
اخبار نویسوں میں وہ ہیں جو نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہیں ان کا طرزِعمل قابل فہم ہے۔ آقائے ولی نعمت ڈوب گئے تو وہ بھی ڈوب جائیں گے۔ دوسری عالمگیر جنگ ختم ہوئے ایک عشرہ گزر چکا تھا کہ مشرق بعید کے ایک جنگل میں چار جاپانی سپاہیوں کا سراغ ملا‘ جو چھپ کر جی رہے تھے۔ وہ اس دن کے انتظار میں تھے کہ جاپانی افواج کے دستوں کو ڈھونڈ نکالیں۔ ان کے لیے جنگ ابھی جاری تھی۔ انہیں یقین تھا کہ جاپانی سپاہ سپرانداز نہیں ہو سکتی۔ کچھ دوسرے ہیں جو مایوسی کا شکار ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ شاہی خاندان کے باب میں عوامی بیزاری بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کا سیاسی اندوختہ تمام ہو چکا۔ بار بار دہرائے گئے ان کے پیمان سنتے‘ ان کے نعروں سے دل بہلاتے‘ ان کی شکلیں دیکھتے‘ خلق خدا کی آنکھیں پتھرانے لگی ہیں۔ لوگوں کو حکمران سے محبت نہیں ہوا کرتی۔
زمانہ بدل چکا۔ عسکری قیادت ہمیشہ ایک فریق تھی۔ سول حکمرانوں کی اخلاقی اساس ختم ہو جانے کے بعد اس کا کردار اور بھی بڑھ چکا۔ شمالی کوریا اور تائیوان کی طرح پاکستان ایک مختلف ملک ہے۔ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی بقا ہے۔ حکمرانوں کے بارے میں گمان اگر یہ ہو کہ قومی سلامتی کی انہیں کوئی پروا نہیں تو فوج کے ساتھ ان کے مراسم کبھی خوشگوار نہیں رہ سکتے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ملک کو اب آزاد اخبارات اور نجی چینل میسر ہیں۔ کئی اعتبار سے آزاد عدالتوں کے علاوہ سوشل میڈیا بھی۔ اس نئے جہان میں کوئی چیز اب تادیرپوشیدہ نہیں رہتی۔ ہر موضوع پر ایک نہ ختم ہونے والی بحث جاری رہتی ہے تاآنکہ تمام پہلو روشن ہو جائیں۔ عدالتی کمیشن بنانے کی سرکاری درخواست پر عدالت عظمیٰ کے جواب سے نوازشریف کے حامیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں تھیں مگر نہیں کھلیں۔ ہیجان جب طاری ہو جائے اور ذاتی مفاد جب اندھا کر دے تو عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے۔
صرف یہ اپوزیشن کا مؤقف نہ تھا کہ عدالت عظمیٰ کے دائرہ کار کا تعین وزیراعظم نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا نقطہ نظر بھی یہی تھا۔ ایک مقدمے کے انداز اور طریق کار کا فیصلہ کوئی فریق نہیں کیا کرتا۔ خاص طور پہ اس وقت جب اس پر سنگین الزامات ہوں۔ سرکاری لیڈر اور سرکاری دانشور مذاق اڑاتے اور پھبتیاں کستے رہے۔ اوّل تو عدالت عظمیٰ کو وہ یہ حق دینے پر تیار ہی نہ تھے۔ اپنی پسند کے کسی سبکدوش جج پر مشتمل کمیشن قائم کرنے کے آرزو مند تھے۔ ایک کے بعد دوسرے دروازے پر وہ دستک دیتے رہے۔ اپنی پسند کا قاضی ڈھونڈتے رہے۔ ایک عدد ڈھونڈ نکالا تو انکشاف ہوا ان کی اہلیہ محترمہ نون لیگ میں سرگرم ہیں۔ دریں اثنا عوامی دبائو کے تحت پیپلزپارٹی وزیراعظم کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ زرداری صاحب نوازشریف سے ناراض ہیں۔ پاناما لیکس سامنے آنے کے بعد اس امید کے ساتھ وہ لندن گئے کہ دوسرے حربے اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ناراض حلیف
کومنانے کی کوشش کریں۔ اسی چرچل ہوٹل میں انہوں نے قیام کیا‘ زرداری صاحب جہاں قیام فرما تھے۔ سن گن پا کر زرداری صاحب وہاں سے کھسک گئے۔ کیوں نہ وہ بھاگ نکلتے؟ ملاقات کے وہ متحمل ہی نہ تھے۔ بات اگر نکل جاتی تو پیپلزپارٹی کا جنازہ نکل جاتا۔ آزاد کشمیر کے الیکشن میں زرداری پارٹی کا صفایا ہو جاتا۔ پنجاب اور کراچی میں بھی‘جہاں پہلے ہی وہ دھوپ میں رکھی برف کی طرح تحلیل ہو رہی ہے‘ اس کا وجودیکسر تحلیل ہونے لگتا۔
مرنے اور مٹنے والے گروہوں کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ سامنے کی اجاگر حقیقت بھی ان پر نہیں کھلتی ۔ دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی پڑھ نہیں سکتے۔ سپریم کورٹ نے اپوزیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مؤقف کی تائید کردی ہے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی اب جس پر صادکیا ہے۔
1983ء میں قائم کی گئی عمران خان کی سمندر پار کمپنی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد شریف خاندان اور اس کے حواریوں کو امید کی ایک اور کرن دکھائی دی ہے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔ کپتان کو وہ سمندر پار کمپنیوں کا باوا آدم قرار دے رہے ہیں۔ زبیر عمر نے آوازہ کسا: ''دوسروں کو نصیحت‘ خود میاں فضیحت‘‘۔ سیالکوٹ کے سوہنے منڈے خواجہ آصف نے اس سے بھی زیادہ خوب جملہ چست کیا۔ عمران خان نے لندن میں فلیٹ بیچا تھا کہ بکنگھم پیلس۔ اتنے روپے ان کے پاس کہاں سے آگئے۔ اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ یہ الگ بات کہ اس طرح کے حربوں سے وقتی طور پر ہی معاملے کو الجھایا جا سکتا ہے‘ سچائی کو ڈھانپا نہیں جا سکتا۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک خاص مقصد کے لیے بنائی گئی کمپنی تھی۔ ایک مکان کی خریداری میں زائد ٹیکس سے بچنے کے لیے 1983ء میں قائم ہوئی اور 2003ء میں سمیٹ دی گئی۔ سمندر پار کمپنی بنانا کوئی جرم ہے اور نہ جائیداد کی خریداری‘ خاص طور پر اس وقت جب کوئی بیرون ملک مقیم ہو۔ وزیراعظم کے سب سے زیادہ پسندیدہ ٹی وی میزبان کا ایک فلیٹ واشنگٹن میں ہے اور کہا جاتا ہے دوسرا لندن میں۔ دس کروڑ روپے مالیت کے واشنگٹن والے فلیٹ پر 2013ء میں ایف بی آر نے انہیں ایک کروڑ روپے ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس جاری کیا تھا۔ وہیں کا وہیں رکھا ہے کہ اس کے بعد میاں نوازشریف وزیراعظم ہوگئے۔ نوازشریف کا حامی میڈیا گروپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کپتان کے خلاف خبریں چھاپ رہا ہے، جس کے سربراہ کی اپنی ایک عدد سمندرپار کمپنی ہے۔ اپنے اس مہان ٹی وی میزبان کے کارنامے کو اس نے ہوا لگنے نہیں دی۔ وہ ایک مقدس ہستی ہے۔
فرض کیجئے‘ عمران خان کا مؤقف غلط ہے۔ فرض کیجئے وہ قصوروار ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف خاندان کا کارنامہ قابل معافی ہے۔ محترمہ مریم نواز کے اس ارشاد کا کیا ہوگا کہ ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد ہے اور نہ پاکستان میں۔ ان کے شوہر نامدار نے اپنے اثاثوں میں سمندرپار کمپنی کا ذکر تک کیوں نہ کیا؟ ایک ہی خاندان کے مختلف افراد جائیداد کی خریداری کا زمانہ مختلف کیوں بتاتے ہیں؟ کیا قانون اس واضح سقم کو نظرانداز کر دے گا؟ وزیراعظم صاحب نے اپنے گوشواروں میں کبھی لندن کی جائیداد کا ذکر کیوں نہ کیا؟
دوسرے تو کیا تین دن تک شہبازشریف اور ان کے فرزند بھی اس مقدمے کا دفاع کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ چھن چھن کر جو خبریں خاندان سے باہر نکل رہی ہیں‘ وہ چونکا دینے والی ہیں۔ شہبازشریف کے ایک فرزند کا کہنا ہے کہ مے فیئر کے فلیٹس مشترکہ ملکیت تھے۔ بڑے بھائی نے ان پر قبضہ جما لیا تو جواب دہی انہی کو کرنا ہوگی۔ عسکری قیادت کے ساتھ رابطوں کے ہنگام شہبازشریف کا مؤقف ایک ہے اور جناب نوازشریف کا بالکل دوسرا۔
عمران خان نے دو بڑی غلطیاں کیں۔ اوّل یہ کہ سب سے پہلے انہیں خود ہی اپنی مرحوم کمپنی کے بارے میں بتا دینا چاہئے تھا۔ وہ مگر حد سے زیادہ اعتماد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مشیر ان کے ناقص ہیں‘ ذاتی دوست سادہ لوح ۔ ثانیاً پاناما پیپرز کا معاملہ الم نشرح ہوا تو عمران خان ڈھنگ سے اپنا مؤقف پیش نہ کر سکے۔فرض کیجئے عمران خان قصور وار ہیں‘ علیم خان اور جہانگیر ترین بھی۔ پاکستانی عوام کی بلا سے۔ قانون ان سب کے خلاف بروئے کار آئے۔ اس جواز پر نوازشریف خاندان کو قانون سے بالاقرار نہیں دیا جا سکتا۔
آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں وقت کو اپنا فیصلہ صادر کرنا ہے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا ظاہر و باطن واشگاف نہ ہو جائے ع
ریگِ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر؟