کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ عمران خان، آصف علی زرداری اور نواز شریف کی آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک موجود جائدادوں کی چھان بین کیلئے ماہ رمضان کے مقدس مہینے کو منتخب کرتے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات کا با قاعدہ آغاز کر دیا جائے؟ تحقیقاتی کمشن کو 27 رمضان المبارک تک تحقیقات مکمل کرنے کا پابند کرتے ہوئے‘ قصور وار ثابت ہو نے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے ''یہ چور وہ چور تم چور سب چور‘‘ کے ڈرامے کی بجائے ملک کو لوٹنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا فرض اولین سمجھ لیا جائے۔ جو اس ملک کا نہیں وہ اس ملک میں بسنے والوں کی نظر میں کسی طور بھی رو رعائت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ اس طرح کے ننگ دین ننگِ قوم اور ننگِ وطن افرادقابل نفرت بنا کر رکھ دینے چاہئیں کیونکہ کرپشن کا اژدہا اب سب کو نگلنا شروع ہو گیا ہے ۔ تیرہ مئی کی سہ پہر ایک ٹی وی چینل کی سکرین پر بڑی بڑی سرخیاں دھاڑ رہی تھیں کہ لاہور کے آزادی فلائی اوور کیلئے خریدی جانے والی زمین پر سوا تین ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔یہ کرپشن کس نے کی اس پر مزید کچھ لکھنا نہیں چاہتا لیکن تین ارب پچیس کروڑ روپے کوئی چھوٹی رقم نہیں ہوتی اس لئے اگر یہ خبر سچ ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی عام شخص کی جیب سوا تین ارب روپے کا اتنا بوجھ برداشت کر سکے۔ ظاہر ہے کہ مال مسروقہ کے کچھ حصے ہوئے ہوں گے اور نہ جانے کون لوگ ہیں جن کے گھر اس لوٹ مار کے ذریعے نوٹوں اور سونے سے بھر گئے ہوں گے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ گریڈ سترہ یا اس سے کم کے لوگ یہ مال متاع ہضم کر گئے ہوں۔ اس کیلئے بلوچستان کے صوبائی سیکرٹری خزانہ کی طرح لازماََ پنجاب کے بھی کسی گریڈ بیس اکیس کے متعلقہ عہدیدار وںکے گھر70 کروڑ تک تو لازماً پہنچائے گئے ہوں گے؟۔
قومی خزانے کو چاہے بلوچستان میں لوٹا جا رہا ہو یا کے پی کے میں‘ سندھ میں نوچا جا رہا ہو یا پنجاب میں‘ یہ سب پاکستانیوں کا پیسہ ہے۔ قومی دولت لوٹنے والوں کیلئے ایف آئی اے، نیب یا کوئی اور ادارہ کوئٹہ کی طرح کسی حکم خاص سے ہی حرکت میں آئے تو آئے؛ ورنہ سب جانتے ہیں کہ یہ سب ادارے لوٹنے والوں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطا بق پاکستان میں چھوٹے گوشت کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کی سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ پاکستان سے روزانہ بکروں کے چار سے پانچ بڑے ٹرک افغانستان سمگل ہورہے ہیں ۔ یہ ٹرک کسٹم سمیت قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کی ملی بھگت کے بغیرکسی طور نہیں جا سکتے۔ کرپشن کے نا سور کی میجر سرجری کرنے کیلئے ضروری ہو چکا ہے کہ جس طرح دہشت گردوں کے مقدمات کی سماعت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی گئی ہیں اسی طرح اب پانچ کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن دہشت گردی کرنے والوں کے خلاف چاہے وہ نواز شریف ہوں یا عمران خان، آصف زرداری ہوں یا اسفند یار ولی خان، مولانا فضل الرحمان ہوں یا چوہدری برادران ، محمود خان اچکزئی ہو یا الطاف حسین غرض کوئی بھی ہو ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلا ئے جائیں اور مجرم ثابت ہونے والوں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ اگر فوجی عدالت سے متعلق لوگ جانبداری کا مظاہرہ کریں توکسی کا لحاظ کئے بغیر ایسے اہلکار کو ملک دشمن قرار دے کر اس کا کورٹ مارشل کرتے ہوئے سب کے سامنے گولی سے اڑا دیا جائے۔
پاناما لیکس کے ذریعے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خاندان کی لندن میں خریدی جانے والی جائدادوں کے بارے میں حقائق جیسے ہی سامنے آئے ‘ چاروں جانب ہنگامہ سا برپا ہو گیا لیکن بجائے اس کے اسے ایک سنجیدہ طریقے سے لیا جاتا حکومت اور اپوزیشن دونوں نے پوائنٹ سکورنگ شروع کر دی ؛ چونکہ حکومت کی طاقت اور دوسرے پر کشش وسائل سب سے زیا دہ ہوتے ہیں ا سلئے اس نے چاروں جانب شکوک و شبہات کے دبیز پردے ڈالنے شروع کر دیئے اور پاناما لیکس میں سامنے آنے والی بد دیانتی کو کسی گہری کھائی کی نذر کرنے کیلئے اس کے ارد گرد اندھے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے۔ پھر سب نے دیکھا کہ رنگین ڈبے کی مہربانیوں سے ان سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی گرد نے سب کچھ اوجھل کر کے رکھ دیا اور یہ سب کچھ اس حکمرانوں کی جانب سے کیا جا رہا ہے جنہوں نے اﷲ کو حاضر و ناظر جان کر یہ قسم اٹھائی ہوئی ہے کہ ہم صادق اور امین رہیں گے اس ملک کی ایک ایک پائی اور اس کے وقار کو اپنے ذاتی مفاد کی نذر نہیں کریں گے لیکن جو کچھ ایک ماہ سے دیکھا اور سنا جا رہا ہے اس سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ ہمارے ملک کے حکمران اور سیا ستدان میڈیا کے ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے سب چور چور کی گردان کرتے ہوئے اس قدر گرد اڑا نا شروع ہو گئے ہیں کہ پانامالیکس کی صورت میں سامنے آنے والے خوفناک حقائق اس گرد و غبار میں نہ جانے کہاں دب گئے ہیں اور اس کی جگہ گالی گلوچ کا طوفان برپا ہو چکا ہے ۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نواز یہ بہانہ بنا کر پاناما لیکس کو اُلجھانے میں مصروف ہے کہ عمران خان کی بھی آف شور کمپنی ہے۔جناب والا اگر عمران خان کی آف شور کمپنی ہے تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے ساتھ باقی سب کا کیا دھرا معاف؟۔ یہ کیا منطق ہوئی عمران خان سمیت اس ملک کے ہر اس شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا جس نے اس ملک کی ایک پائی بھی لوٹی ہے۔ 1983 ء میں اگر عمران خان کی آف شور کمپنی نے لندن میں کوئی فلیٹ خریدا ہے تو اس کی تحقیق ہونی چاہئے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا اگر عمران خان اس پیسے کے ذرائع جائز ثابت کردیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ان کے خلاف بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ اسی طرح یہ تحقیقات بھی ہونی چاہیے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خاندان کے نام پر قائم کی جانے والی آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے جانے والے مے فیئر کے فلیٹس کی قیمت کی ادائیگی کس طرح کی گئی‘ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟۔ کب آیا اور کن ذرائع سے آیا۔۔۔۔ان سوالوں کی تحقیق اور تفتیش کرتے ہوئے سچ سامنے لانا ہو گا۔ اگر وزیر اعظم کا خاندان قصور وار نکلتا ہے تو ان کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج دینے چاہئیں تاکہ فوری انصاف ہو سکے۔اب وقت آ چکا ہے کہ میاں نواز شریف ہوں یا عمران خان ، آصف زرداری ہوں یا شہباز شریف کسی کیلئے کوئی رعائت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ جو پاکستان کا نہیں اس کا ہمارے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں ہو سکتا‘ چاہے وہ کوئی بھی ہو؟۔کیونکہ لندن میں پاناما لیکس کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک جائداد کی قیمت برطانوی کرنسی میں45 ملین پائونڈ بتائی جا رہی ہے اس سے اندازہ کیجئے کہ اس خاندان کی ملکیت تین فلیٹس کی مجموعی قیمت کیا ہو گی؟۔
پاناما لیکس سامنے آنے پر مسلم لیگ نواز کے چھوٹے بڑے لیڈران اور ان کے ہمنوا ئوں کی برہمی سمجھ سے با لا تر ہے کیونکہ کل کو اگر کوئی شخص الفریڈ لندن پولیس اسٹیشن کے سامنے اورSans Burry ڈیپارٹمنٹل سٹور کی سڑک کے دوسری جانب کھڑی ایک دیو قامت بلڈنگ کی تصاویر لے آیا تو ان کا رد عمل کیا ہو گا؟ اس لئے انہیں ابھی سے ہی اپنے غصے پر قابو پانے کی مشق کرنا ہو گی کیونکہ دوسرے تیسرے درجے کے لیڈران کی جانب سے مخالفین کو گالیاں دینے والوں کا کچھ نہیں جائے گا کیونکہ دنیا اور آخرت میں پہاڑ تو اس پر گرے گا جس کی ملکیت ظاہر ہو گی ۔۔۔!