تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-05-2016

قسم ہے زمانے کی

قوانینِ قدرت میں کوئی استثنیٰ نہیں ۔ کسی کے لیے نہیں ۔ کبھی نہیں ۔
تحریکِ انصاف اقتدار حاصل کر سکتی تھی ، مگر اب نہیں کر سکتی ۔ فرض کیجیے ، فوری طور پر الیکشن کا اعلان ہو جائے تو ایک بھگدڑ اس میں مچے گی ۔ اس کے دھڑے آپس میں الجھیں گے۔ تباہ نہیں تو ایک دوسرے کوخراب و خستہ ضرور کردیں گے۔ موزوں اور معقول امیدواروں کا انتخاب مشکل ہوگا۔ پختون خوا الگ مگر پنجاب اور سندھ کی 80فیصد سے زیادہ نشستوں کے بارے میں فیصلہ کرنا مشکل ہوگا۔ معلومات جمع کرنے کا کوئی نظام ہی موجود نہیں تو یہ کیسے طے ہوگا کہ کس حلقے میں کس لیڈر کو میدان میں اتارا جائے ؟
2013ء کے الیکشن سے قبل دو سروے ہوئے ۔ ایک کے مطابق عمران خان کو 90نشستیں جیت لینی چاہئیں تھیں ۔ دوسرے سروے کے بعد ، جو ممتاز اور قابلِ اعتماد ماہرین کی نگرانی میں ہوا ، ٹیم کے سربراہ نے مجھ سے کہا: اگر وہ کچھ نہ کرے توبھی قومی اسمبلی کی 91سیٹوں پر کامیابی یقینی ہے ۔ اگر کچھ موزوں اقدامات کر ڈالے، مثلا ایک فعال مرکزی سیکرٹریٹ کا قیام، تیزی کے ساتھ جس میں اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو شایدمزید بیس پچیس سیٹیں جیت لی جائیں ۔ وہ تنگ نظر ، خود غرض اور بے وفا لوگوں میں گھرا تھا۔ انہوں نے ٹکٹ بیچے، روپیہ سمیٹا اور خوشامد کا ایک ناقابلِ تسخیر حصار اس کے گرد قائم کر دیا۔ ان کا سرغنہ اب بھی مرکزی دفتر میں موجود ہے ۔دو ماہ قبل ایک ملاقات میں کپتان نے کہا: رتی برابر مجھے اس پر اعتماد نہیں ۔ اس کے باوجود وہ وہاں کیسے براجمان ہے ؟ اس سوال کا جواب دیا جا سکتاہے لیکن تلخ ہے ۔ پھر کسی وقت اس پر بات ہوگی ۔ 
لاہور میں مرکزی سیکرٹریٹ کے قیام کا منصوبہ سبوتاژ ہو گیا۔ دفتر تو بنامگربے معنی ۔ حوالداروں کو جنرلوں کا کام سونپ دیا گیا ۔ انہی دنوں پہلا سروے کرنے والوں کے سربراہ سے ملاقات ہوئی۔ اپنی ذمہ داریوں کی نوعیت کے سبب وہ تفصیلات نہ بتا سکے۔ کہا:اب زیادہ سے زیادہ 30، 35 نشستیں ۔ میں دنگ رہ گیا۔ آخر کیوں؟ میں نے جاننا چاہا مگر وہ خاموش رہا۔ اللہ اسے برکت دے ۔ ذمہ داریاں الگ ، اپنے مزاج کے اعتبار سے بھی وہ ایسا تھا کہ اگر فیصلہ کرلے تو کوئی ترغیب، کوئی تحریص، کوئی دبائو او رکسی طرح کی التجا زبان کھولنے پر اسے آمادہ نہ کر سکتی تھی ۔ اب اس سوال کا جواب مجھے خود تلاش کرنا تھا۔ اپنی سی کوشش کی اور کپتان کو بتایا : اس نے اتفاق کیا او راطمینان دلاتا رہا۔میں نے سوچا،بالاخر یہ اس کا دردِ سر ہے ۔ کچھ نہ کچھ کرے گا ہی ۔پھر جو کچھ ہوا، وہ ناقابلِ یقین تھا۔ پارٹی کے عہدے خریدے گئے ۔یہ جیّد لیڈر ٹکٹیں فروخت کرتے رہے ۔ وہ مٹی کا مادھو بنا رہا ، ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم کی تصویر بنا رہا۔ 
پھر ایک اور ناقابلِ یقین واقعہ رونما ہوا۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد ضمنی الیکشن کا مرحلہ آیا تو اس نے بدترین لوگوں کو ٹکٹ دئیے ۔ 
میانوالی اور پشاور کی ان سیٹوں پر غیر معمولی برتری اسے حاصل تھی ، جہاں سے وہ خود ظفر مند رہا تھا۔ ایسے لوگوں کو اس نے چنا ، جن کے نام بھی اب کسی کویاد نہیں ۔ پشاور کا امیدوار توپاکستانی شہری بھی نہ تھا۔ الیکشن کے بعد پوچھا تو اس کا جواب یہ تھا: وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک نے اس کی سفارش کی تھی ۔ کپتان رنجیدہ تھا لیکن اس نے صبر کا مظاہرہ کیااور خٹک کے بارے میںکوئی منفی بات نہ کہی۔ میانوالی میں حماقت کا ذمہ دار کون تھا؟ ظاہر ہے کہ وہ خود۔ خون کے گھونٹ پی کر وہ خاموش ہو رہا۔سیکھنے سے مگر گریز ہی کیا۔ کوئی نظام وضع نہ کر سکا۔ آج بھی صورتِ حال وہی ہے ، تقریباً سو فیصد وہی ۔ ہر آدمی کے اندازِ فکر میں خامیاں ہوتی ہیں ۔ جس طرح کہ ہر آدمی بعض بیماریوں کا شکار ہوتاہے ۔ مریض کو کیاکرنا چاہئے ؟ پرہیز اورجہاں تک ممکن ہو بہترین معالج کا انتخاب۔ اگر کوئی عطائی سے علاج کرانے پر تلا رہے ؟ اگر ایک مریض پرہیز نہ کرنے کا فیصلہ ہی کرلے؟ بعض عطائی ڈاکٹروں سے زیادہ کامیاب کیوں ہوتے ہیں ؟ وہ ہنر رکھتے ہیں اور ایسا ہنر کہ ڈاکٹروں کو سکھایا ہی نہیں جاتا۔ 
ایک کنیز امیر المونین ہارون الرشید کے دربار میں لائی گئی۔ بتایا گیا کہ اس کی قیمت ایک لاکھ دینار ہے ۔ مسلم معاشرے کی بعض کنیزوں اور غلاموں کو ہنر سکھائے جاتے۔ مثلاً خوش نویسی ،موسیقی اور مصوری ۔پوچھا گیا: اس کے ہاتھ میں کون سا ہنر ہے کہ ایک لاکھ کے عوض خریدیں ۔ جواب ملا: امیر المومنین ہاتھ میں نہیں ، اس کے پائوں میں ہنر ہے ۔ کپتان کے گرد ایسے بہت سے لوگ جمع ہیں ، جن کے ہاتھ میں نہیں ، پائوں میں ہنر ہے ۔ برسوں ہم شاہ محمود کو روتے رہے ، ضمنی انتخابات میں جس نے کم از کم تین سیٹیں طشتری میں رکھ کر حریفوں کو پیش کر دیں ۔ ہمیشہ اسے ذاتی وفاداروں کی تلاش رہی ،خواہ وہ مقبول ہوں یا نا مقبول۔کارکن اور ووٹر اسے قبول کریں یا نہ کریں۔ چوہدری سرور بھی اب اسی راہ پر چل نکلے ہیں ۔ آدمی خواہ کتنے ہی ممتاز منصب پر فائز ہو ، فقط حوصلہ افزائی نہیں ، گاہے اس کی نگرانی بھی درکار ہوتی ہے ۔ یکسر کھلا چھوڑ دیا جائے تو اندر کا جانور جاگ اٹھتا ہے ۔ افراد اداروں کا بدل نہیں ہوتے اور سیاست میں تو قطعی نہیں۔
2013ء کا الیکشن سر پہ آپہنچاتو میاں محمد نواز شریف نے کیا کیا؟ نہایت تیزی کے ساتھ انہوں نے وہ اقدامات کیے جو فتح کے لیے ضروری تھے ۔ طلبہ میں عمران خان بہت مقبول تھے۔ پنجاب کے تعلیمی بجٹ سے چار ارب روپے نکال کر لیپ ٹاپ خریدے اور برق رفتاری سے بانٹے گئے۔ ہر اس امیدوار سے انہوں نے رابطہ کیا، جس کی فتح کے امکانات روشن تھے ۔ جنرل پرویز مشرف اور قاف لیگ سے دشمنی کے باوجود سرکاری پارٹی کا ایک پورا ریوڑ میاں صاحب نے خرید لیا ۔ ذاتی دوستوں ، پسند اور ناپسند کو بالائے طاق رکھ کر ۔ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کو مامور کیا کہ فوج سے رابطہ رکھیں تا کہ تلخی حد سے بڑھنے نہ پائے۔ ان کا ہدف اقتدار کا حصول تھااور اس کے لیے بعض ایسے لوگوں کو انہوں نے گوارا کیا، جنہیں وہ کچّا چبا جانے کے آرزومند تھے۔ 
وزیرِ اعظم اب ایسے جنگل میں گھر گئے ہیں ، جس میں راستہ تلاش کرنا سہل نہیں ۔ آدمی کو اپنے بعض اعمال کی جواب دہی اسی دنیا میں کرنا ہوتی ہے ۔ ان کی حکمتِ عملی ناقص ہے ۔ پرسوں کے خطاب میں انہوں نے ایک اور بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ 1973ء میں دبئی میں سٹیل مل کا اعتراف۔ اس وقت توسرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہی نہ کیا جاسکتا تھا۔ دوسرے تضادات اس کے علاوہ ہیں ۔ اندازہ ہے کہ تحقیقات کو وہ موخر کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ۔ 
کہنے والے کہتے ہیں کہ اب تین امکانات ہیں.... مارشل لا، خدا اس سے ملک کو محفوظ رکھے۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت اور نئے انتخابات ۔ نئے انتخابات کے لیے تحریکِ انصاف کو مہلت درکار ہے کہ صف بندی کرے ۔ یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
قسم ہے زمانے کی 
بے شک انسان خسارے میں ہے 
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے ا ور اچھے عمل کیے 
جنہوں نے سچائی اور صبر (کادامن تھامے رکھا) اور اس کی نصیحت کی۔ 
قوانینِ قدرت میں کوئی استثنیٰ نہیں ۔ کسی کے لیے نہیں ۔ کبھی نہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved