لاطینی امریکہ کے ملک وینزویلا میں گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی سے چلی آ رہی انقلاب اور رد انقلاب کی کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ بائیں بازو کی پارٹی PSUV (یونائیٹڈسوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا) سے تعلق رکھنے والے صدر نکولس مادورو نے ہفتہ 14 مئی کو بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وینزویلا کی معیشت کو سبوتاژ کرنے میں مصروف سامراجی کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں پر بڑا وار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں ان فیکٹریوں کو ضبط (نیشنلائز) کرنے اور ان کے مالکان کو جیل بھیجنے کی دھمکی دی ہے جنہوں نے اپنی پیداوار مختلف حیلے بہانوں سے بند کر رکھی ہے۔ دارالحکومت کاراکس میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''معاشی بحران سے نکلنے کے لئے ملک میں پیداواری صلاحیت کو بحال کرنا ہو گا‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ''ہمیں پیداواری صلاحیت حاصل کرنے کے لئے تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جسے سرمایہ داروں نے مفلوج کر رکھا ہے۔ جو بھی ملک کو نقصان پہچانے کے لئے پیداوار روکنا چاہتا ہے اسے لازمی باہر نکالا جائے گا اور ہتھکڑی پہنائی جائے گی اور ملک کی مرکزی جیل میں بھیج دیا جائے گا...ہم سامراج اور دائیں بازو کے بین الاقوامی طبقے کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہاں لوگ اپنے کھیتوں کے ساتھ حاضر ہیں اور اپنے وطن کے دفاع کے لئے ان کے ایک ہاتھ میں آلات اور دوسرے ہاتھ میں ہتھیار ہیں‘‘۔
اس سے ایک دن قبل انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔انہوں نے آئندہ ہفتے فوجی مشقیں شروع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ نکولس مادورو ، وینزویلا کے سامراج اور سرمایہ داری مخالف رہنما اور 1999ء سے 2013ء تک ملک کے صدر رہنے والے ہوگو شاویز کے نائب کی حیثیت سے ان کے انتقال کے بعد ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
ہوگو شاویز نے برسر اقتدار آنے کے بعد ''21ویں صدی کے سوشلزم‘‘ کا نعرہ بلند کر کے سامراجی لوٹ مار کو لگام دی تھی، تیل کی صنعت کو نیشنلائز کر کے اس کا منافع عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا آغاز کیا تھا، تعلیم، صحت اور رہائش کی سہولیات میں بہتری کے دیوہیکل منصوبے شروع کئے تھے اور عالمی سطح پر امریکی سامراج کی قتل و غارت گری اور لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اسرائیل کی صہیونی جارحیت کے خلاف ٹھوس اور جرات مندانہ موقف اختیار کرنے کی وجہ سے بھی انہیں دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں میں پذیرائی ملی تھی۔ اس تناظر میں PSUV کی حکومت کو روز اول سے ہی امریکی و ہسپانوی سامراج (وینزویلا سپین کی کالونی رہا ہے) دائیں بازو کی اپوزیشن اور دوسرے داخلی و بیرونی حربوں کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش میں مسلسل مصروف رہے ہیں۔
واضح رہے کہ وینزویلا تیل برآمد کرنے والا نواں بڑا ملک ہے اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے باعث اس کی معیشت کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت وینزویلا میں افراط زر انتہائی بلند سطح 180 فیصد کو چھو رہا ہے جس کی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ داروں اور سامراجی کمپنیوں کی جانب سے زخیرہ اندوزی اور پیداوار میں خلل ڈالنے کا عمل بھی ہے۔اس صورتحال میں بجلی کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے اور سرکاری دفاتر میں کام کا دورانیہ ہفتہ وار پانچ کی بجائے دو دن کر دیا گیا ہے۔
وینزویلا میں انقلاب اور رد انقلاب کی یہ کشمکش 1999ء میں ہوگو شاویز کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ہی مختلف شکلوں میں جاری ہے۔ شاویز جب پہلی بار الیکشن جیتا تھا وہ خود کو ''ریڈیکل ڈیموکریٹ‘‘ کہلانا پسند کرتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ہی کرپشن کے خاتمے اور عوام کے حق میں اصلاحات کی کوشش کی۔ اسے جلد ہی اندازہ ہونے لگا کہ سرمایہ داری کو ''جائز‘‘ طریقے سے چلانے کے راستے میں سب بڑی رکاوٹ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور مقامی سرمایہ دار خود تھے جن کے منافعوں کے لئے بدعنوانی، جبر و استحصال اور لوٹ مار لازمی شرائط ہیں۔ تاہم اس وقت شاویز کے سطحی اقدامات بھی ان کے مفادات پر ضرب لگا رہے تھے چنانچہ امریکی سامراج نے کچھ فوجی جرنیلوں کے ذریعے اپریل 2002ء میں ایک 'کُو‘ کے ذریعے اس کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ لیکن اقتدار کے اس قلیل عرصے میں بھی شاویز کی مقبولیت محنت کشوں اور غریب عوام میں بہت بڑھ چکی تھی۔ عوام اس سازش کو مسترد کرتے ہوئے مشتعل ہو کر لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، فوج کے جونیئر افسران اور سپاہیوں کی ہمدردیاں بھی شاویز کے ساتھ تھیں، چنانچہ اس تحریک کے ذریعے امریکی سامراج اور سرمایہ داروں کے کٹھ پتلی جرنیلوں کو گرفتار کر لیا گیا اور 72 گھنٹوں میں ہی شاویز واپس اقتدار میں آچکا تھا۔
یہاں سے انقلاب کے ایک نئے ریلے کا ابھار ہوا۔ شاویز نے ''21ویں صدی کا سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا، بڑے پیمانے پر نیشنلائزیشن کی اور عوام دوست معاشی و سماجی اقدامات کا آغاز کیا۔ خارجی سطح پر اس نے ہر فورم پر سامراجی جبر و استعمار کے خلاف آواز بلند کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جارج ڈبلیو بش کو شیطان تک قرار دیا۔
وینزویلا میں اس انقلابی تحریک نے پورے لاطینی امریکہ پر اثرات مرتب کئے اور سیاست کا جھکائو بائیں بازو کی طرف ہوتا چلا گیا۔ ایک کے بعد دوسرے ملک میں خود کو سوشلسٹ کہنے قرار دینے والے برسر اقتدار آنے لگے۔ ان میں سب سے جرات مند اور ریڈیکل بولیویا کے صدر ایوومورالس اور ایکواڈور کے صدر رافیل کورایا ثابت ہوئے۔ بہت سے دوسرے اقدامات کے علاوہ ایوو مورالس نے بجلی پیدا کرنے والے نجی شعبے کو نیشنلائز کر کے بجلی کے ریٹ نصف اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کیا جبکہ رافیل کورایا نے سامراجی قرضوں کے سود در سود کے استحصالی گھن چکر کو چیلنج کیا۔
شاویز حکومت نے کیوبا کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات استوار کئے، انتہائی سستے داموں کیوبا کو تیل کی فراہمی کے بدلے وہاں سے 25 ہزار ڈاکٹر وینزویلا منگوا کر ہر شہری کو بہتر علاج کی فراہمی یقینی بنائی۔ شاویز کو قتل کرنے کی کئی کوششیں بھی کی گئیں۔ پھر اچانک وہ کینسر کی بیماری کا شکار ہو گئے اور 2012ء میں 58 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔ نکولس مادورو کے مطابق سامراجیوں نے خاص قسم کے زہر کے ذریعے شاویز کو کینسر میں مبتلا کیا تھا۔
مسئلہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے سے جاری انقلابی تحریک یا صورتحال کے باوجود وینزویلا کا انقلاب ادھورا ہے اور آج بھی دو راہے پر کھڑا ہے۔ وہاں سرمایہ داری کے خلاف اقدامات تو کئے گئے ہیں لیکن اس کا یکسر خاتمہ نہیں کیا گیا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ PSUV کوئی 'مارکسسٹ لینن اسٹ‘ پارٹی ہے نہ ہی سوشلسٹ انقلاب کو آخری مرحلے تک مکمل کرنے کا نظریاتی ادراک شاویز کے پاس تھا۔ سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست کا یکسر خاتمہ نہ ہونے کی وجہ سے انقلاب مسلسل عروج و زوال کا شکار رہا ہے۔ عوام نے 7 مرتبہ شاویز اور PSUV کو مختلف قسم کے انتخابات میں فتح مند کیا لیکن پارٹی قیادت کے زیادہ تر مشیر اور پالیسی ساز خود کو ''سوشلسٹ‘‘ قرار دینے کے باوجود زیادہ سے زیادہ بائیں بازو کے اصلاح پسند ہیں۔ وینزویلا کی مثال ثابت کرتی ہے کہ تیل کی وسیع دولت کے باوجود بھی سرمایہ دارانہ نظام میں مستقل اور پیہم بنیادوں پر مراعات عوام کو نہیں دی جاسکتی۔ اب جبکہ تیل کی قیمتیں گراوٹ کا شکار ہیں تو صورتحال ابتر ہو چکی ہے۔
شاویز کا جانشین اور موجودہ صدر نکولس مادورو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک بس ڈرائیور تھا لیکن اس کی پالیسی بھی سرمایہ داری میں ہی اصلاحات تک محدود رہی ہے۔ وہ ایک ایسے وقت میں اقتدار میں آیا ہے جب سرمایہ داری عالمی سطح پر شدید بحران سے دوچار ہے۔ PSUV کو 2015ء کے پارلیمانی انتخابات میں پہلے ہی شکست ہو چکی ہے اور اب سامراج اور سرمایہ داروں کی گماشتہ اپوزیشن اسے صدارت سے بھی فارغ کرنا چاہتی ہے۔
مادورو کے حالیہ ہنگامی اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ سرمایہ داری کو اصلاحات کے ذریعے ''ٹھیک‘‘ نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک سرمایہ داری موجود ہے سرمایہ دار موقع ملنے پر پلٹ کر وار کریں گے۔ مادورو نے بند فیکٹریوں کو نیشنلائز کرنے کا جو عندیہ دیا ہے اس کو پوری معیشت تک پھیلائے بغیر انقلاب مکمل نہیںہو سکتا۔ بصورت دیگر رد انقلاب آئے گا اور اب تک جو مراعات بھی عوام کو حاصل ہوئی ہیں نہ صرف انہیں چھینے گا بلکہ جبر و استحصال اور وحشت کی انتہا کر دے گا۔انقلاب کی طرح اس رد انقلاب کے اثرات بھی پورے لاطینی امریکہ اور دنیا پر مرتب ہوں گے۔ شاید PSUV کی قیادت اور مادورو کے لئے یہ آخری موقع ہے کہ وہ سوشلسٹ انقلاب کو مکمل کر کے تاریخ میں سرخرو ہو سکیں۔