تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-05-2016

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی جانب سے احتساب آرڈیننس 1999ء میں ترمیم کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ بل قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے طور پر اس آرڈیننس میں ترامیم کے مسودے تیار کر لیے ہیں جو کسی بھی وقت قومی اسمبلی میں پیش کر دیے جائیںگے۔ پی پی پی اور تحریک انصاف کی مجوزہ ترامیم کے بارے میں اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ 'ملا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور‘۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے تیار کی گئی ترامیم کا جو مسودہ میرے سامنے آیا اسے پڑھنے کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ پاناما لیکس پر پیپلز پارٹی اپنا ہی کھیل کھیل رہی ہے۔ وہ کسی طور بھی نہیں چاہے گی کہ احتساب کے عمل کو مضبوط اور منظم کیا جاسکے۔
پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی مجوزہ ترامیم تجویزکو سامنے رکھیں تو دونوں کی نیتوں کو سمجھنے اور پرکھنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تحریک انصاف احتساب آرڈیننس کو پہلے سے زیادہ موثر اور مضبوط بنانا چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی تیارکردہ ترامیم کا مسودہ دیکھیں توکوئی شک نہیں رہتا کہ وہ اس آرڈیننس کو پہلے سے بھی محدود اور ڈھیلی ڈھالی شکل دینا چاہتی ہے۔ حیران کن طور پر اس مسودہ میں پی پی پی کی جانب سے زور دیا گیا ہے کہ نیب کو صرف مرکز تک محدود رکھا جائے، اسے صوبوں میں مداخلت کا حق نہ ہوکیونکہ صوبوں کا انٹی کرپشن کے خلاف اپنا ایک الگ محکمہ پہلے سے موجود ہے۔ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی خواہش یہ ہے کہ ملک کو کئی دہائیوں سے دیمک کی طرح چاٹتی ہوئی کرپشن کے خلاف اس وقت جو لولا لنگڑا احتساب جاری ہے اسے بھی کمزور اور بے معنی کر دیا جائے تاکہ 'سنجیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزے یار پھرے‘۔ پی پی پی کے مسودے میں صوبوںکو احتساب کے اختیارات سونپنے کی تجویز رکھی گئی ہے۔ صوبوں میں انٹی کرپشن کا جو نظام اب تک رائج ہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں، حکومتی کرپشن کو تحفظ اور مخالفین کو رگڑا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے حال ہی میں تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی سبطین خان کو بلیک میل کرنے کے لئے انٹی کرپشن والوں نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے کہنے پر ان کے خلاف دس سال پرانی فائل کو رنگ روغن کرتے ہوئے مقدمہ گھڑ لیا ہے۔ 
پی پی پی کے مقابلے میں تحریک انصاف کے تیار کئے گئے مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ چیئر مین نیب کو با قاعدہ منتخب کیا جائے۔ پلی بارگین کی سہولت سے متعلق شق کو مکمل طور پر احتساب آرڈیننس سے خارج کر دیا جائے۔ چیئر مین نیب کو حاصل وہ خصوصی اختیار مکمل طور پر ختم کر دیا جائے جس سے وہ کسی کو بھی معاف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کی تیار کردہ ترامیم کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک عام سوچ کا آدمی بھی اندازہ کر سکتا ہے کہ کون کیا چاہتا ہے۔کہیں ایسا تو نہیںکہ پیپلز پارٹی پاناما لیکس کی آڑ میں مسلم لیگ نواز پر دبائو رکھتے ہوئے دورن خانہ اپنی ترامیم کی منظوری کا کوئی کھیل کھیل رہی ہے؟ ایک ایسے وقت میں جب پاناما لیکس کی شکل میں ملک کی لوٹی جانے والی بہت بڑی رقوم کے ثبوت سامنے آچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی جانب سے اس قسم کی ترامیم کی تیاری خطرے کی گھنٹی محسوس ہوتی ہے، اس لئے کہ اگر نواز لیگ، ایم کیو ایم، نیپ اور مولانا فضل الرحمان کی مدد سے پی پی پی کی یہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو''پاناما لیکس‘‘ کی فہرست میں شامل لوگوں کے گھروں میں خوشی کے شادیانے بجنے شروع ہو جائیںگے۔
نذیر ناجی صاحب کا تیرہ مئی کو لکھا جانے والا کالم انہی خدشات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ کالم پڑھ کر یقین ہوگیا کہ عمران خان کو ایسی بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے پیپلز پارٹی، ایم کیوایم اور مسلم لیگ ق کے ذریعے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی اندرون خانہ کی جانے والی کوششیں بظاہر کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ 'میرا سلطان‘ جس طرح ابلاغ عامہ کا 90 فیصد سے زائد حصہ ہتھیانے میں کامیاب ہو چکا ہے، کیا وہ اسی طرح تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مشترکہ کارٹل کے ہاتھوں پا بجولاں کرنے میں کامیاب رہے گا؟ ابھی محترم نذیر ناجی کے کالم کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی پریس کانفرنس سامنے آ گئی جس میں انہوں نے وزیر اعظم کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب وزیر اعظم تقریر کریںگے تو اپوزیشن کی جانب سے ایک لفظ بھی نہیں بولا جائے گا، وزیر اعظم کے اس خطاب کو اسی طرح عقیدت و احترام سے سنا جائے گا۔ چنانچہ گزشتہ روز ایسا ہی ہوا۔ وزیر اعظم کی تقریر کے دوران گو نواز گو یا اس قسم کا کوئی نعرہ ایوان میں نہیں لگایا گیا۔ خورشید شاہ نے حکومت کو یہ یقین دہانی بھی کرادی تھی کہ وہ عمران خان کے رائے ونڈ میں دھرنے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے یہ فرمائش بھی کی تھی کہ وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں ہونے والی تقریر کو براہ راست نشر کیا جائے۔ 
ابھی اپوزیشن لیڈر کی پریس کانفرنس مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ وزیر اعظم ہائوس کی بے صبری اور خوشی سے بے قابو ہونے کے عمل نے پس پردہ تیار کی جانے والی اس سازش کا بھانڈا اس طرح بیچ چوراہے پھوڑ دیا کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید کے نام سے بیان جاری کر دیا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قومی اسمبلی میں کی جانے والی یہ تقریر براہ راست نشر ہو گی اور اس کے بعد ایوان میں دونوں جانب موجود ان ارکان کو خطاب کرنے کی اجازت ہو گی جنہیں سپیکر ایاز صادق اجا زت دیں گے۔ 
جب جھوٹ اور سازش نے بے نقاب ہونا ہو تو اﷲ کی جانب سے غلطیاں کرا دی جاتی ہیں جو بظاہر تو بہت معمولی اور چھوٹی چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن اگر ان پر غور کیا جائے تو حقیقت اس طرح کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ وزیر اعظم ہائوس میں قائم کیا جانے والا بھاری بھرکم میڈیا ہائوس خورشید شاہ کی پریس کانفرنس پر بجائے اس کے کہ اگلے دن اپنا رد عمل دیتا، خود ہی مذکورہ اعلان کردیا۔ میاں نواز شریف کا قومی اسمبلی سے خطاب اور اپوزیشن کا رد عمل سامنے آچکا ہے۔ تحریک انصاف کو آئندہ کا لائحہ عمل بڑی احتیاط سے مرتب کرنا ہوگا اور اسے پیپلز پارٹی سے کھل کر بات کرنی ہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved