تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-05-2016

اتفاق؟

ہر بات مانی جا سکتی ہے۔ہر چیز کو اتفاق قرار دیاجا سکتا ہے۔جب نظامِ شمسی وجودمیں آیا تو بڑے ستاروں کی کئی نسلیں اپنی زندگی گزار کے فنا ہو چکی تھیں۔ اپنی زندگی کے اختتام پر ایک ستارہ بھاری عناصر ، جیسا کہ لوہا پیدا کرتاہے۔ نظامِ شمسی اور ہماری اپنی زمین میں کاربن(کوئلہ ، تیل ، گیس، ہیرے)، سونے اور لوہے سمیت جتنے بھی عناصر ہمارے زیرِ استعمال ہیں، وہ بڑے ستاروں کی زندگی اور موت کے مختلف مرحلوں میں وجود میں آئے ہیں ۔ یہی کاربن، آکسیجن اور لوہا جانداروں کے جسم میں بھی استعمال ہوئے ہیں ۔ کاربن تو پھر بھی یہاں زمین پر مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ یہ درختوں کی صورت میں اگتا ، زیرِ زمین دفن ہوتا اور کروڑوں برسو ں میں ایندھن کی مختلف اقسام میں بدلتاہے ۔ لوہے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ اس کے متعلق خدا صاف صاف کہتاہے : و انزلنا الحدید..... اور ہم نے لوہا نازل کیا۔ الحدید 25۔ لوہے سمیت کوئی بھی عنصر زمینوں کے اندر وجود نہیں پاتا۔ یہ سورجوں میں بنتا ہے ۔ وہاں انتہائی شدید درجۂ حرارت اور دبائو میں عناصر وجود میں آتے ہیں۔ ہماری اس زمین پر یہ لوہا نازل ہو اہے ۔ انسان کے علاوہ لوہے کے زمین پر نازل ہونے کا فائدہ اور کسی جاندار کو نہیں ۔ ہمی نے زمین کھود کر اسے نکالا۔ اس سے گاڑیاں ، ٹینک ، میزائل ، مختلف فائدہ مند اور نقصان دہ چیزیں بنائیں۔ فی الحال آپ اسے ایک اتفاق ہی سمجھیے ۔ زمین کی ابتدا میں اس پر لوہے کی بارش اور خدا کا اس بارش کا ذکر کرنا آپ ایک اتفاق سمجھ لیجیے۔ اسے بھی ایک خوشگوار اتفاق سمجھیے کہ زمین کے اند رپگھلے ہوئے لوہے سے مقناطیسی میدان بنے اور سورج کی تابکاری کے خلاف انہوں نے ایک ان دیکھا حصار قائم کیا۔ 
بڑے سورج جلدی اپنا ایندھن جلا تے ، جلدی فنا ہو جاتے ہیں ۔ ہمارا سورج مناسب حجم اور کمیت کا ہے ۔ اسے دس ارب سال کی طویل زندگی ملی ہے ۔ یہاں جاندار انواع کو پیداہونے، پھلنے پھولنے کا مناسب وقت ملا ہے ۔ فرض کیجیے کہ ہمارا سورج کل ایک کلو گرام کا ہے ۔ اگر یہ ڈیڑھ کلو کا ہوتا تو اس کی زندگی دس ارب سال کی بجائے صرف تین ارب سال رہ جاتی ۔ اتفاق یہ ہے کہ زمین کے ابتدائی اور آخری کچھ ارب سالوں میں یہ قابلِ رہائش نہیں ہوتی ۔مثلاً ہماری زمین پر پیچیدہ زندگی کو پیدا ہوئے ابھی صرف 80کروڑ سال ہوئے ہیں ۔ ہم انسانوں کو پیدا ہوئے ابھی دو لاکھ برس ہوئے ہیں ۔ فی الحال ہم سورج کی اس طویل زندگی کو ایک اتفاق سمجھ لیتے ہیں اور اس بات کو بھی کہ اگلے پانچ ارب سال تک یہ جوں کا توں رہے گا۔ اسے بھی ایک حسین اتفاق سمجھیے کہ ہمارا سورج تنہا تھا۔ بہت سے سورج دو اور بعض اوقات تین کی جوڑیوں میں پائے جاتے ہیں ۔ 
ظاہر ہے کہ پھر ہمیں زمین کے سورج سے مناسب فاصلے کو بھی اتفاق ماننا پڑے گا۔ ویسے بھی کائنا ت میں ایسے سیاروں کی بھرمار ہے، جو اپنے سورج سے مناسب فاصلے پر ہیں ۔ زمین پر پانی کی موجودگی بھی اتفاق ہے ۔ بہت سے سیاروں پرپانی برف کی صورت میں پایا جاتاہے ۔ یہاں ایک مناسب درجہ ٔ حرارت کی وجہ سے وہ مائع صورت میں موجود ہے ۔ زمین کے اتنے قریب ایک بڑے چاند کی موجودگی ، جو کرّئہ ارض کی زندگی پہ خوشگوار اثرات کاحامل ہے ، یہ بھی اتفاق ہو سکتاہے ۔ 
زمین اپنے محورکے گرد گھومتی ہے۔ ایک مناسب حرارت کی وجہ سے زمین پہ زندگی قائم و دائم ہے ۔ سیاروں کا اپنے محور کے گرد گھومنا ایک عام بات ہے۔ سوائے وہ جو کہ اپنے سورج کے بہت قریب ہوں۔ ہمارا چاند اور خود ہماری زمین، سورج سے کم و بیش دونوں کا فاصلہ ایک ہی جتنا ہے۔ اس کے باوجود چاند پر جہاں دن میں درجۂ حرارت مثبت 70ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے ، بعض اوقات وہیں رات کو یہ منفی 70تک گر جاتاہے ۔فی الحال ہم زمین کا اپنے محور کے گرد ایک خاص زاویے سے جھکے ہونے ، جس سے مثبت موسمیاتی اثرات جنم لیتے ہیں ، ان کو بھی اتفاق مان لیتے ہیں۔ زمین پہ گیسوں کا غلاف بھی نظر انداز کیا جا سکتاہے۔
یہ سب اتفاق بے کار ہوتے ، اگر زمین پر آکسیجن نہ ہوتی۔ ایک بیکٹیریا ہم انسانوں کی نظر میں بھلا کیا حیثیت رکھتاہے لیکن سوا دو ارب سال پہلے ، ایک حقیر بیکٹیریا نے ہی آکسیجن کی پیدائش کا یہ کارنامہ سر انجام دیا، آج ہم جسے آکسیجن کے انقلاب کا نام دیتے ہیں ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دوسری بہت سی چیزوں کی طرح ، یہ انقلاب بغیر کسی الٰہیاتی منصوبے کے ، اپنے آپ وجود میں آیا۔ 
سب سے اہم چیز کا ذکر کرنا میں بھول گیا۔ کائنات کو اس کی موجودہ شکل و صورت میں ڈھالنے والی قوت کا نام کششِ ثقل (Gravity) ہے ۔ اسی نے ہائیڈروجن کے بادل اکٹھے کر کے سورج (ستارے) سلگائے۔ اسی نے سیاروں (زمینوں) کو وجود دیا۔ اسی کے تحت ہم زمین پہ قدم اٹھاتے اور روزمرّہ کے امور سر انجام دیتے ہیں ۔ میں اسے بھی اتفاق سمجھ سکتا ہوں ۔ 
پانی کا چکر (Water cycle)، زمین کا بخارات بن کر اڑنا، بادل بن کر برسنا، زمین کے نیچے پانی کی موجودگی اور انسانی آبادیوں کا اس پہ منحصر ہونا یہ بھی اپنے آپ رونما ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہ کوئلے، لوہے اور تیل سمیت، جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی اور جن کے بغیر زندگی دشوار ہوتی، وہ زمین کے نیچے موجود تھے۔ زمین سے خوراک اور لباس (کپاس) کا اگنا بھی نظر انداز کیا جا سکتاہے اور مختلف جانداروں کا ایک دوسرے کے اوپر منحصر ہونا بھی ۔
ایک چیز اتفاق نہیں مانی جا سکتی۔ زمین کی تاریخ میں اس پر پانچ ارب مخلوقات آباد رہی اور ختم ہو گئیں ۔ آج بھی پچاس لاکھ مختلف قسم کے جاندار اس پر زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیا کوئی بتا سکتاہے کہ پانچ ارب اور پچاس لاکھ میں سے صرف او رصرف ایک انسان کیوں ذہین تھا اور باقی سب گھامڑ کیوں؟ اسے کیسے اتفاق مان لیا جائے کہ پانچ ارب مخلوقات صرف اور صرف اپنی زندگی کی بقا تک سمجھ بوجھ رکھتی ہوں اور انہی میں سے ایک جانور اس قدر عقل مند ہو جائے کہ کائنات پہ غوروفکر کرنے لگے۔ وہ ستاروں کے مرکز میں جھانکنے لگے۔ دوسرے سیاروں پہ اترنے اور کہکشائوں پہ غوروفکر کرنے لگے۔ وہ اس بات پر سوچنا شروع کر دے کہ زندگی ایک اتفاق ہے یا ایک سوچا سمجھا منصوبہ۔ انسانی عقل کا جائزہ لیجیے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ایک خاص مخلوق ہیں اور کچھ خاص امتحان (Traps)رکھ کر ہمیں آزمائش سے گزارا جا رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved