محلات میں رہنے اور جہازوں میں سفر کرنے والوں نے سفر کا آغاز کیسے کیا : نوازشریف
وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ''محلات میں رہنے اور ہوائی جہازوں میں سفر کرنے والے قوم کو آگاہ کریں کہ سفر کا آغاز کیسے کیا‘‘ جبکہ ہمارا سفر ماشاء اللہ بریف کیس سے شروع ہوا تھا جس کی مشکل کشائی میں ہرگز کوئی شبہ ہی نہیں ہے کہ اٹکے سے اٹکا اور پھنسے سے پھنسا ہوا کام بھی اس طلسمی چیز کے سامنے بے بس ہو جاتا تھا۔ خیر یہ تو آغاز کی بات ہے‘ کوئٹہ میں بھی بریف کیس ہی کام آئے تھے جہاں یہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا گھونٹ بھرنے کے لئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا ‘'' ہم چاہتے ہیں کہ بدعنوانی‘ اختیارات کے ناجائز استعمال‘ ٹیکس چوری‘ کک بیکس لینے‘ غیر قانونی طور پر پیسہ باہر بھیجنے اور اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والوں کی اصل کہانی بھی سامنے آئے‘‘ اگرچہ ہماری اصل کہانی تو شروع سے ہی سب کے سامنے ہے‘ البتہ جو قرضے ہم نے واپس کرنے تھے ان کے بارے میں عدلیہ نے حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے اس لیے متعلقہ بینکوں نے بھی صبر کا گھونٹ بھر رکھا ہے جبکہ صبر ویسے بھی بہت اچھی چیز ہے کیونکہ اللہ میاں بھی صابر و شاکر لوگوں کو پسند کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ پنجاب حکومت بھی ماشاء اللہ کافی عرصے تک سٹے آرڈر پر ہی چلتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سب کو ایک ہی ترازو میں تلنا ہو گا‘‘ اگرچہ ایسا ترازو ابھی تک ایجاد نہیں ہوا جو ہمارا بوجھ اٹھا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ''دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے‘‘ اگرچہ ہمارا تو خالص دودھ ہی ہے اور اتنی مقدار میں ہے کہ اس میں پانی ملانے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ انہوں نے کہا کہ ''حساب دے دیا‘ دوسرے بھی ایسا ہی کریں‘‘ بلکہ سات سوالوں کی جگہ میں نے 70 سوال پیدا کر کے اپوزیشن کے دانت ہی کھٹے کر دیئے ہیں‘ لیکن افسوس کہ مشکل کی گھڑی اور اس نازک موقع پر مولانا فضل الرحمن کہیں نظر نہیں آئے؛حالانکہ ان کی منہ مانگی خدمت کر دی گئی تھی جبکہ ان کا مطالبہ تھا کہ انہوں نے جو زرداری صاحب کو رام کیا ہے‘ اس کا معاوضہ الگ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارا دامن صاف ہے‘‘ جسے صابن سے رگڑ رگڑ کر اس قدر دھویا گیا ہے کہ اب دامن کی بجائے صرف صفائی باقی رہ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جس کا نام نہیں‘ اس پر فرد جرم عائد کر دی گئی‘‘ کیونکہ سارا معاملہ تو بچوں کا ہے اور بچے تو عقل کے کچے ہی ہوتے ہیں‘ اس لیے کسی کا بیان کچھ ہے تو کسی کا کچھ‘ حتیٰ کہ چوبیس گھنٹے قومی خدمت میں مصروف رہنے کی وجہ سے میرا حافظہ بھی کچھ زیادہ کام نہیں کرتا اور یادداشت کی
اس کمزوری کی وجہ سے مذکورہ فلیٹس کے بارے میں شاید میں بھی کچھ ادھر ادھر ہی کی ہانک گیا ہوں؛ حالانکہ یہ جب بھی خریدے گئے ہوں‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کا کہ ''میرے خاندان نے سیاست میں کمایا نہیں البتہ گنوایا ضرور ہے‘‘ اور یہ جو اثاثوں وغیرہ کا اتنا شور مچایا جا رہا ہے تو ہم اسے بھی ایک طرح کا نقصان ہی سمجھتے ہیں اور اگر ہماری مل کو قومیایا نہ جاتا تو اس نقصان کی قدرے تلافی ہو سکتی تھی اور جنرل ضیاء الحق مرحوم جنہیں خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے‘ اگرچہ اس کی اُمید نہ ہونے کے برابر ہے‘ 80 کروڑ روپے دے کر اور ہماری ملز واگزار کر کے کچھ اشک شوئی کرنے کی
کوشش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''ماضی میں ہم کڑے احتساب سے گزر چکے ہیں‘‘ اور جو آٹھ سال ہم نے سعودیہ میں شاہی مہمان کی حیثیت سے گزارے تھے‘ اس سے بڑا اور کڑا احتساب اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان سے ایک روپیہ بھی باہر نہیں بھیجا‘‘ کیونکہ ہم نے کبھی روپیہ دیکھا تک نہیں جبکہ اس کا تو سکّہ اور نوٹ بھی بند ہو چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''اپوزیشن کے ٹی او آرز صرف میرے گرد گھومتے ہیں‘‘ اور اپوزیشن کی ساری اور اصل شرارت عمران خاں ہی کر رہا ہے ورنہ پیپلز پارٹی والے تو ہر طرح سے مجھے سپورٹ کر رہے ہیں اور جاتی عمرہ کے دھرنے اور جلوس وغیرہ نکالنے اور استعفی کا مطالبہ کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے جس کے لئے مولانا صاحب واقعی داد کے مستحق ہیں جنہوں نے زرداری صاحب کو میرا پیغام پہنچایا اور اب مجھ غریب کے خون کا آخری قطرہ تک تچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جدہ اور دبئی کی فیکٹریاں بیچ کر لندن کے فلیٹس خریدے‘‘ اور اگر کسی کو ان فیکٹریوں کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں تھا تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں‘‘ اگرچہ اس کی اب نوبت ہی نہیں آئے گی کیونکہ ساری صورتحال ہی ماشاء اللہ تبدیل ہو چکی ہے لیکن یہ جو صدر صاحب نے بیان دے دے کر ہمارا خون خشک کر رکھا ہے کہ بڑے بڑے سب پکڑے جائیں گے‘ اس کی ہمیں بالکل سمجھ نہیں آ رہی اور ایسا لگتا ہے کہ
جو کچھ ہونے والا ہے انہیں بھی اس کا اچھی طرح سے علم ہے اور ایسا بھی لگتا ہے کہ ان سے بھی وہی کام لیا جائے جو مجھے فارغ کرنے کے بعد رفیق تارڑ سے لیا گیا تھا‘ اور اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس جس کو بھی میں نے اپنا سمجھ کر تعینات کیا اسی نے بیوفائی کر کے دکھا دی جن میں ان دونوں حضرات کے علاوہ جنرل مشرف بھی شامل ہیں اور اوپر سے سنا ہے کہ طاہر القادری صاحب بھی عیلی عیلی کرتے ہوئے آ دھمکنے والے ہیں تاکہ عمران خان کے ساتھ مل کر ایک بار پھر میرا جینا اجیرن کر سکیں جو اپنے تیس پینتیس لاکھ مریدان باصفا کے ذریعے سڑکوں پر آ کر کوئی اور بھی گل کھلا سکتے ہیں‘ اس لیے ہم لوگ جو پیپلز پارٹی کے درپردہ تعاون پر خوش ہو رہے ہیں وہ رائیگاں ہی جائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ مزید شرفاء کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو یہ ملک خاک ترقی کرے گا‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز اسمبلی ہال میں اپوزیشن کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔
نوٹ : گزشتہ روز کے کالم میں میری پنجابی کتاب کا نام غلط چھپ گیا تھا‘ درست نام ''پنڈوکڑی‘‘ ہے۔
آج کا مطلع
نگار و نقشِ گلستاں کو کیا نکھارو گے
رُخِ بہار سے یہ رنگ بھی اُتارو گے