تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-05-2016

اِک خطاب اور سہی

69 سال بعد ایسا بِل پاکستان کی پارلیمنٹ میں آیا۔
نواز شریف کی ''تجربہ کار‘‘ ٹیم کیسے فیصلے کرتی ہے‘ بِل پر ووٹنگ اس کا ایک اور ثبوت تھا۔ کون نہیں جانتا‘ پاکستان کی ساری جماعتیں اپنے ہر منشور میں خواتین کا ذکر کرتی ہیں۔ اس کی پہلی وجہ خواتین کے ووٹ بٹورنا ہے۔ دوسری وجہ ہماری ریاست کے راہنما اصولوں کا آئینی تقاضا‘ جس کی گارنٹی 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 34 نے یوں دے رکھی ہے۔
Article (34). Full participation of women in national life. steps shall be taken to ensure full participation of women in all spheres of national life.
ترجمہ: ''قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی بھرپور شرکت کو یقینی بنانے کے لئے بامعنی اقدامات کیے جائیں‘‘۔
چیئرمین سینیٹ نے سپریم کورٹ میں خواتین ججوں کی تعیناتی کا بِل پیش کرنے کے لئے جونہی میرا نام پکارا‘ اعتزاز احسن وزیر اعظم کی غیر حاضری کے حوالے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے چیئرمین سے بولنے کی اجازت چاہی۔ رضا ربانی صاحب نے کہا: قانون سازی کا بزنس کر لیں‘ پھر آپ کی بات سنتے ہیں۔ میں نے سینیٹ رولز کے تحت بِل کی تحریک ایوان میں پیش کرنے کی اجازت چاہی‘ جس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے حکومت سے پوچھا: کیا آپ بِل کی مخالفت کرتے ہیں۔ حکومت نے مخالفت کا اعلان کیا؛ چنانچہ مجھے بِل کے اغراض و مقاصد پر بولنے کا کہا گیا۔
عرض کیا: پاکستان میں خاتون وزیر اعظم، خاتون سپیکر آئیں‘ خاتون پیراٹروپر شہید ہوئیں، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی، بلدیاتی اداروں میں خواتین آئیں اور وفاقی شرعی عدالت میں خواتین جج پہنچیں‘ لیکن ملکی آبادی کا 51 فیصد سے زائد حصہ عدالتِ عظمیٰ میں کوئی نمائندگی نہیں رکھتا۔ میں اعلیٰ ترین عدلیہ کی تعیناتی کے کمیشن کا بانی بھی ہوں اور رکن بھی رہا ہوں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ آج تک کسی خاتون وکیل کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے لئے کوئی کا نام زیر تجویز نہیں آیا۔ اس تمہیدی گفتگو کے بعد چیئرمین سینیٹ نے تحریک پر ووٹوں کی گنتی کروائی اور بِل کی تحریک منظور ہو گئی۔ حکومت نے ایک متفقہ معاملے میں فلور پر خواہ مخواہ اپنی شکست کو دعوت دی۔ 
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس حوالے سے مجھے یہ ایس ایم ایس بھیجا:
"your bill for women judges appointement in the supreme court is great legislation"
اسی روز سینیٹرز قومی اسمبلی میں پانامہ لیکس پر مباحثہ سننے کے لئے اکٹھے پہنچے‘ جہاں اپوزیشن کے 7 سوال وزیر اعظم کے ''تاریخی خطاب‘‘ کے بعد 63 بچے دے کر پورے 70 ہو گئے۔ اب 70 سوالوں پر کمیٹی تجویز ہوئی‘ مگر اس سے پہلے وزیر خزانہ نے کہہ دیا: اپوزیشن اب تقسیم در تقسیم ہوتی جائے گی۔ دلیل، شفافیت، جمہوری رویے اور قوتِ برداشت کے مقابلے میں ڈوبتے ''سٹیٹس کو‘‘ کو بچانے والے ہمیشہ دھونس، ترغیب، لالچ، دھمکی جیسے پِٹے ہوئے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کے سمدھی صاحب نے یہ اعترافی بیان دے کر قوم کو ایک بار پھر یقین دلا دیا آپ کی جمہوریت ہمیشہ چھانگا مانگا سے بھوربن کے درمیان گھومتی رہے گی‘ اسے آئس لینڈ، نیوزی لینڈ یا انگلینڈ والی روایات کی ہوا چھو بھی نہیں سکتی؛ چنانچہ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر تین حصوں پر مشتمل تھی۔
پہلا حصہ: الزاما ت کی پرانی ذاتی وضاحت، وہی پرانے الفاظ اور اسی پرانے انداز میں۔
دوسرا حصہ: دھمکی نما تکبر اور غرور سے بھرپور شاہی فرمان پر مشتمل۔ 
تیسرے حصہ میں نئے ''اعتراف لیکس‘‘ کا طلسمِ ہوش ربا کھل گیا۔ 
اس چھٹے، ساتویں خطاب کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اپوزیشن پہلے سے زیادہ غیر مطمئن ہو گئی۔ سوالات کی تعداد میں ڈبل ٹرپل اضافہ ہوا۔ احتساب کا معاملہ مزید گمبھیر ہو گیا‘ اور ساتھ ہی دوسرے ماہ میں جاری اس بحران میں نئے بھنور سامنے آ گئے۔ اب ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے الزامات کی ٹریڈنگ اور گالم گلوچ سے گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تین طرح کے لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں سے لیک ہوئے: ملک میں برسرِ اقتدار ٹاپ سیاسی لیڈرشپ۔ کچھ اپوزیشن کے ارکان اسمبلی بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔ دوسرے‘ بیوروکریٹس بشمول اعلیٰ عدلیہ کے جج‘ اور تیسرے کاروباری لوگ۔ یہ نام 600 سے زیادہ ہیں‘ مگر سرکاری ہنرمندوں نے شاہ کے دربار میں پذیرائی کا نیا طریقہ نکالا۔ ہر روز اجلاس میں نئی تجویز اور اس کے نتیجے میں اِک خطاب اور سہی۔
ابتدا میں وزیر اعظم کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک آئس لینڈ کے وزیر اعظم والا استعفیٰ کا راستہ‘ جو انتہائی باعزت اور پُروقار تھا۔ دوسرا راستہ یہ کہ وزیر اعظم وزارتِ عظمیٰ کا فورم استعمال کرنے کے بجائے فیملی کے ترجمان کا ایک عدد بیان جاری کرواتے‘ لیکن ایسے لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو ملنے کے لئے ترسے ہوئے وزیر، ارکانِ اسمبلی اور مشیر اسی موقع کی تلاش میں تھے‘ لہذا سب نے وہ دانشمندی کی‘ جس کا اپوزیشن کو عرصے سے انتظار تھا۔ میڈیا ٹرائل کے لئے چیف ایگزیکٹو کو ''پنچنگ بیگ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔ اب بھی باعزت راستہ نکل سکتا ہے‘ مگر اس کے لئے مشورہ دینے والے جرات مند ہونے چاہئیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں جرات مند کون ہے؟ اس کا ثبوت وزیر اعظم کی تقریر والی ویڈیو فوٹیج میں موجود ہے۔ لیڈر آف دی ہاؤس کی کرسی والی پہلی لائن میں جس وزیر کو پانامہ لیک کا دفاع ''بذریعہ غصہ‘‘ لیک کرنے کے پلان سے اتفاق نہیں‘ اس وزیر نے نواز شریف کے لئے تالی بجائی، نعرہ لگایا اور نہ ہی ڈیسک کوٹے۔ ٹریک ٹو سنسرشپ اور بازو مروڑ پالیسی کے ذریعے حسنی مبارک بھی نہ بچ سکا‘ اور مُرسی کی سنگل ٹریک جمہوریت کا نتیجہ مصر میں صدی کے تازہ مارشل لا کی صورت میں نکل آیا۔ آج اپوزیشن کی کوئی ایسی نمایاں آواز نہیں‘ جس پر سرکار نے مختلف الزامات نہ لگائے ہوں۔ ان میں نواز شریف صاحب سے صلح کے سب سے بڑے حامی قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کا نام پہلا ہے۔ اگر یہ الزامات درست ہیں تو پھر عمران خان تو کھل کر کہہ چکے کہ انہیں پکڑ لیا جائے۔ باقی بھی نہ جدہ بھاگے ہیں‘ نہ انگلستان سدھارے۔ ایک طرف حکومت اپوزیشن کو نانی یاد کرانے کا دعویٰ کرتی ہے‘ اور دوسری طرف وزیر اعظم نے 8 سال بعد میثاقِ جمہوریت کی دہائی دے ڈالی۔ گھبراہٹ، پریشر، پریشانی اور جلد بازی کی پالیسی کے تحت 6,5 افراد پر مشتمل خاندان نہیں چل سکتا۔ 20 کروڑ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے اصلی شیر کا کلیجہ چاہیے۔ رمضان آئے گا تو مہنگائی کا طوفان ساتھ لائے گا۔ مہنگائی کے نام اِک خطاب اور سہی۔ 3 ہفتے میں طے ہونے والا ہے کہ ٹرک کون سا ہے‘ اور بتی کے پیچھے کون بھاگ رہا ہے؟؟؟
دیکھتا ہوں کیا سے کیا ہر روز، ہر اخبار میں
ٹوٹکے پیدا ہوئے، حالات کی رفتار میں
اب کسی سود و زیاں کا ولولہ باقی نہیں
ایک وحشت ناک منظر ہے بھرے بازار میں
داغ پیدا ہو گئے چہروں کی آب و تاب پر
کوئی صیقل ہی نہیں آئینہء کردار پر
گردشِ گردونِ گرداں سے عزیزانِ چمن
مست ہو کر رہ گئے، پیمانہء گفتار میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved