تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-05-2016

خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس

میٹرو اور اورنج ٹرین کے منصوبے دھڑا دھڑ چل رہے ہیں۔ اگر پنجاب میں حکومت کی کارکردگی ان دو منصوبوں کی آنکھ سے دیکھی جائے تو راوی صرف چین ہی نہیں، بے حد چین لکھتا ہے۔ اردو میں ایک بڑا مسئلہ کبھی کبھار یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کمپوزنگ میں سُکھ والے چین اور ملک چین میں امتیاز مشکل ہو جاتا ہے۔ راوی ان دونوں منصوبوں کے حوالے سے چین بھی لکھتا ہے اور وہ اورنج ٹرین کے حوالے سے ہمسایہ ملک چین بھی لکھتا ہے مگر ملک چین والا معاملہ پھر کبھی سہی۔ فی الحال تو سُکھ والے چین کی پڑی ہوئی ہے۔
ہسپتالوں کا برا حال ہے۔ تھانہ کچہری میں کسی شریف کے لیے امان کی کوئی گنجائش نہیں۔ پٹواریوں کا یہ عالم ہے کہ مجھ سے بھی فرد جاری کرنے کے سات سو روپے مارلیے ۔ عدل و انصاف بارے کھل کر لکھنا ممکن نہیں رہا کہ توہین عدالت واحد قانون ہے، جس کا خوف میڈیا سے لیکر عام شریف آدمی پر یکساں طاری ہے اور اللہ کے فضل سے یہ ہمہ وقت بروئے کار بھی رہتا ہے۔ چند ایک مستثنیات کے علاوہ اس سے کسی کو امان نہیں، لہٰذا اس باب پر گفتگو فضول ہے کہ کسی نے چھاپنی تو ہے نہیں۔ پھر لکھنے کا فائدہ؟۔ لکھنے والے تو جرأت کرنے پر تیار بھی ہیں مگر؟ عرصہ ہوا ایک اخبار کے مالک نے اپنے ایک کالم نویس کی حرکات سے تنگ آکر اسے کہا کہ تمہارا کیا ہے؟۔ تم کل کسی اور اخبار میں چلے جاؤ گے۔ میں اب اس عمر میں دوبارہ نہ تو جیل بھگت سکتا ہوں اور نہ ہی ادارہ دوبارہ کھڑا کر سکتا ہوں۔ پھر پنجابی کا ایک محاورہ دہرایا کہ ''گھرنوں اگ لگی، کتا روڑی تے‘‘ (گھر کو آگ لگ گئی، سب کچھ جل کر خاک ہو گیا مگر کتے کا کیا گیا؟۔ وہ باہر پڑے کوڑے کے ڈھیر پر جا بیٹھا)۔ پھر زور سے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا۔ اب اس عمر میں میں نئے سرے سے کسی چیز کا آغاز نہیں کر سکتا۔ محنت اور مشقت کرنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔
پنجاب میں ادارے برباد ہو چکے ہیں۔ ویسے تو سارے پاکستان میں یہی حال ہے مگر پنجاب کی بات اس لیے ہو رہی ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عرف خادم اعلیٰ کے بارے گڈ گورننس اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کا بڑے زور و شور سے ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ ان کی میرٹ پالیسی کا جھنڈا بلند کیا جاتا ہے اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں اہل پنجاب کو جنت میں رہنے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ایک ایسی جنت جس میں رہنے والوں کو علاج معالجے، عدل و انصاف، تحفظ، تعلیم، صاف پانی اور زندگی کی بنیادی ضروریات تو ہر گز میسر نہیں، البتہ انہیں موٹروے پر گھومنے اور میٹرو وغیرہ پر سفر کرنے کی سہولتیں ضرور فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس عظیم الشان سہولت کے باوجود اگر عوام تنگ و پریشان ہیں تو اس میں خادم اعلیٰ کا کوئی قصور نہیں۔ ناشکرے لوگوں کو راضی کرنا انسانوں کے بس سے باہر والا کام ہے۔ خادم اعلیٰ بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں؟۔
ایک وقت تھا جب یہ عاجز گمان کرتا تھا کہ میاں شہباز شریف کم از کم کچھ کرنا ضرور چاہتے ہیں۔ ان کے طریقہ کار سے کئی بار اختلاف کیا مگر خوش گمانی اپنی جگہ تھی کہ ان کی نیت ضرور نیک ہے ہاں ان کی طبیعت کے طفیل طریقہ کار سے اختلاف ضرور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اب توان کی نیت کے بارے میں بھی خوش فہمی دم توڑ چکی ہے کہ وہ اب صرف میٹرو اور اورنج ٹرین وغیرہ کے علاوہ اور کسی چیز کے بارے میں فکر مند ہی نہیں ہیں کہ انہوں نے ہر چیز کا حل انہی دو میں دریافت کر لیا ہے۔ ان کو یقین کامل ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بطور حکمران دو فرائض عائد کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہر بڑے شہر میں میٹروبس سسٹم شروع کریں۔ لہٰذا وہ لاہور اور اسلام آباد، راولپنڈی کے بعد ملتان میں اس فریضے کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت، زندگی اور اقتدار دیئے رکھا تو وہ اس میٹرو کا جال فیصل آباد، گوجرانوالہ، بہاولپور، سرگودھا اور سیالکوٹ وغیرہ میں بھی بچھا دیں گے اور اگلے چالیس بچاس سال بعد ان تمام میٹرو روٹس کو ملا کر ایک نظام بنا دیں گے کہ آپ ملتان چوک کمہاراں والے سے آج صبح بیس روپے دے کر میٹرو پر بیٹھیں گے اور اگلے روز شام کو لکشمی چوک لاہور اتر کر نسبت روڈ سے ہریسہ کھا کر دوبارہ ملتان کے لیے روانہ ہو سکیں گے۔ یہ اور بات کہ پنجاب میں تب تک سارے سرکاری سکول، کالج، ہسپتال اور تھانے وغیرہ بند ہو گئے ہوں کہ ان سکولوں، کالجوں کا تعلیمی بجٹ، ہسپتالوں کا صحت کی مد میں منظور شدہ سارا بجٹ اسی میٹرو کی نذر ہو گیا ہو گا اور امن و امان وغیرہ کیلئے مختص فنڈز میٹرو کو دی جانے والی سبسڈی میں ختم ہوچکے ہوں گے۔
بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس اور میرٹ کی پالیسی کا قصہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ صوبے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جب حکومت اپنے زیر انتظام چلنے والے سرکاری سکول ''پیف‘‘ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے مختلف این جی اوز میں بانٹ دے تب یہ بات سمجھنے کے لیے زیادہ عقل شریف کی ضرورت نہیں کہ حکومت ان سکولوں کو چلانے میں بری طرح نا کام ہو چکی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ کیا گیا کہ دو دو تین تین سکولوں کو آپس میں مدغم کر دیا گیا۔ ایسا سینکڑوں سکولوں کے ساتھ کیا گیا۔ وجہ یہ بیان کی گئی ان سکولوں میں بچوں کی تعداد کم ہے اور انہیں چلانا خسارے کا سودا ہے۔ میں جب سکول میں پڑھتا تھا تب میونسپل پرائمری سکول میں فیس ایک روپے تھی۔ کلاس میں پچاس بچے تھے، یعنی کلاس سے کل ماہانہ آمدنی پچاس روپے تھی اور بس۔ ماسٹر غلام حسین کی تنخواہ کا مجھے علم نہیں۔ گمان ہے تین ساڑھے تین سو روپے ہو گی۔ بجلی تھی، پنکھے چلتے تھے۔ ماشکی تھا چھڑکاؤ کرتا تھا۔ چپڑاسی تھا گھنٹی بجاتا تھا۔ چوکیدار تھا گیٹ پر بیٹھتا تھا۔ ہیڈ ماسٹر تھا سارے سکول کو دیکھتا تھا۔ باقی کلاسوں میں بھی ایسا ہی حال تھا۔ کچی پکی کی کلاسوں میں فیس آٹھ آنے ماہانہ تھی۔ یعنی پچاس طالبعلموں کی کلاس کی کل آمدنی پچیس روپے۔ ماسٹر کی تنخواہ تین سو روپے۔ سارا سکول خسارے میں چلتا تھا اور صرف اس سکول پر کیا موقوف؟۔ سارے سکول خسارے میں چلتے تھے مگر خسارے میں کہا ںچلتے تھے؟۔ جہاں علم تقسیم ہوتا ہو وہاں مالی خسارے کی اہمیت ہی کیا ہے؟۔ ہمارے سرکاری سکول روز اوّل سے یعنی اپنے قیام سے ہی مالی خسارے میں چل رہے تھے۔ گورے نے یہ سکول جب بنائے تب سے ہی اس کی آمدنی اور خرچہ کبھی مثبت نہیں آیا۔ سدا سے یہی ہوتا آیا تھا کہ سکولوں کی آمدنی برائے نام ہوتی تھی اور باقی رقم سرکار سے آتی تھی۔ نہ کبھی گورے نے اس کو بنیاد بنا کر سکول بند کرنے کی ٹھانی اور نہ ہی قیام پاکستان کے بعد کسی حکمران نے تعلیم کو کاروبار کی آنکھ سے دیکھا۔ تعلیم کی فراہمی کو ہمیشہ سے حکومتی ذمہ داری اور عوام کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا اور اسے اسی نکتہ نظر سے دیکھا جاتا تھا اور برتا جاتا تھا۔
اب حکومت کاروباریوں کے ہاتھ میں ہے۔ تعلیم کاروبار ہے، صحت عامہ کاروبار ہے، الیکشن لڑنا کاروبار ہے، کام کروانا کاروبار ہے، عوضانہ لینا کاروبار ہے۔ آف شور کمپنی بنانا کاروبار ہے اور ٹیکس بچانا کاروبار ہے۔ مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اسی کاروبار کا حصہ ہے؛ چنانچہ قرضے لینا کاروبار ہے اور قرضے معاف کروانا کاروبار ہے۔ تھانہ کچہری میں کام کروانا کاروبار ہے۔ چٹی دلالی کاروبار ہے۔ اسمبلی میں جانا کاروبار ہے۔ الیکشن کا خرچہ وصول کرنا کاروبار ہے۔ اس خرچے پر نفع لینا کاروبار ہے۔ بھلا اتنے کاروبار کرنے اور سمجھنے کے بعد گھاٹے کا کاروبار کیسے ہو سکتا ہے؟۔ مسلسل خسارے والے سکول کیسے چلائے جا سکتے ہیں؟۔ لگاتار پیسے خرچ کروانے والے ہسپتال کس طرح برقرار رکھے جا سکتے ہیں؟۔
ایک دوست سے بات ہوئی جو سرکاری افسر ہے اور اسی قسم کے کام کرتا ہے کہنے لگا تم خود ہی کہتے ہو کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں اور خود ہی اس کی نفی کرتے ہو۔ میں نے کہا یہ ریگن کا مشہور جملہ تھا کہ "State have no business with business" ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔ یہ بات ریگن نے تعلیم اور صحت کے بارے میں نہیں دیگر حکومتی کاروباروں سے متعلق کی تھی۔ بنک، ٹرانسپورٹ اور اسی قسم کے دیگر معاملات میں حکومتی دخل اندازی بارے بات کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ میں کوئی سرکاری بنک نہیں سوائے سنٹرل امریکن بنک کے۔کوئی ائر لائن سرکاری نہیں، ریلوے، دیگر ٹرانسپورٹ وغیرہ میں کوئی حکومتی شراکت داری نہیں۔ آئل کمپنیاں پرائیویٹ ہیں۔ انشورنس کمپنیاں آزاد ہیں۔ گیس پر حکومتی کنٹرول نہیں اور بجلی کی پیداوار ساری پرائیویٹ سیکٹر کے پاس ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں پرائیویٹ ہیں اور اور ٹی وی ریڈیو وغیرہ بھی سرکاری دستبرد سے محفوظ ہیں۔ لیکن اس سارے پرائیویٹ قسم کے مالکانہ حقوق رکھنے والے ملک میں سکول ابھی بھی سرکاری موجود ہیں۔ پرائیویٹ سکول بھی موجود ہیں مگر آپ کے پاس سرکاری سکول میں پڑھنے کی چوائس موجود ہے۔ سرکاری سکول اس طرح برباد بھی نہیں جس طرح ہمارے ہاں ہیں۔ ادھر یہ عالم ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں اور اس محرومی کی بنیادی وجہ غربت ہے۔ لوگ بچے کو سکول بھجوانا افورڈ نہیں کر سکتے۔ مدرسوں میں بچے بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ تعلیم مفت ہے اور ساتھ روٹی اور رہائش بھی میسر ہے۔
ایک طرف اڑھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں دوسری طرف حکومت رہے سہے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں دے کر تعلیم کا حصول مزید مشکل کرنے جا رہی ہے۔ میرا وہی دوست کہنے لگا مفت کی گھٹیا تعلیم لینے سے کہیں بہتر ہے کہ ادائیگی کر کے اچھی تعلیم لے لی جائے۔ میں نے کہا ! این جی او مارکہ پرائیویٹ سیٹ اپ کم تنخواہ والے ٹیچرز سے اگر بہتر تعلیم کا اہتمام کروا سکتا ہے تو یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ حکومت دراصل ان سکولوں کو چلانے میں نا کام رہی ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ نا کام حکومت ہوئی ہے اورپرائیویٹائز سکولوں کو کیا جا رہا ہے حالانکہ نالائق اور نا اہل حکومت کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے ہاں سارے کام الٹے ہو رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved