یورپ کے کسی ملک کے ایک شہر کے میئر نے شراب بندی کا بل پیش کیا۔ یہ بل پڑھتے ہوئے وہ نشے میں جھوم رہا تھا۔ شہری کونسل کے نمائندگان اس کیفیت سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے۔ بل ختم ہوا‘ تو وہ چونکے اور تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ اسی کیفیت میں میئر صاحب نے اپنے بل پر منتخب نمائندوں کی رائے مانگی‘ تو سب نے بل کی منظوری کے لئے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ پاکستان کے وزیرخزانہ جناب اسحق ڈار‘ منی لانڈرنگ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے بجٹ کے ساتھ گزشتہ تین سال میں جو انقلابی تجربے کئے ہیں‘ ان سے پوری دنیا لطف اندوز ہو رہی ہے۔ پاکستان پہلا ترقی پذیر ملک ہے‘ جس کے نام کے ساتھ ترقی کا لفظ لکھتے ہوئے بھی حیا آتی ہے۔ وہی حیا‘ جو ہماری قومی اسمبلی میں حکومت کے وزیردفاع نے‘ بے حیائی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا ''کوئی شرم ہوتی ہے۔ کوئی حیا ہوتی ہے۔‘‘ حکومت کے حامیوں نے زبردست تالیاں بجاتے ہوئے‘ اپنے وزیردفاع کو داد دی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اپنی حکومت کے کسی کارنامے کی تحسین کرتے ہوئے بول رہے تھے۔ انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ ایک مخالف سیاسی جماعت کے لیڈرکو ہدف تنقید بنائیں۔ میں نے یہ کالم نشے میں دُھت‘ یورپ کے ایک شہر کے میئر کی مثال سے شروع کیا تھا۔ اس کا یہ بل‘ تحسین و آفرین کے ڈونگروں میں پاس کر دیا گیا۔ پاس کرنے والے خود بھی نشے کی حالت میں تھے۔ غالباً یہ آئرلینڈ کے کسی شہر کا واقعہ ہے۔ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کی اکثریتی آبادی نشے کا شوق رکھتی ہے۔ اس شہر کے تمام منتخب نمائندے‘ اپنی تقریروں میں شراب کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس پر پابندی کے حق میں تقریریں کرتے ہیں۔ پابندی کے قوانین بناتے ہیں۔ قوانین بھی بنتے رہتے ہیںاور شراب بھی چلتی رہتی ہے۔
ہماری صورتحال بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ ہمارے کسی شہر کے میئر تو نہیں‘ البتہ ملک کے وزیرخزانہ بھی ایسی ہی مثال پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت ہر سال بجٹ کے موقع پر‘ کرپشن کے خلاف تقریریں کرتی ہے اور پھر نہایت اطمینان اور سکون قلب کے ساتھ‘ کرپشن کرنے میں لگ جاتی ہے۔ ہم نے اپنے وزیرخزانہ کا انتخاب بھی ان کی اسی خوبی کی وجہ سے کیا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران انہوں نے جو مشہور و معروف اقراری بیان تحریر کیا تھا‘ وہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس بیان میں کرپشن اور پھر منی لانڈرنگ کے ایسے ایسے طریقے بتائے گئے ہیں ‘ جو سیاست میں کامیابی حاصل کرنے کے خواہشمندوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ بطور وزیرخزانہ ان کے کارنامے‘ پڑھنے اور سننے والے بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جیسے جیل میں بیٹھ کر لکھی گئی ان کی ''تصنیف‘‘ کرپشن کرنے کے خواہشمندوں کو ''راہ ہدایت‘‘ دکھاتی ہے۔بطور وزیر خزانہ ان کے موجودہ تین سالہ دور میں ‘ کرپشن کے جو شاندار کارنامے انجام دیئے گئے ہیںاور جو سابقہ کارنامے اب منظر عام پر آ رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر ہمارے سر ''فخر‘‘ سے بلند ہو گئے ہیں۔بھار ت کے ساتھ ہمارا ہر شعبے میں مقابلہ رہتا ہے۔ لیکن ہم اپنی پسند کے ہر کام میں اسے شکست دیتے ہیں۔ بھارت جب بیرونی تجارت میں نفع حاصل کرنے لگتا ہے‘ تو ہم خسارے میں اسے منہ توڑ شکست دے کر لڈی ڈالتے ہیں۔ جیسے کہ آج کل خسارے کے ہر بجٹ پر ڈالی جاتی ہے۔ جنگیں ہم چھیڑتے ہیں۔ کامیاب وہ ہوتے ہیں۔ بھارت والے عالمی تجارت سے اپنے زرمبادلہ میں اضافہ کرتے ہیں اور ہم کچھ کئے بغیر‘ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کر کے مست رہتے ہیں۔ نسخہ بہت آسان ہے۔ وہ برآمدات میں نفع کماتے ہیں اور ہم کچھ کئے بغیر ہی قرضہ لے کر‘ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھا لیتے ہیں ؎
قرض کی پیتے ہیں مے لیکن سمجھتے ہیں کہ ہاں
رنگ لائے گی ہمارے فاقہ مستی اک دن
دوسری قومیںخوشحالی میں اضافے کے لئے محنت کرتی ہیں اور ہم فاقہ مستی میں رہتے ہوئے‘ مزید فاقہ مستی کی امید لگائے رکھتے ہیں۔ کرپشن سے ہمیں شدید نفرت ہے۔ ''ترقی‘‘ و خوشحالی (ذاتی) کے لئے ہم نے ہمیشہ کرپشن پر انحصار کیا ہے۔ اگر آپ مختصر سی قومی تاریخ کا جائزہ لیں‘ تو کرپشن کے میدان میں جو کارنامے ہم نے انجام دیئے ہیں‘ اس میں شاید ہی کوئی دوسری قوم ‘ ہمارا مقابلہ کر سکے۔
ہمارے حکمران ہر دور میں کرپشن کے خلاف نئے عزم و ارادے کے ساتھ کارروائی کر کے‘ ذاتی دولت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پرانے زمانے کی بات ہے‘ جب ہمارے ملک کا صدر‘ کرپشن ختم کرنے کے لئے حکومت توڑا کرتا تھا اور جو نئی حکومت آتی‘ وہ پہلے سے زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ کرپشن کا نیا باب کھول دیتی۔ ساری دنیا کی حکومتیں‘ کرپشن کو ختم کرنے کے لئے قوانین بناتی ہیں اور ہم کرپشن میں روزافزوں ترقی کے لئے‘ نئے نئے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ ان دنوں ہم کرپشن کے پیچھے پڑے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ملکی قوانین کو کرپشن کرنے والوں کے حق میں بدلا جائے گا۔ ہمارے رہبروں کی کوشش اور خواہش ہے کہ پرانے قوانین میں کرپشن کو ختم کرنے کے جتنے بھی قوانین ہیں‘ ان میں لچک پیدا کر دی جائے۔ اگر آپ یاد کر سکیں‘ تو میں آپ کی مدد کرتے ہوئے تاریخی واقعات دہرائوں گا۔ مثلاً پاکستان میں جب بھی کرپشن کی بیخ کنی کے لئے حکومت توڑی گئی۔ کرپشن پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ پہلے جہاں ایک سو ڈالر کی کرپشن ہوتی تھی‘ اب وہاں دس ہزار ڈالر کی ہو رہی ہے اور اب تو ہمارے قومی عزائم یہ ہیں کہ کرپشن کو ہی جائز کر لیا جائے۔ موجودہ جدوجہد اسی طرح جاری رہی‘ تو انشاء اللہ ایک دن کرپشن میں ترقی و اضافے کے لئے جدید قوانین بنائے جائیں گے۔ میں غلط بیانی نہیں کر رہا۔ حقیقت ہے کہ ایسے قوانین ختم کرنے پر انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر کیا جا رہا ہے‘ جو کرپشن کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ان دنوں ہمارے رہبرورہنما جناب نوازشریف چاہتے ہیں کہ جس کے پاس جتنا بھی کالا دھن ہے‘ اسے ''سفیددھن‘‘ میں بدل لیا جائے۔ یہ ''رعایت‘‘ مل گئی‘ تو ہمارے ملک میں اللہ کے فضل و کرم سے ناجائز دولت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ جیسے بھی اور جس طرح بھی کوئی دولت جمع کرے گا‘ اس دولت کو جائز کرنے کے لئے ریاستی قوانین اس کے مددگار ہوا کریں گے۔ جو‘ جتنا بااختیار ہو گا‘ اتنا ہی دولت مند ہو گا اور جو‘ جتنا دولت مند ہو گا‘ اتنا ہی بااختیار ہو گا۔ ہمارے وزیراعظم کو ترقی کے دشمنوں سے شدید نفرت ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں‘ جو سڑکیں بنانے کے مخالف ہیں۔‘‘کسی اور کو سڑکوں کے مخالفین شاید ہی نظر آئیں۔ لیکن ہمارے وزیراعظم نے انہیں آسانی سے دیکھ لیا ہے اور جو بھی سڑک بنانے کی مخالفت کرے گا‘ وزیراعظم اس کا ناطقہ بند کر دیں گے۔ (ویسے یہ ''ناطقہ‘‘ ہوتا کیا ہے؟) ایک زمانے میں زبانی کلامی ہی سہی‘ وزرائے اعظم کرپشن کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ اب حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب قومی اسمبلی میں کرپشن کے ہر طریقے کے حق میں نئے نئے قوانین منظور کئے جائیں گے۔ کرپشن ہمارا قومی پیشہ ہو گا۔ ناجائز دولت جمع کرنے والوں کی عزت و احترام میں اضافہ ہو جائے گا۔ جس نے لوٹ مار کر کے‘ دولت جمع کی ہو گی‘ وہ فخر سے ووٹروں کو اپنے کارنامے بتا کر‘ ووٹ مانگے گا۔ معمولی اثاثوں کا مالک‘ انتخابی دوڑ سے باہر ہوتا جائے گا اور ایک وقت آئے گا ‘ جب سارا معاشرہ کالے دھن والوں کے کنٹرول میں ہو گا۔ رزق حلال کمانا‘ حرام ہو جائے گا اور رزق حرام کھانا‘ قابل فخر ہو گا۔ ایسے قوانین کا بے تابی سے انتظار شروع کر دیجئے‘ جو کرپشن کے فروغ کے لئے بنائے جائیں گے اور ان عاقبت نااندیشوں کو بھولنا شروع کر دیجئے‘ جن کے ذہنوں میں کرپشن کے متعلق ''برُے برُے‘‘ خیالات پائے جاتے ہیں۔