حکومت اپوزیشن ملاکھڑا میں''بارشناسائی‘‘ کے لذیذ قصّے تشنہ رہ گئے‘ کرامت غوری لکھتے ہیں
''میں نے جواب ارسال کرنے میں دو ہفتے تو کیا دو دن بھی نہیں لیے اور فی الفور مکتوب نگار سیکرٹری خارجہ کو اپنا وضاحتی مکتوب اس نوٹ کے ہمراہ بھجوا دیا کہ سرکار کے مروجہ ضابطوں کے تحت میں جواب تو آپ کی وساطت سے (Through Proper Channel)بھیج رہا ہوں لیکن میرا خطاب آپ سے نہیں بلکہ وزیر اعظم سے ہے۔ اس لیے کہ اس خط کی تحریک ان کے ہاں سے ہی ہوئی ہے۔‘‘
''ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اس خط کو تحریر کرنے کے دس برس بعد جب میں کینیڈا میں بس چکا تھا ‘‘ مجھے سروس سے ریٹار ہوئے چار برس ہونے کو آ رہے تھے اور میں 2005ء کے نومبر‘دسمبر میں دفتر خارجہ‘ اسلام آباد میں اپنی پنشن کے معاملات طے کروانے کے لیے گیا تو کئی ایک وہ جونیئر افسران جنہیں خط پڑھنے کا موقع ملا تھا‘ مجھے بطور خاص دیکھنے اور مجھ سے ملاقات کے لیے آئے۔ ان کی بڑی آرزو تھی کہ اس سفیر کو دیکھیں جس نے ایک وزیر اعظم کو ایسا کھرا کھرا خط لکھا تھا اور مجھے اس بات پر بے ساختہ حضرت حفیظ جالندھری مرحوم یاد آ گئے جنہوں نے ایسی ہی صورتحال کو ایک شعر میں یوں قلمبند کیا تھا ؎
کلام سن کے مرامہ وشوں کی تانوں میں
بہت سے لوگ مری شکل دیکھنے آئے
میں نے اپنے وضاحتی مکتوب میں پہلے سوال کے جواب میں وزیر اعظم سے مؤدبانہ عرض کیا کہ اگر میں اس کا محض روایتی اور سرکاری ضابطے کے مطابق جواب دینا پسند کروں تو یہ کہنے پر ہی اکتفا کروں گا کہ آپ کو مجھ سے اس دور کے متعلق سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جب آپ اقتدار میں نہیں تھیں اور وزارت عظمیٰ آپ کی تحویل میں نہیں تھی اور میں یہ عرض کر دوں کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے مجھ سے اس ضمن میں کبھی نہ سوال کیا نہ جواب طلب کیا۔‘‘
لیکن‘ میں آپ کو اس سوال کا تفصیلی جواب دوں گا اور میرا جواب یہ ہے کہ جس الہامی کتاب پر میں ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے آپ بھی رکھتی ہیں‘ وہ مجھے یہ تلقین کرتی ہے کہ تمہارا کوئی مسلمان بھائی‘ کوئی مومن اگر کسی نیکی کا بیڑا اٹھائے اور تم اس کی مدد کر سکتے ہو تو مدد کرنا تم پر فرض ہے۔ میں نے عمران کے کینسر ہسپتال کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ اسی دینی اور انسانی جذبے کے تحت کیا۔ میں نے یہ سوچا کہ میں ایک ایسے ملک میں سفیر ہوں جہاں میرے ہم وطنوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو یقیناً میری آواز پر لبیک کہے گی اور اپنے قومی ہیرو کی امداد کے لیے انکار نہیں کرے گی جس نے ملک و قوم کے لیے اتنا نام کمایا ہے لیکن اب وہ ایک جذبے اور مشن سے سرشار ہو کر دربدر پھر رہا ہے تاکہ اپنے خواب کو پورا کر سکے اور اس کا مشن بھی دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کا مشن ہے۔ وہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا کینسر ہسپتال قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہاں ملک کے وہ غریب غرباء بھی اس موذی مرض کے خلاف علاج معالجہ کی سہولت سے فیض یاب ہو سکیں جن کا اور کوئی والی وارث نہیں ہے۔‘‘
''میں نے لکھا کہ یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ عمران نے مجھ سے فرمائش نہیں کی تھی کہ میں اس کے لیے فنڈز اور عطیات جمع کروں بلکہ از خود میں نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی اور میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بحیثیت ایک سفارتکار میں نے آج تک جو کچھ بھی کیا ہے‘ اس میں میرا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے۔ مجھے اپنے اس کام پر فخر ہے اور اگر آئندہ بھی عمران یا کسی اور فرد نے اس قسم کے مشن کا پرچم بلند کیا تو میں اس کی تائید اور حمایت میں کھڑے ہونے والے سفراء میں سب سے پیش پیش رہوں گا۔بعد میں میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ میرے خط کا یہ جملہ بے نظیر کو شاید سب سے زیادہ ناگوار گزرا تھا جسے انہوں نے اجاگر کرنے کے لیے اس کے نیچے بھی اپنے قلم سے لکیر پھیری تھی اور حاشیوں پر بھی لکیریں کھینچی تھیں۔‘‘
کرامت غوری میاں نواز شریف کی ترکی آمد کے حوالے سے لکھتے ہیں۔''ہوٹل پہنچتے ہی میاں صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ وہ رات کا کھانا تناول کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ کباب ریستوران جانا چاہتے ہیں۔ اس ریستوران کی شہرت کئی برسوں سے یہ تھی کہ میاں نواز شریف اس کے خصوصی سرپرستوں میں سے تھے۔ کئی بار میاں صاحب یورپ جاتے ہوئے یا وہاں سے واپسی پر صرف کباب کھانے کے لیے استنبول میں چند گھنٹے قیام فرمایا کرتے تھے۔
میاں صاحب نے ریستوران کے مالک پر خاص عنایت کی تھی اور اسے سرکاری مہمان بنا کر ایک ہفتہ پاکستان کا دورہ کروایا تھا۔ عام حالات میں مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا لیکن میری دانست میں وہ موقع بالکل اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پاکستان کا وزیر اعظم جو اپنے ترک بھائیوں کو ایک آفت ناگہانی (تباہ کن زلزلہ)پر پرسہ دینے اور ان سے تعزیت کرنے کے لیے آیا تھا اس قسم کی تفریح کا مرتکب ہو‘ لہٰذا میں نے حد ادب میں رہتے ہوئے مناسب الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار برملا کر دیا۔ میاں صاحب نے میری رائے سے اتفاق کیا لیکن پھر چند لمحے توقف کرنے کے بعد فرمایا کہ اچھا‘ چلو نہیں جاتے لیکن اس ریستوران سے کباب منگوا تو سکتے ہیں۔ میں نے لوہے کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس پر ایک اور ضرب لگانا ضروری سمجھا اور جواب میں کہا ''سر! آپ ضرور کھانا منگوا سکتے ہیں لیکن یہ تو سوچیے کہ آپ کے لیے کباب کوئی گمنام طریقے سے تو نہیں آئیں گے۔ سکیورٹی کے پروٹوکول کے بموجب ترک میزبان جان جائیں گے کہ ہماری ٹریجڈی کے عالم میں ہمارے دوست یہ عیاشی کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے دیکھا کہ ان کا منہ لٹک گیا اور مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ان پر ظلم کر رہا ہوں۔ کنوئیں کے اتنے پاس آ کر پیاسا رہ جانا ظلم نہیں تو اور کیا ہو گا‘ لہٰذا میں نے فوراً یہ ترکیب سوچی کہ میاں صاحب کی دل آزاری نہ ہو لیکن پروٹوکول کے سامنے ہمیں شرمندگی بھی نہ اٹھانی پڑے۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‘‘
''میں نے میاں صاحب سے کہا کہ جناب میں آپ کو آپ کے پسندیدہ کبابوں سے ہرگز محروم نہیں رہنے دوں گا۔ آپ بے فکر رہئے۔ میں ابھی اسے فون کر کے کہتا ہوں کہ علی الصباح آپ کی روانگی سے پہلے وہ آپ کے پسندیدہ کباب جہاز میں رکھوا دے۔میری اس تجویز پر میاں صاحب انار دانے کی طرح سے کھل اٹھے اور دل کھول کر میری دانشمندی کی داد دی۔ اگلی صبح روانگی کے وقت ریستوران کا مالک جہاز پر کھانا رکھوا رہا تھا۔ اس کی میاں صاحب سے کھڑے کھڑے ملاقات بھی ہو گئی‘ میرا مشن بخوبی تمام ہو گیا۔‘‘
بارِ شناسائی کا ایک باب مولانا فضل الرحمن کے دورۂ کویت پر مبنی ہے۔''مولانا فضل الرحمن کا سب نے ہی بہت تپاک سے استقبال کیا اور پھر ہم سب اس کانفرنس روم میں جا کر بیٹھ گئے جو اس قسم کی ملاقاتوں کے لیے مخصوص تھا۔ جام الصقر صاحب نے مولانا کو باضابطہ اور خوشگوار الفاظ میں خوش آمدید کہنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لیے وارد ہوئے وہ بیان کریں لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ کشمیر پر پاکستانی موقف سے میں حاضرین کو آگاہ کروں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا خود اس فریضے کی ادائیگی سے کیوں جان چھڑانا چا رہے ہیں‘ لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ مولانا کو یاد دلائوں کہ وہ پاکستان کے خصوصی ایلچی بن کر وارد ہوئے ہیں اور وزیر اعظم بے نظیر کی خصوصی ہدایات کے بموجب میں انہیں اس ملاقات کے لیے لے کر گیا تھا۔
مولانا کچھ قائل ہوئے کچھ نہیں ہوئے لیکن خاموشی جب بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کر اردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کئے جن کا میں انگریزی میں ترجمہ کرتا رہا لیکن پھر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مولانا نفس مضمون کی طرف نہیں آ رہے اور معزز سامعین بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہیں‘ لہٰذا حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی نیت سے میں نے لقمہ دیا کہ مولانا اگر پسند فرمائیں تو گفتگو کومیں آگے بڑھائوں اور یوں لگا جیسے مولانا اسی لمحے کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور سامنے میز پر رکھے ہوئے کیک پیسٹری کی طرف رجوع ہو گئے اور پھر ایک گھنٹے تک ان کی طرف سے میں ہی بولتا رہا اور وہ اپنے پیٹ کی میزبانی کرتے رہے۔ایک دوسرے موقع پر مولانا طے شدہ سرکاری تقریب میں آنے کے بجائے شہر سے باہر پٹھانوں کے ایک ڈیرے پر ضیافت اڑانے پہنچ گئے جہاں مدرسے کے لیے چندہ بھی جمع کیا‘‘