تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     21-05-2016

کیا جاسوس کو زہر دیا گیا؟

ایبٹ آباد پر حملے کی پانچویں سالگرہ پر امریکی پریس نے جو مواد شائع کیا ہے‘ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو زہر دیا گیا تھا‘ جو امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی خرابی کی ایک وجہ ہے۔ گو مارک کلٹن (Mark Kelton) اس رائے سے کھل کر اتفاق نہیں کرتے مگر امریکی اخبارات ایک ''شدید طبی بحران‘‘ کی بات کئے جا رہے ہیں‘ جو پاکستان میں امریکی چیف کے گوشہ نشین ہونے کا سبب بنا۔ مسٹر کلٹن‘ جو سات ماہ قبل ایجنسی سے ریٹائر ہوئے اور اب انٹرنیٹ پر پائی جانے والی ایک ویب سائٹ پر گاہے گاہے روس کی انٹیلی جنس پر مضمون لکھتے ہیں‘ پاکستان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ''وہ ان لوگوں کے ساتھ کام کرکے فخر محسوس کرتے ہیں‘ جنہوں نے بڑے مشکل وقت میں اپنے ملک کے حق میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے۔ جب پوری کہانی سنائی جائے گی تو ملک اس پر نازاں ہو گا۔ اس خیال (زہر) کے لب لباب کا آغاز مجھ سے نہیں ہوا تھا‘‘۔
امریکی حکام مانتے ہیں کہ زہر خورانی کی بات قابل تصور ہے‘ مگر ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت کے انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) چیف احمد شجاع پاشا‘ کلٹن کے ساتھ عام طور پر بات کرنے سے انکار کرتے تھے‘ اور ''لاشا‘‘ کہہ کر ان کا حوالہ دیتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس دن ایبٹ آباد سے اسامہ بن لادن کو اغوا اور قتل کیا گیا‘ لیفٹیننٹ جنرل پاشا واشنگٹن میں تھے‘ اور ٹمپا فلوریڈا جانے کے لئے تیار تھے‘ جہاں امریکی فوج کی مشرق وسطیٰ کمان کا ہیڈکوارٹرز ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایس آئی ایک فوجی ( باوردی) ادارہ ہے‘ جبکہ سی آئی اے سویلین‘ جو فوج کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مارک کلٹن کا‘ جن کا آخری نام حال ہی میں سامنے آیا‘ قیام صرف سات ماہ رہا مگر پاکستان کے لئے یہ ندامتوں کا عرصہ تھا۔ کلٹن کی آمد کے چند روز بعد لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ رونما ہوا‘ جسے چوبیس لاکھ ڈالر خون بہا ادا کرکے امریکہ بھجوایا گیا۔ امریکہ نے پہلے تو اسے سفارت کار کہا‘ اور پھر خاموش ہو گیا۔ ڈیوس اصل میں کلٹن کا ماتحت تھا‘ اور جاسوسی کی مصروفیات سے واپس گھر آ رہا تھا‘ جب دو آدمیوں نے اسے لْوٹنے کی مبینہ کوشش کی‘ اور اس نے گولی چلا کر دونوں کو مار ڈالا۔ کلٹن نے بہت سے ڈرون حملوں کے اجازت ناموں پر دستخط کئے‘ جو پاکستانیوں کی برہمی کا سبب بنے۔ انہوں نے بن لادن کے گھر پر چھاپہ مارنے کی تیاریوں میں حصہ لیا‘ جو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی ''نااہلی‘‘ کا ثبوت تھا۔ اس وقت سی آئی اے کے سربراہ لی آن پنیٹا تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو اس حملے کی پیشگی اطلاع نہ دی‘ اس لئے کہ اس کے لیک ہونے کا اندیشہ تھا۔
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ہفتہ بعد پاکستانی پریس کی ایک سٹوری میں کہا گیا کہ پاشا نے سی آئی اے کے سٹیشن چیف کو ایک میٹنگ کے لئے طلب کیا‘ اور بن لادن کے آپریشن کو ان سے پوشیدہ رکھنے پر بْرا بھلا کہا۔ اس سٹوری میں چیف کا نام مارک کارلٹن (Carlton) ظاہر کیا گیا تھا‘ جو نہ جانے رپورٹر کا سہو تھا یا کسی اور کی غلطی۔ اس سے پہلے کلٹن کے پیشرو‘جوناتھن بنک کا نام بھی منکشف کیا گیا تھا‘ اور سیاسی اپوزیشن کی شخصیت شیریں مزاری دونوں واقعات میں پیش پیش تھیں۔ دونوں واقعات پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں رونما ہوئے جس میں مدارالمہام آصف علی زرداری تھے۔ بہرحال یہ چیف کا نام ظاہر کرنے کا دوسرا واقعہ تھا‘ جو جاسوسی کے غیر محررہ سمجھوتے کی خلاف ورزی تھی‘ مگر اس بار ایجنسی نے کلٹن کو اسلام آباد میں رہنے دیا‘ اور ایبٹ آباد میں بھی ایک سیف ہاؤس برقرار رکھا۔ اس وقت ڈاکٹر شکیل آفریدی بھی ایبٹ آباد میں تھے‘ اور پولیو مہم کی آڑ میں بن لادن کمپاؤنڈ کے باسیوں کے ڈی این اے ٹیسٹ لے رہے تھے۔ بن لادن کی برسی پر ڈاکٹر آفریدی کو طویل قید سے رہا کرانے کی کوشش بھی کی گئی‘ مگر اس مرتبہ ''خوں بہا‘‘ کی گنجائش نہیں تھی۔
کلٹن ماسکو میں تعیناتی کی ایک مدت گزار کر اسلام آباد آئے تھے‘ اور وہ یہ ذہنیت بنا کر پاکستان میں وارد ہوئے تھے کہ اسلام آباد میں ''ماسکو رولز‘‘ نافذ کریں گے۔ مطلب یہ تھا کہ آئی ایس آئی کو مسائل سے دوچار ساجھے دار کی بجائے ایک پْرعزم دشمن خیال کیا جائے۔ انہوں نے اپنے رفقا میں زور و شور سے اس نظریے کی تبلیغ شروع کر دی‘ اور دونوں اداروں میں ناگزیر تصادم توقعات سے پہلے آ گیا۔ واشنگٹن میں ان کے باس پنیٹا‘ جو بعد میں ترقی پا کر وزیر دفاع بنائے گئے‘ اس نظریے کے حامی تھے۔ ان کا قول تھا کہ سالہا سال کی مخالفانہ جاسوسی ایک اثاثہ ہو سکتا ہے۔ وہ ''ماسکو رولز‘‘ پسند کرتے تھے اور انہیں روس میں تعینات سابق اہلکار کا سرٹیفکیٹ مانتے تھے۔
امریکی حکام زور دے کر کہتے ہیں کہ پاکستان سے امریکہ کے تعلقات‘ کلٹن کے اسلام آباد میں وارد ہونے سے پہلے سالہا سال سے زوال پذیر تھے۔ سات سال پہلے جاسوسی ادارے اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستانی ایجنسی‘ اپنی تحویل میں عسکریت پسندوں کی موت پر پردہ ڈالنے کے لئے بھارت پر حملے کرتی ہے‘ اور اپنے لڑاکوں کو خبردار کرنے کے لئے ڈرون کارروائی کی اطلاع دے دیتی ہے۔ اگلے سال جب سی آئی اے نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں میں اضافہ کیا‘ اور ممبئی پر حملے کے مقدمے میں احمد شجاع پاشا کا نام آیا‘ تو بظاہر جوابی کارروائی کے طور پر پاکستان میں ڈرون ٹیکنالوجی کا نشانہ بننے والوں کی جانب سے ایک مقدمہ دائر کیا گیا‘ تو یہ تعلقات اور زیادہ بگڑ گئے۔ اس مقدمے میں جوناتھن بنک کا نام بھی لیا گیا تھا‘ جو امریکہ کے لئے پریشانی کا باعث تھا۔ اگلے سٹیشن چیف کو قدرتی طور پر اس دباؤ کا بھی سامنا تھا۔
بن لادن کے گھر پر امریکی بحری فوج کے خاص الخاص دستے (SEALS) کے حملے کا منظر اسلام آباد میں کلٹن اور سفیر کیمرون منٹر نے مل کر دیکھا‘ اور اس میٹنگ میں طے پایا کہ پاکستان کے ردعمل کا سامنا کیونکر کرنا ہے؟ مختلف سفارتی دفاتر میں بکھرے ہوئے امریکی سفارتکار‘ سرحد پار کرکے ہندوستان چلے جائیں گے‘ یا کراچی کے ساحل پر لنگر انداز جنگی جہاز کارل ونسن انہیں اٹھا لے گا۔ جو امریکی‘ سفارت خانے میں ہوں گے وہ چھپ رہیں گے۔ بن لادن کارروائی کے بعد آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور صدر زرداری کے مابین تند و تیز مکالمہ تو ہوا مگر اس کے بعد ٹائیں ٹائیں فش ہو گئی‘ اور امریکی منصوبے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ڈیوس کا معاملہ ہوا اور ڈرون حملے بھی واپس آ گئے‘ اور دتہ خیل میں سرکاری جرگے پر ایک کارروائی کے دوران چالیس لوگ مارے گئے۔
کلٹن پر ان سب واقعات کا اثر ہونا تھا۔ شروع میں تو انہوں نے معدے میں درد محسوس کی۔ سب سے پہلے وہ سمجھے کہ پیٹ میں خرابی ہے‘ جو پاکستان میں وارد ہونے والے اکثر مغربیوں کو لاحق ہو جاتی ہے‘ مگر ان کی صحت بگڑتی چلی گئی اور وہ کام پر جانے سے بھی گریز کرنے لگے۔ وہ علاج معالجے کی غرض سے کئی بار ملک سے باہر بھی گئے۔ تب تقرر کے سات ماہ بعد کلٹن نے واشنگٹن میں اپنے ہیڈکوارٹرز کو اطلاع دی کہ وہ اپنا کام جاری رکھنے سے معذور ہیں۔ اس پر انہیں واپس بلا لیا گیا‘ حالانکہ ان کا ''ٹور آف ڈیوٹی‘‘ دو سال کا تھا۔ اب وہ بھلے چنگے ہیں اور قومی سلامتی کے حوالے سے اپنے تجربات قلم بند کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved