تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     21-05-2016

پھر سے لکھیں ایٹمی معاہدہ

ایٹمی سپلائر گروپ کی سالانہ میٹنگ جون میں پھر ہونے والی ہے ۔اس میں یہ مدعا پھر اٹھے گا کہ بھارت کو اس کا ممبر بنایا جائے یا نہیں ؟ اس کی ممبرشپ کا فائدہ یہ ہے کہ جو بھی ملک اس کا ممبر ہوتا ہے ‘اسے ایٹمی تکنیک ‘ایندھن‘ آلات وغیرہ خریدفروخت کی کھلی سہولت مل جاتی ہے ۔اس وقت اس کے 48 ملک ممبر ہیں ‘جن میں پانچوں ویٹو پاور بھی شامل ہیں ۔اس میں وہ چار ملک ممبر نہیں ہیں ‘ جو ایٹمی طاقت سے بھرپور ہیں ۔بھارت ‘پاکستان ‘اسرائیل اور جنوبی سوڈان !اس کاممبر ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے ہوں گے ۔بھارت نے نہ تو اس پر آج تک دستخط کیے ہیں اور نہ ہی کرنے کا اس کا ارادہ ہے۔ چین کہتا ہے کہ بھارت جب تک دستخط نہ کرے ‘تب تک اس میں اس کی شمولیت ناممکن ہے ۔امریکہ کہتا ہے کہ بھارت کو دستخط کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ بھارت ان سب اصولوں کی فرمانبرداری کر رہا ہے جو معاہدے میں لکھے ہوئے ہیں ۔اس لیے امریکہ نے اپنا قانون بدل کر بھارت کے ساتھ 2008 ء میں جوہری سودا کیا تھا۔ چین صاف صاف نہیں بولتا لیکن اس کا مضبوط ارادہ ہے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی اس کا ممبر بنایا جائے ۔
پاکستان کو لے کر کئی دیگر ممبر اور امریکہ بھی پر جوش نہیں ہے‘ کیوں کہ ایٹمی پھیلائو میں پاکستان کے کردار پر اعتراض رہا ۔اس جہاں تک بم بنانے کا سوال ہے ‘ میری اپنی رائے ہے کہ دونوں ہی بے گناہ ہیں ‘کیونکہ دونوں نے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔ دونوں ملکوں نے پانچوںعظیم قوتوں کی ایٹمی داداگیری کو للکارا تھا۔اب اگر دونوں کو ہی سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے دیے جائیں اور ایٹمی طاقت کی شکل میں کرنے دیے جائیں تو اس میں کیا غلط ہے؟ اصلی مدعا یہی ہے۔این پی ٹی معاہدہ کی شرائط کو بدلنا پڑے تو بدلا جائے ۔دوبارہ لکھیں اسے ۔ پانچوں عظیم قوتیںنہیں چاہتی ہیں کہ عظیم طاقتوں کی تعداد پانچ کی بجائے سات ہو جائے ۔ایٹمی سپلائر ملکوں کو بھارت بنا ممبر شپ کے بھی قابل قبول ہے کہ اس سے انہیں اربوں روپیہ کی آمدنی ہوگی لیکن پاکستان تو خود پھٹے حال ہیں۔ اس سے انہیں کیا ملنا ہے ؟وہ ایٹمی بھٹیاں کیا خریدے گا؟ اسے ایف 16 جہاز بھی مفت میں چاہیے۔ پاکستان کی مدد کرنے کے لیے چین کوئی نہ کوئی بہانہ نکال لاتا ہے ۔اسی لیے ایٹمی سپلائرس گروپ میں بھارت کا شامل ہونا فی الحال ذرا مشکل دکھتا ہے ۔
مودی پر سونیا کا پلٹ وار
ایسا لگتا ہے کہ بھاجپا اور مودی سرکار اروندکجری وال کے ہاتھ کا کھلونہ بن کر رہ گئے ہیں ۔کجری وال نے کہا ہے کہ مودی جی آپ کی ڈگریاں جعلی ہیں ۔ہے ہی نہیں ۔ہوتو دکھائو۔مودی نے دکھا دیں۔اپنے دو چہیتوں کو ڈٹا دیا ۔امیت شاہ اور ارون جیٹلی نے دھوبی کے دھلے کپڑوں کی طرح دو چکا چک ڈگریاں دکھا دیں۔ 35 - 40 برس پرانی ڈگریاں ایسی چمک رہی تھیں ‘مانو ابھی ابھی چھپ کر آئی ہوں ۔کجری وال کا پہلا دعویٰ تو یہی تھا ۔اس میں بھاجپا اور سرکار کے دو مضبوط ستون پھنس گئے۔
دوسرے داو ٔ میں خود مودی کو پھنسا لیا ۔کل کیرل کی چناوی تقریر میں مودی نے سونیا گاندھی پر زبردست حملہ بول دیا۔ اروند نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ تم میں دم ہوتو سونیا کو گرفتار کرو تمہاری تو ملی بھگت ہے 3600 کروڑ کے ہیلی کاپٹر سودے میں ۔اسی لیے جس سودے میں کانگریس نے بدعنوانی قبول کی تھی اور جسے رد کر دیا تھا ‘اس کے مجرموں کے خلاف مودی سرکار نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔وہ چادر اوڑھ کر سوتی رہی۔ مودی کو ڈر ہے کہ ان کے کئی کارنامے سونیا کو پتا ہیں ۔اسی لیے مودی ہیلی کاپٹرسودے کے بارے میں سونیا گاندھی کا نام تک نہیں لیتے ۔تو پھر ہوا کیا؟مودی جی بول پڑے ۔کجری وال کی پھسل پٹی پر مودی جی پھسل پڑے ۔
مودی نے اپنی تقریر میں کہہ دیا کہ ہیلی کاپٹر سودے میں رشوت خوروں کے جو نام اجاگر ہوئے ہیں ‘وہ ان کی سرکار نے نہیں کیے ہیں ۔سب کو پتا ہے کہ اٹلی سے کس کے تار جڑے ہوئے ہیں؟ مودی جی نے سونیا کا نام بھی لے لیا ۔ظاہری ہے کہ چناوی جلسہ تھا اور ایسے جلسوں میں اس طرح کی جملہ بازی اکثر ہوتی رہتی ہے لیکن مودی یہ بھول گئے کہ وہ بھارت کے وزیراعظم ہیں ۔وہ بے بنیاد باتیں کرکے اپنی ہی بنیاد کمزور کر رہے ہیں ۔اٹلی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں سونیا گاندھی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا ہے۔ان کے بارے میں ایک عدالت نے اپنا اندازی گھوڑا دوڑایا بھر ہے ۔مودی کی سرکار میں دم ہوتو گزشتہ دو برس میں وہ کوئی ٹھوس ثبوت نکال کرتو دکھاتی ۔اب بھی وہ جانچ کرکے کیوں نہیں دکھاتی؟ اٹلی کی عدالت نے رشوت دینے والوں کو جیل میں ڈال دیا ہے لیکن رشوت خوربھارت میں سر عام گھوم رہے ہیں ۔اس سارے معاملے میں من موہن سرکار سے زیادہ گنہگار مودی سرکار معلوم پڑتی ہے ۔سونیا گاندھی نے جو مودی پر پلٹ وار کیا ہے‘وہ بہت ہی اثردار ہے اس کا اثر دوردور تک ہوگا ۔وہ مودی کو مہنگا پڑے گا۔ مودی نے اگر چوہدری چرن سنگھ جیسی چالاکی دکھلا دی اور سونیا یا راہول کو گرفتار کر لیا تو مان کر چلیے کہ ادھ مری کونگریس کو پھر سے زندہ ہونے کا کریڈٹ مودی کوہی ملے گا ۔
غضب کے آدمی ہیں ‘صادق خان 
لندن کے نئے میئر صادق خان غضب کے آدمی ہیں ۔اس لیے نہیں کہ لندن کے میئر چناؤ وہ جتنے ووٹوں سے جیتے ہیں ‘ان سے پہلے کوئی بھی میئر اتنے ووٹوں سے نہیں جیتا ۔مغربی ممالک کی کسی دارالحکومت کا میئر آج تک کوئی بھی ایشیائی یا کوئی مسلمان نہیں بنا ۔بھارت اور پاکستان ‘دونوں کے لیے فخر کی بات ہے کہ انگریز کی سلطنت پر اب اس کے بیٹے کی حکومت چلے گی۔ صادق دونوں کے بیٹے کیسے ہوئے ؟صادق کے دادا مہاجر تھے یعنی بھارت سے ہی پاکستان گئے تھے ۔صادق کے والدین لندن چلے گئے تھے ‘روزی روٹی کی تلاش میں !والد بس ڈرائیور تھے اور والدہ درزی تھیں ۔میئر بننے کے پہلے صادق میاں رکن پارلیمنٹ تھے۔ وہ لیبر سرکار میں وزیر بھی رہے ۔
یہ سب باتیں عجیب ہیں لیکن ان کی وجہ سے میں نے صادق خان کوغضب کا آدمی نہیں کہا ہے ۔انہیں غضب کا آدمی میں نے اس لیے کہا ہے کہ وہ عقیدہ سے لبریز مسلم ہیں ‘پھر بھی وہ مندروں میں جاتے ہیں ۔اپنے چنائو کے پانچ چھ دن پہلے وہ نیسڈن کے سوامی ناراین مندر میں گئے ۔ وہاں انہوں نے جل چڑھایا۔اس کے فوٹو انٹر نیٹ پر لاکھوں لوگوں نے دیکھے ۔وہ کہتے ہیں کہ‘میں نہ تو مسلم لیڈر ہوں اور نہ ہی مسلمانوں کا لیڈر ہوں ۔میں تو لندن کا میئر ہوں ۔میں لندن میں رہنے والوں کا ترجمان ہوں ۔‘یہ ہوئی غضب کی بات !اسے کہتے ہیں بادشاہی فرض !کیا اتنی ہمت ہمارے بھارت اور پاکستان کے لیڈروں میں ہے‘ جو صادق خان میں ہے ؟صادق خان نے یہ بھی کہا ہے کہ میں بھارت سے لندن کے تعلقات کو گہرا بنائوں گا ۔
اس کے علاوہ صادق خان کا مندر جانا بھی ہوا ۔میرے دوست اور اتراکھنڈ کے سابق گورنر عزیز قریشی حلف لینے کے بعدہری دوار کے کئی مندروں میں گئے تھے۔ انہیں کسی نے نہیں روکا ۔لگ بھگ تیس سال پہلے میںپشاور کے جنگلوں میں مجاہدین لیڈر برہان الدین ربانی صاحب کے خیمہ میں بیٹھا ہوا تھا ۔نماز کاوقت ہو گیا ‘انہوں نے کہا نماز تراویح ہے۔دوگھنٹے کی ہے۔آپ یہیں بیٹھیے۔بعد میں کھانا کھائیں گے ۔میں نے پوچھا‘ وہاں چل کر میں نہیں بیٹھ سکتا ؟ بعد میں وہ ہی کابل میں صدر بنے۔میں خود آریہ سماجی تہذیب میںپلا بڑھا ہوں ۔بت پرستی نہیں کرتا ہوں ۔لیکن مورتیوں پر مالا وغیرہ آئے دن چڑھانی پڑتی ہیں‘کیونکہ اس سے سامنے بیٹھے لوگوں کو تسلی ہو جاتی ہے۔اگر سرسوتی کی مورتی پر کوئی مالا چڑھانے سے منع کریں تو وہ فضول ہی خبر بن جائے ۔لیکن ایک پاکستانی مسلمان لیڈر کسی ہندو مندر میں جاکر جل چڑھائے یہ غضب کی بات نہیں ہے کیا ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved