حکومت اور اپوزیشن پاناما لیکس پر بالآخر مل کر بیٹھ گئے ہیں‘ متفقہ ٹی او آرز دو ہفتوں میں بنانا ہوں گے اور اگر چیف جسٹس نے ان سے اتفاق کیا اور اسی دوران مطلوبہ نیا قانون بھی بن گیا تو کارروائی شروع ہو جائے گی۔ برادرم فاروق ستار نے پتے کی بات تو یہ کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن احتساب کے نام پر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں بلکہ انہیں بے وقوف بنا رہے ہیں جبکہ ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کو بھی ٹی او آر بنانے والی کمیٹی کا ممبر بنایا جائے جس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم بھی عوام کو بیوقوف بنانا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے یہ جماعت خود ہی اپوزیشن کے اتحاد سے نکل گئی تھی۔
یہ بات تو طے ہے کہ حکومت اس معاملے کو جس حد تک بھی ہو سکا‘ لمبا کھینچنے کی کوشش کرے گی اور رفتہ رفتہ اپوزیشن کو قائل کر لے گی کہ اگر احتساب ہو گیا تو سب کا خانہ خراب ہے کیونکہ اس حمام میں سارے کے سارے ہی ننگے ہیں، کوئی کک بیکس میں دھر لیا جائے گا‘ کوئی منی لانڈرنگ ‘ کوئی ٹیکس بچانے‘ الیکشن کمیشن میں غلط بیان کرنے اور کوئی قرضہ ہضم کرنے یا معاف کرانے میں پکڑا جائے گا، جو ایک آدھ پارٹی ان کارستانیوں میں شامل نہیں بھی ہو گی تو وہ اقلیت میں ہو گی اور بے حد کمزور۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اس قدر گھاگ اور خرانٹ واقع ہوئے ہیں کہ کوئی نیا ہی چکّر چلا دیں گے اور احتساب کہیں بیچ میں ہی دھرا رہ جائے گا۔ اصولی بات ہے کہ جہاں سب کو نااہلی‘سزایابی‘ کھایا پیا اُگلنے کی ذلّت اور خواری صاف نظر آ رہی ہو وہاں اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کو کون تیار ہو گا‘ اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ احتساب اور کڑا احتساب ہو کر رہے گا انہیں دماغی امراض کے کسی ماہر کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں کیونکہ یہ لوگ اگر اتنے ہی راست رَو ہوتے تو یہ نوبت ہی کیوں آنے دیتے۔ اب بھی حالت یہ ہے اپوزیشن میں شامل سب سے بڑی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی پیپلز پارٹی دل و جان سے حکومت کے ساتھ ہے اور محض سٹہ بازی میں مصروف ہے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ عمران خان کو بھی شامل کر لیں گے کیونکہ موصوف کی بھی ایک آف شور کمپنی نکل آئی ہے! سو‘ یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ کرپشن میں سر سے پائوں تک ڈوبی ہوئی یہ دو بڑی پارٹیاں ایک دوسری کا احتساب کریں گی اور سارا کھایا پیا اُگلنے پر تیار ہو جائیں گی۔
اوّل تو حسب سابق چیف جسٹس ہی پیش کردہ ٹی او آرز سے اتفاق نہیں کریں گے کیونکہ حکومت اس سے پہلے پیش کیے گئے ٹی او آرز کی طرح پھر اپنے لیے کوئی گنجائش رکھ لے گی کیونکہ سامنے موت کھڑی نظر آ رہی ہو تو جان بچانا سب کے لیے ضروری ہو جاتا ہے جبکہ یہی پارلیمنٹ اور اس کے ارکان اپنے اپنے مفادات کے تحت پہلے بھی وزیر اعظم کو بلکہ اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور حکومت بھی اسی لیے زور دیتی رہی ہے کہ معاملے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے اور اصولی طور پر یہ بات درست بھی تھی لیکن اس سے بھی کون واقف نہیں کہ وہاں کیسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں مسئلے کا صرف ایک حل رہ جاتا ہے کہ چیف جسٹس ٹی او آرز کا بے سود انتظار کرتے رہنے کی بجائے اس معاملے کاسؤو موٹو نوٹس لے کر کام کی ابتدا کردیں کیونکہ ہماری عدلیہ کی تاریخ میں معمولی باتوں پر سؤو موٹو نوٹس لیا جاتا رہا ہے جن میں شراب کی بوتل برآمد ہونے پر بھی سپریم کورٹ کا جنبش میں آ جانا شامل ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ بار جیسے معتبر ادارے نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ چیف جسٹس کو کوئی وقت ضائع کیے بغیر اس معاملے کا سؤو موٹو نوٹس لینا چاہیے‘ پیشتر اس کے کہ صورت حال ہاتھ سے ہی نکل جائے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ عوام، میڈیا، سوشل میڈیا اور آرمی سمیت خود چیف جسٹس بھی احتساب کے زبردست داعی ہیں اور کم و بیش اپنی ہر تقریر میں کرپشن ہی کو ملک کا سب سے بڑا ناسور قرار دیتے رہتے ہیں اور اگر احتساب نہیں چاہتے تو صرف اور صرف سیاستدان ایسا نہیں چاہتے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں جن کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ کبھی چوروں نے بھی چوروں کے ہاتھ کاٹے ہیں؟
باقی رہ گئی فوج‘بلا امتیاز احتساب کا پرچم اس نے بھی سربلند کر رکھا ہے لیکن حکومت اس کا کوئی چارہ نہیں چلنے دے رہی کہ اس کا احتساب تو سب سے پہلے ہونا ہے کیونکہ وزیر اعظم کو اپنے سمیت پورے خاندان کی نااہلی صاف نظر آ رہی ہے بلکہ سب کھائے پیے کی واپسی بھی اور جیل کی بیرک بھی ‘ اور یہی حال اپوزیشن کا بھی ہے۔ فوج مارشل لاء لگانا نہیں چاہتی‘شاید زمینی اور بین الاقوامی حقائق کے پیش نظر یہ اس کے لیے ممکن بھی نہ ہو‘لیکن چونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر وہ خود بیٹھی ہے‘ اس لیے اگر وہ نیب اور ایف آئی اے وغیرہ کا بھی کنٹرول حاصل کر لے تو بھی تھوڑے ہی عرصے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
اور اگر یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ اگر وہ سؤو موٹو نوٹس نہیں لیتے تو اس کا حساب انہیں اللہ میاں کو بھی دینا ہو گا، تو جو کام وہ روٹین میں سر انجام دے سکتے ہیں‘ ان سے انہیں کس نے روکا ہوا ہے اور جن میں اصغر خان کیس سمیت کئی ایسے مقدمات تاخیر اور تعطل کا شکار ہیں‘ نیز جن میں قرضہ معافی وغیرہ جیسے کئی مقدمات بھی طویل حکم امتناعی کی زد میں آئے ہوئے ہیں‘ ان کا فیصلہ تو جلد از جلد کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے بھی بہت سارا کام تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
لہٰذا چیف جسٹس اور آرمی چیف سمیت کسی کو اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے سیاستدانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی مذکورہ بالا کارروائی واقعی احتساب کا کارنامہ سرانجام دینے جا رہی ہے کیونکہ در حقیقت یہ احتساب روکنے کی کارروائی ہے اور جو سب کو نظر آ بھی آ رہا ہے اور یہ اس سنگین مذاق ہی کا ایک تسلسل ہے جو اس بدنصیب ملک اور اس کے کُچلے اور پسے ہوئے عوام کے ساتھ روز اوِل سے روا رکھا جا رہا ہے۔ اور جب پانی سر سے گزر گیا تو بہت سے ایسے لوگ موجود ہوں گے جو پشیمان ہوںگے کہ کاش ہم ہی کچھ کر لیتے!
آج کامطلع
اور بھی وہ تو گرفتارِ مصیبت ہوا تھا
اتنا خوش خوش جو ترے ہاتھ پہ بیعت ہوا تھا