2جنوری 1965ء کوبنیادی جمہوریتوں پر مبنی دستور کے مطابق پاکستان کے صدارتی انتخابات ہوئے ،اُن میںجنابِ ایوب خان اور قائد اعظم کی ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح امید وارتھے ۔اُن انتخابات میں جماعتِ اسلامی نے محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی،اس پرجماعت کے باغی مولانا کوثر نیازی نے اعتراض کیا ،تو مولانا مودودی نے جواب دیا کہ برسبیلِ تنزُّل ہم کم تر برائی کو اختیار کر رہے ہیں،یعنی آمریت پرجمہوریت کو ترجیح دے رہے ہیں۔بعد میں ہماری سیاست میں جب محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا تقابل آیا،تو پھر بعض لوگوں نے اسی اصول پر جناب محمد نواز شریف کو کم تر برائی قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کا جواز پیش کیا ۔اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ ہمیں اپنی سیاسی قیادت کے اثاثے میں خیرِکل یا خیرِ غالب ابھی تک دستیاب نہیں ہے اور یہ قوم کی بدقسمتی ہے۔
بعد میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے سیاسی وارث کے طور پر جنابِ آصف علی زرداری ہمارے سیاسی منظرنامے پر نمودار ہوئے اور اب اُن کے ساتھ اِس وراثت میں اُن کے صاحبزادے جنابِ بلاول بھٹو زرداری بھی شریک ہیں، کیونکہ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کے نسبی وارث سیاست کے میدان میں موجود نہیں ہیں ۔کرپشن کے الزام کے سبب پیپلز پارٹی کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا،اس کے باوجود صوبۂ سندھ کی حکومت ، وفاق میں حزبِ اختلاف کی قیادت اورہماری دو ایوانی مُقَنِّنَہ کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کا کنٹرول تاحال اُن کے پاس ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے جنابِ عمران خان ہمارے سیاسی منظر نامے پرایک توانا آواز بن کر نمودار ہوئے اور ہمارے اکثر اہلِ قلم اور نوجوان طبقے نے انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا ۔ تمام اہلِ فکر ونظر کی خواہش ہے کہ ہمیں ایک متبادل قیادت دستیاب ہو ،جو پہلے سے موجود تہمت زدہ قیادت کے لیے ایک توانا چیلنج بن کر سامنے آئے اور اس کے دامن پراخلاقی اور مالی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو۔ظاہر ہے کہ جو قیادت ابھی اقتدار میں نہیں آئی ،وہ کم از کم مالی بدعنوانی کے حوالے سے اپنی پارسائی کا دعویٰ کسی حد تک کرسکتی ہے ۔ جنابِ عمران خان نے 2013ء کے قومی انتخابات میں قابلِ ذکرکامیابی حاصل کی اوروہ جماعتِ اسلامی کے اشتراک کے ساتھ خیبر پختونخوامیں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ۔ لیکن وہ بدستوروفاق میں لیلائے اقتدار کے وصال سے محروم ہیںاور ایک طرح سے قنوطیت کا شکار ہیں ۔وہ علامہ محمد اقبال کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں ،انہوں نے تو عقابی صفت جوانوں کو اپنے اہداف ہمالیہ سے بھی بلند رکھنے کی ترغیب دی ہے : ؎
تو رہ نوردِ شوق ہے،منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہوتو محمل نہ کر قبول
لیکن وہ بھی بشری کمزوریوں سے ماورانہیں ہیں اور بلند وبالا خواہشات پالنا اُن کا بہترین مشغلہ ہے ۔سیاست عزیمت و استقامت اور جُہدِ مسلسل کا نام ہے اوراس میں بعض اوقات نامطلوب انتظار کے صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے ، لیکن جنابِ عمران خان کی بے قراری کا منظر قابلِ دید ہے ۔ وہ دستیاب جمہوری نظام کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے 2018ء کے انتخابات تک انتظار کے روادار نہیں،سو وہ کسی غیبی نُصرت کے منتظر ہیں ۔ اضطراب کی اسی کیفیت نے انہیں سیماب صفت بنادیا ہے۔ان کی تمام تر تگ وتازکا مرکز پنجاب ہے ،کیونکہ تختِ اسلام آباد کی کنجی پنجاب کے پاس ہے۔کبھی وہ اپنے آپ کو پورے ملک کے لیے متبادل قائد کے طور پر پیش کرتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اپنے نشانے پر رکھتے ہیں اور کبھی پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے برداشت کا کوئی گوشہ نکال لیتے ہیں کہ ان سب کی مدد سے جنابِ نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار کردیا جائے ۔جنابِ نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ کی مَسند چھنتی ہے یا نہیں،یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، لیکن بہت سے اہلِ نظر کا وجدان یہ کہتا ہے کہ ایسی صورت میں اس منصبِ جلیلہ کا جنابِ خان کے حصے میں آنا بظاہر ممکن نہیں۔
انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ قائدین ان کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار،سردوگرم چشیدہ اور سیاسی دائو پیچ کے ماہر ہیںاور کسی حد تک ابتلاکے مراحل سے بھی گزرے ہوئے ہیں۔ جنابِ شیخ رشید احمد کی برسوں کی تمنا پوری ہوئی اور انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جناب عمران خان کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر ہنگامہ برپا کرنے پر آمادہ کیا ۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کچھ قرض چکانے اور میاں صاحب کو سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھی،سو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹاوالی بات ہوگئی،پس دونوں کامنفی مقصدکے لیے عارضی اتحادہوگیا،لیکن بظاہر پیپلز پارٹی کا ہدف مختلف ہے اور وہ سیاسی نظام کو پٹڑی سے اتارنے کے حق میں نہیں۔17مئی کی شب جنابِ خورشید شاہ کے انٹرویو سے اس بات کی توثیق ہوگئی ،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک تجربہ کارسیاست دان ہیں ۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 16مئی کو پارلیمنٹ سے باہر پریس سے گفتگو میں جنابِ عمران خان کوقائدِ حزبِ اختلاف جنابِ خورشید شاہ کے پیچھے لوپروفائل میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا،حالانکہ اس سے پہلے وہ صرف اپنے آپ کو وزیرِ اعظم کا حریف اور حزبِ اختلاف کا واحد رہنما سمجھتے تھے اوردوسروں پر مک مکااور بکائو مال ہونے کی پھبتی کستے تھے ۔اسی لیے تو کہتے ہیں کہ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔اپنے پتوں کو مہارت کے ساتھ کھیلنے کا فن کوئی جناب آصف علی زرداری سے سیکھے ،وہ مشکل حالات میں بھی اپنے پتے مہارت کے ساتھ کھیلتے ہیں اور ایک آدھ بار کے استثناکے سوا وہ بالعموم مغلوب الغضب نہیں ہوتے؛چنانچہ موجودہ سیاسی تنائو کے سب سے بہترین فائدہ اٹھانے والے جنابِ آصف علی زرداری ہیں ۔
انہوں نے سیاست میں اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے سینیٹر اعتزاز احسن کو متحرک کیااورجمہوری سیٹ اپ کے تحفظ اورتسلسل کویقینی بنانے کے لیے چیئرمین سینیٹ جنابِ رضا ربانی کو فرنٹ فُٹ پرلے آئے ۔اگلے دن ٹیلی ویژن پراُن کے ٹِکر چل رہے تھے کہ ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت قابلِ قبول نہیں ہے ، آرٹیکل 6دستور کے تحفظ میں ناکام ہوچکا ہے ،اب اٹھارہ کروڑ عوام دستور کا تحفظ کریں گے۔اس پیغام کے معنی یہ ہیں کہ کسی غیر آئینی تبدیلی کی عوامی سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔ اس کے برعکس جنابِ عمران خان کے سیاسی اثاثے میں ایک فرد بھی ایسا نہیں جو کبھی ابتلا کے دور سے گزرا ہو،انہیں صرف اچھے خواب دیکھنے اور بلند وبالا تعبیریں پانے کی آرزوبے تاب کیے ہوئے ہے ۔انہیں اپنے تضادات کا ادراک بھی نہیں ہے،ان میں مثبت اور تعمیری تنقید سننے اور برداشت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں ان کے نزدیک ان کے طرزسیاست سے اختلاف کرنے والا بکائو مال ، قابلِ فروخت جنس اورشریفانِ اقتدارکا زر خرید ہے۔ ممکن ہے کہ بعض افراد ایسے ہوں،لیکن سب ایسے نہیں ہوتے اور قطعی ثبوت یا قوی قرائن کے بغیر کسی کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں ہے ۔
الغرض جناب عمران خان کی سیاست میں ناکامی قومی المیہ ہوگا۔ ان کی عجلت پسندی کا شاہکار وہ ٹویٹ ہے ،جو انہوں نے جناب نواز شریف کی پرائیویٹ رہائش گاہ مری ہائوس کی تعمیر ومرمت پر قومی خزانے سے 43کروڑ خرچ کرنے کی بابت کیا۔ ان کی عمرے سے واپسی پرشاید ایئر پورٹ پر ہی شیخ صاحب نے یہ انمول خبراُنہیں پہنچائی ہو۔اس پر حکومت کی تردید آگئی، اگر تردید درست تھی تو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں ،انہیں اپنے دعوے سے رجوع کرلینا چاہیے تھا،لیکن ایسا نہ ہوا اور ٹیلیویژن چینلز نے یہ ناٹک اگلی صبح تک رچائے رکھا ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے سیاسی اجتماعات کو تو وہ پٹواریوں اور تھانیداروں کا مجمع قرار دیتے ہیں۔ہوسکتا ہے ان کا یہ دعویٰ درست ہو، لیکن پشاوراور بنوں میں ان کے جلسے تو ان کے جاں نثاروں کے تھے، عوام سے یکے بعد دیگرے تین سوالات کے جوابات پر سکوت اور بے حسی نے اُن کے ساتھ عوام کی جذباتی وابستگی کی نفی کردی اور اس کی مزید توثیق پشاور کے ضمنی انتخاب کے نتیجے سے ہوگئی۔ہماری سیاست میں یہ ملکہ صرف جناب ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل تھا ۔ بہتر ہوتا کہ صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے وہ اپنا وقار دائو پر نہ لگاتے،کیونکہ دوسری جماعتوں کے قائدین نے اس کے لیے بڑا جلسہ نہیں کیا۔
نہ جانے کس سیاسی فلسفی نے انہیں یہ باور کرارکھا ہے کہ عوام کو سڑکوں اور میٹرو کی ضرورت نہیں ہے ،پیسہ عوام پر لگنا چاہیے۔ کیا سڑکوں کو فرشتے اور جنات استعمال کرتے ہیں؟ جناب خان معلوم کریں کہ پاکستان میں کتنے ملین گاڑیاں سڑکوں پر ہیں اور ہر ماہ ان میں کتنا اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے ہیرو مہاتیر محمد نے تو انفراسٹرکچر سے ہی اپنے ملک کی ترقی کا آغاز کیا تھا۔ میں جب کراچی میں چالیس سال پرانی کھٹارا مزدا بسوں میں عوام کوبھیڑ بکریوں کی طرح ٹھسے ہوئے اور چھتوں پر بیٹھے ہوئے سردیوں کی ٹھنڈی ہوائوں اور گرمی کی لُوکے تھپیڑوں کامقابلہ کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ،تو میرے دل میں اِک ہُوک سی اٹھتی ہے کہ کاش میرے شہر کے عوام کو بھی کسی میٹرو ٹائپ ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت میسر ہو۔شاید کسی نے جنابِ خان کو بتایا ہوگا کہ میٹرو بسوں میں غریب عوام نہیں بلکہ کروڑ پتی ،ارب پتی اور کھرب پتی اشرافیہ کے لوگ سفر کرتے ہیں۔
آج اگر موٹروے نہ ہوتی تو لاہور سے راولپنڈی تک جی ٹی روڈ سے سفر آٹھ گھنٹے میں بھی طے کرنا ناقابلِ تصور ہوتا ۔ قرائن وشواہد کے ساتھ کرپشن کو ہدف بنانا ایک سو ایک فیصد درست بلکہ مطلوب ہے،لیکن اس کی آڑ میں عوامی فلاح کے منصوبوں کو ہدف بنانا سیاست سے نابلد ہونے کی دلیل ہے ۔پس اب بھی فرصت باقی ہے ،جنابِ خان اگر اپنی حکمتِ عملی اورترجیحات پر نظرِ ثانی کریں۔ کثیر سرمائے سے بڑے بڑے جلسے کرنے کامشغلہ انتخاب تک موقوف رکھیں۔ ہم غیر سیاسی لوگ ہیں ،لیکن ہمارے فہم کے مطابق کروڑہا روپے کا زرِ کثیر صَرف کر کے اور ملک بھر سے لوگوں کو لاکر مجمع بنانا الیکشن کے نتائج کا عکاس ہرگز نہیں ۔ساٹھ ستّر کے عشرے تک یقینا بڑے مجمعے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا ایک پیمانہ تھے،کیونکہ اس دور میں صرف قرب وجوار کے لوگ پیدل یاموٹر سائیکلوں ، سائیکلوں اور بیل گاڑیوں پربھی اپنی آدرش سے چل کر آتے تھے ۔یہ منظر ہم نے بحریہ ٹائون کی گرینڈ مسجد میں جمعہ کی نمازپڑھانے کے موقع پر دیکھا تھا کہ لوگ اپنے وسائل سے بے اختیار چل کر آئے ،کسی نے اس کے لیے کوئی سرمایہ خرچ نہیں کیا اورمیڈیا کی رپورٹس کے مطابق یہ مجمع تین سے پانچ لاکھ کے درمیان تھا۔
نوٹ:یہ کالم گزشتہ منگل کی صبح لکھا گیا۔