وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر صوبہ بدری کا حکم ملنے پر ڈی پی اوشارق کمال صدیقی کا قافلہ جیسے ہی بہاولنگر کی حدود سے باہر نکلنے لگا، آخری ناکے پر پولیس اور شہریوں کی کثیر تعداد انہیں خراج تحسین پیش کرنے اور پرجوش انداز سے الوداع کہنے کے لئے سخت گرمی کے با وجود کھڑی تھی۔ جونہی شارق کمال وہاں پہنچے ان پر اور ان کی گاڑی پر بھر پورگل پاشی کی گئی۔ یہ منظر سب لوگوں کے علاوہ ایک اہلکار کی گود میں موجود شارق کمال کی دو تین سال کی معصوم بچی کے لئے حیران کن تھا۔ بچی دیکھ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے۔۔۔۔ میرے اور میرے پاپا پر گلاب کے پھولوں کی پتیاںکیوں نچھاور کی جا رہی ہیں۔۔۔۔ میرے پاپا کا نام لے کر لوگ کیوں زور زور سے پر جوش نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔۔ ہر ایک کی یہ کوشش کیوں ہے کہ میرے پاپا سے گلے ملے اور ان سے ہاتھ ملائے؟ یہ مناظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیے۔ آج یہ مناظر اس ننھی سی جان کی سمجھ میں نہیں آئے ہوںگے، لیکن جب اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت خاص سے یہ بچی شعور کی عمر کو پہنچے گی تو اس کا سر فخر سے بلند ہوگا کہ وہ ایک عظیم باپ کی بیٹی ہے۔۔۔۔ وہ باپ جس نے پنجاب بدری کا پروانہ تو تھام لیا لیکن اپنے اجداد کے خون کو قانون شکن رکن قومی اسمبلی کے قدموں کے سامنے ڈھیرکرنا قبول نہ کیا۔
اگر شارق صدیقی مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی کے
ڈیرے پر جا کر اس کے ملازمین اور علاقے کے چھوٹے چھوٹے چودھریوں کی موجودگی میں اپنے''کئے‘‘کی معافی مانگ لیتے تو ان کی پوسٹنگ تو برقرار رہ جاتی لیکن بہاولنگر اور عوام کی نظروں میں ان کی کوئی وقعت نہ رہتی۔ چند برس قبل میں نے قصورکا ایک ایسا ڈی پی او بھی دیکھا تھا جسے ضلعے کے ایک طاقتور خاندان کے رکن قومی اسمبلی نے اپنے بندے نہ چھوڑنے پرگالیاں دیں تو وہ فون پر سر سر کہتا ہوا یہ مغلظات سنتا رہا۔اس کے انعام میں وہ کئی اضلاع کی سربراہی سے لطف اندوز ہوتا رہا کیونکہ پنجاب حکومت جان گئی تھی کہ یہ گالیاں سن کر بھی ہمارے پیچھے دم ہلاتا رہے گا۔ ایسی نوکری اوراس کے کندھے پر سجے ہوئے بارعب رینکس پر کیا تبصرہ کیا جائے کہ وہ ایک جرائم پیشہ سے گالیاں کھا کر بھی بد مزہ نہ ہوا۔
شارق کمال صدیقی بھی اگر رکن قومی اسمبلی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا، اس کی گالیاں سن کر سر جھکائے جناب جناب کہتا رہتا تو پولیس فورس کی نظروں میں اس کی کیا عزت رہتی؟ مجھے سب سے زیا دہ حیرت اور شرم اس بات پر محسوس ہوئی کہ صوبے کے پولیس سربراہ نے کیسے گوارا کیا کہ وہ اپنے ضلعی پولیس افسر کو ایک ایسے شخص کے آگے جھکتے دیکھے جس نے ان باوردی کانسٹیبلوں کو مارا پیٹا بھی تھا۔ لگتا ہے وزیر اعظم اور آئی جی کی نظر میں ڈی پی او اور کانسٹیبل پاکستان کے آئین اور قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ پنجاب پولیس کا ریکارڈ دیکھیں تو اس کی فائلوں میں دس ہزار سے زیادہ ایسے مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہو چکے ہیں جن میں ملزموں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں کی وردی پھا ڑ دی۔ کسی عام آدمی یا سیا سی مخالفین پر تو پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑنے کے بے بنیاد مقدمات قائم ہو جاتے ہیں، لیکن بہاولنگر میں ایک رکن قومی اسمبلی کا گن مین پولیس اہلکاروں کو مارتے ہوئے ان کی وردیاں پھاڑ دے تو اسے سزا دینے کی بجائے ضلعی پولیس افسرکو ہی نشان عبرت بنانے کا حکم صادر ہوتا ہے۔کس قانون میں لکھا ہے کہ کسی طاقتور کے ملازم کو کسی جرم میں گرفتار کرنے کی بجائے اسے سلیوٹ کرتے ہوئے عزت اور احترام کے ساتھ اس کے گھر پہنچایا جائے؟
لوگ جنرل مشرف پر تو آئین کے آرٹیکل6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلاتے ہوئے اشتہاری قرار دلوا کر بہت خوش ہو رہے ہیں، لیکن اسی آئین اور قانون کی عملداری قائم کرنے والے ضلعی پولیس افسر کو کس منہ سے ایک رکن قومی اسمبلی کے آگے جھکنے کی نصیحت فرما رہے ہیں! ابھی تو قوم کے بہادر سپوت ایس ایس پی اسلام آباد محمد علی نیکو کارا کو حکمرانوں کی طرف سے لگائے گئے زخم نہیں بھرے تھے کہ انہوں نے اپنے ڈولتے ہوئے اقتدار کو سہارا دینے کے لئے قانون کے ایک بہادر رکھوالے کو رکن قومی اسمبلی کے سامنے تماشا بنانے کی حرکت کر دی۔ شاید حکمرانوں کو اپنے سابق دور اقتدار کا وہ واقعہ بھول گیا ہے جب اسی طرح کے ایک رکن قومی اسمبلی کی شکایت پر فیصل آباد کے ایک سینئر افسرکو اپنی بھری کچہری میں ہتھکڑیاں لگوانے کے بعد سرکاری ٹی وی چینل پر یہ شرمناک منظر دکھایا گیا تھا۔ اللہ جانے اس بوڑھے افسر کے خاندان پر کیا گزری ہو گی جب انہوں نے ان کو ہتھکڑیوں میں جکڑا پوری قوم کے سامنے تماشا بنتے دیکھا ہوگا۔ اس وقت اس کی بیٹی کے اندر سے کوئی فریاد یا اس کی ماں کے لبوں سے آہ نکلی جو آسمان تک جا پہنچی اور پھر سب نے دیکھا کہ جنرل مشرف کے حکم پر حکمرانوں کو ہتھکڑیاں لگا دی گئیں۔ حکمرانوں کا فعل اچھا تھا نہ جنرل مشرف کا لیکن خدا کی قدرت بھی تو ہوتی ہے جو اپنے بندوں کو ظلم سے روکنے کی مثالیں کھول کھول کر اپنے بندوں کو دکھاتی ہے۔
توقع تھی کہ سات سال جلاوطن رہنے اور تکلیفیں سہنے کے بعد بہت کچھ سیکھ لیا ہوگا لیکن لگتا ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ شارق کمال صدیقی کی صوبہ بدری کو یاد رکھیے اور انصاف کے وقت کا انتظار کیجیے! شارق کمال صدیقی اپنے انکار سے امر ہو گیا۔ ملک اور بیرون ملک ہر پاکستانی کی نظر میں شارق کمال صدیقی ہیرو بن گیا ہے لیکن ایک رکن قومی اسمبلی کی سرپرستی کرنے والے ولن کی صورت اختیارکرگئے ہیں۔ جگہ جگہ شارق کمال کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے جبکہ حکمرانوں کو جن القابات سے نوازا جا رہا ہے قلم انہیں رقم کرنے سے شرما رہا ہے! کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوئی!