کرامت غوری لکھتے ہیں ''ذوالفقار علی بھٹو کی شہرت ان کی خارجہ پالیسی میں مہارت کے حوالے سے تھی اور غلط بھی نہیں تھی۔ وہ بہت پڑھے لکھے اور زیرک انسان تھے۔ بلا کے ذہین ہونے کے علاوہ انہیں مبدائے فیض نے لسان و قلم دونوں میں کمال فیاضی سے نوازا تھا۔ وہ جتنا خوبصورت لکھتے تھے۔ ویسی ہی بلاغت اور فصاحت ان کی زبان اور تقریر میں تھی۔ یہ صفات ایک ہی انسان میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں اور ان کے بین الاقوامی شہرت کو چار چاند لگانے میں ان کی یہ صلاحیتیں بدرجہ اتم ان کے کام آئیں۔ لیکن اس کے باوجود کہ دفتر خارجہ نے انہیں بین الاقوامی سطح پر ایک بطل جلیل یا آج کی مستعمل اصطلاح میں اسٹار (Star) بنانے میں ہر سطح سے ان کی مدد کی تھی‘ انہیں فارن سروس اور اس کے اہلکاروں سے نہ جانے کیوں اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اس کے زیر اثر انہوں نے فارن سروس جیسی اعلیٰ اور چنیدہ Service کو ہر طریقہ سے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ فارن سروس کے Mandarins سے برملا انتقام لینے کا ایک طریقہ تو انہوں نے یہ ایجاد کیا کہ وہ سروس جس میں ایک انتہائی سخت مقابلے کے بعد پاکستان کے اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ نوجوانوں کے بہترین دماغ منتخب کئے جاتے تھے‘ بھٹو نے اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کے لئے ہر للو پنجو اور ایرے غیرے کے لئے کھول دی۔‘‘
''بھٹو کی ایجاد اور اختراع فارن سروس میں داخل ہونے کے لیے ایک متوازی راستہ تھا‘ جسے Lateral Entry کا نام دیا گیا اور جس کے تحت لوگوں کو بلا مقابلہ محض سیاسی بنیادوں پر فارن سروس میں بھرتی کیا گیا۔ بلاشبہ اس سکیم کے تحت کچھ اچھے اور قابل لوگ بھی فارن سروس میں شامل ہوئے جو باصلاحیت تھے‘ لیکن فارن سروس میں داخلے کے لئے عمر کی جو حدود اور قیود تھیں وہ ان سے تجاوز کر چکے تھے۔‘‘
''اس میں کوئی کلام نہیں کہ بھٹو نے فارن سروس میں اپنے بندے‘ چور دروازے سے داخل کرنے کی جو بدعت شروع کی تھی اس کی دیکھا دیکھی ضیاء الحق نے بھی اپنے بندوں کو اس نعمت غیر مترقبہ سے نوازا۔ لیکن یہ کام انہوں نے بہت محدود پیمانے پر کیا۔ بھٹو کی طرح فارن سروس کے ہر درجہ اور طبقے میں اپنی کالی بھیڑیں نہیں گھسائیں۔ نااہلوں کے ریوڑ کے ریوڑ بیرون ملک سفارت خانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے نہیں بھیجے۔ ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کالی بھیڑوں میں ایک حد تک کانٹ چھانٹ کی اور تطہیر کے اس عمل کے نتیجے میں بہتری کی کچھ صورت نکلی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طرح نکالے جانے والوں میں سے بہت سے چند ماہ بعد پھر سے اپنی ملازمتوں پر واپس آ گئے یا تو اس وجہ سے کہ ان کا ریکارڈ زیادہ داغدار نہیں تھا یا ان کے ُمربیوّں اور سرپرستوں نے درپردہ ضیاء الحق سے گٹھ جوڑ کر لیا تھا اور وفاداریاں ان کے حق میں تبدیل کر لی تھیں۔ ہمارے ہاں سیاست میں تھالی کے بینگن یا عرف عام میں سیاسی لوٹے تو ہر دور میں اپنی صلاحیت کا لوہا منواتے رہے ہیں۔ لیکن ضیاء الحق میں بھٹو کی طرح فارن سروس کے خلاف انتقام کا کوئی جذبہ یا محرک نہ تھا۔ اس کے برعکس ہم جیسوں کے لیے ان کے ہاں ترحّم اور ہمدردی کا غالب عنصر موجود تھا۔ شاید اس کا سبب یہ رہا ہو کہ وہ جب بریگیڈیئر تھے تو ان کی خدمات حکومت اردن کو سونپ دی گئی تھیں۔ لہٰذا اپنے اردن کے قیام کے دوران ان کا ہمارے سفارت خانے سے بہت قریبی تعلق رہا۔ وہ عمان کے سفارت خانے میں ملٹری اتاشی بھی تھے۔ سو اس تعلق سے ان کا فارن سروس اور دفتر خارجہ سے رات دن کا واسطہ تھا۔ لوگ کہا کرتے تھے لوگ کیا ہمارے اپنے ساتھی جن سے ان کی اس زمانے میں اچھی یاد اللہ تھی‘ دوستی تھی اور اس دوستی کا صلہ انہوں نے ضیاء الحق کے دور اقتدار میں بقول شخصے دودھ کی بالائی وافر مقدار میں کھا کر پایا کہ اردن میں اس وقت کے سفیر نواب راحت چھتاری نے انہیں بالکل منہ نہ لگایا تھا لیکن اس بدسلوکی کا بدلہ انہوں نے نہیں لیا‘ جو اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ بھٹو کی طرح وہ بھی منتقم مزاج تھے۔
فارن سروس کے ''برہمنوں‘‘ نے بھی ان کے حسن سلوک کا جواب بھرپور تعاون سے دیا اور ضیاء الحق کو دنیا میں متعارف کرانے اور انہیں بین الاقوامی بساط سیاست پر فعال بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ورنہ یہ حقیقت ہے کہ 5 جولائی 1977ء کو جب انہوں نے بھٹو کا تختہ الٹ کر زمام اقتدار سنبھالی تو وہ خارجہ امور کے میدان میں بالکل ہی مبتدی تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے رہنمائوں کی طرح جو یہ سمجھتے تھے کہ اقتدار کی مسند پر فائز ہونے کے ساتھ ہی وہ بین الاقوامی امور اور خارجہ تعلقات کے بھی کہنہ مشق ماہر ہو گئے ہیں‘ ضیا الحق نے نہ اپنی مہارت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی ہم ''برہمنوں‘‘ کو حقارت اور ذلت کی نظر سے دیکھا۔ اس کے برعکس ان کے اندر جو ایک فطری کسر نفسی کا عنصر تھا اس نے انہیں خارجہ امور کے میدان میں اپنی بے بضاعتی کا برملا اظہار کرنے سے مانع نہیں رکھا۔ ‘‘
''مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے بلاشرکت غیرے مالک و مختار ہونے کے بعد خارجہ پالیسی کے میدان میں ان کی توجہ سب سے پہلے اس مصالحتی عمل کی طرف مبذول ہوئی جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں افغانستان کے ساتھ شروع ہوا تھا اور گزشتہ دو سال وسط 1975ء سے 1977ء کے نصف اول تک ارتقا کے عمل سے گزر کر بہت آگے بڑھ چکا تھا۔ ضیاء الحق نے اس سلسلے کو ترک نہیں کیا بلکہ اسے اپنی فوری توجہ اور ترجیح کا مستحق قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے بیرون ملک اپنا پہلا دورہ افغانستان کا ہی کیا۔ اس دورے میں‘ میں ان کے ہمراہ تھا کیونکہ گزشتہ تین برس سے میں دفتر خارجہ میں افغانستان کے ڈائریکٹریٹ کا انچارج تھا اور مصالحتی مشن کے ہر مرحلے سے کماحقہ وابستہ رہا تھا۔ ایک اعتبار سے کلیدی رکن یوں تھا کہ بحیثیت ڈائریکٹر افغانستان ہر فائل میری تحویل میں رہا کرتی تھی۔‘‘
''صدر ضیاء الحق تو ایک Executive Jet طیارے کے ذریعے کابل پرواز کر گئے تھے جس میں دس بارہ افراد سے زیادہ کی گنجائش نہیں تھی۔ سو ان کا ذاتی عملہ اور ایک دو وزیر ہی ان کے ہمراہ اس طیارے میں تھے۔ بقیہ افراد جن میں دفتر خارجہ کے متعلقہ برہمن اور سیکرٹری خارجہ تھے‘ پی آئی اے کے ایک خصوصی طیارے میں عازم سفر ہوئے۔ سفر کے دوران میں نے دیکھا کہ اگلی نشستوں پر ایک نوجوان یکہ و تنہا بیٹھا تھا نہ وہ کسی سے بات کر رہا تھا اور نہ ہی کوئی اس سے‘ میرے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہ ضیاء الحق کے بڑے صاحبزادے اعجاز الحق ہیں۔ لیکن سفر کے دوران بھی اور کابل میں وفد کے دو روزہ قیام کے دوران بھی نہ صرف یہ کہ اعجاز الحق نے خود نمائی کی کوشش نہیں کی‘ صدر کی جانب سے بھی کوئی ایسا اشارہ یا حکم نہیں ملا کہ انہیں کوئی نمایاں مقام یا اہمیت دی جائے‘ بس وہ ایسے ہی الگ تھلگ رہے جیسے کوئی غیر متعلقہ فرد ہوتا ہے۔‘‘
''سفر کے دوران ہمارے چیف آف پروٹوکول کرنل اسماعیل جو بھٹو کے چہیتے تھے‘ لیکن ضیاء الحق نے انہیں فوجی ہونے کے ناطے ان کی جگہ پر برقرار رکھا تھا‘ پورے وقت اس سفر کا موازنہ اس سفر سے کرتے رہے‘ جو ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ دو سال قبل کیا گیا تھا۔ کہتے رہے اور افسوس بلکہ گلہ کرتے رہے کہ دیکھو کیسا زوال ہے۔ بھٹو کے اقتدار میں ہم لوگ بڑے جیٹ طیارے میں سفر کر رہے تھے۔ اس بار یہ دقیانوسی ہچکولے کھاتا ہوا فوکر فرینڈ شپ کا چھکڑا ہے۔ ضیاء الحق کو احساس تھا کہ خارجہ امور میں درک اور دسترس حاصل کرنے کے لیے دفتر خارجہ کے برہمنوں کو ان کا جائز مقام دینا ان کے اپنے حق میں بہتر تھا۔ ویسے بھی ان میں جو کسر نفسی اور نرم خوئی کی صفت تھی‘ اس نے ان کی اس امر میں بہت مدد کی۔ دفتر خارجہ کو ان سے یہ گلہ تو ضرور تھا کہ بھٹو کی طرح انہوں نے بہت سی سفارتیں خصوصاً اچھی اور آرام دہ جگہوں پر اپنے فوجی دوستوں اور رفیقوں میں تقسیم کیں (بھٹو نے یہ بندر بانٹ اپنی پسند کے سیاسی حلیفوں اور رفیقوں کے حلقے میں کی تھی) لیکن بھٹو کے برعکس انہوں نے برہمنوں کی بے وقعتی اور تذلیل کو شعار نہیں بنایا۔‘‘