دنیائے اسلام میں پاکستان پہلا ملک تھا، جس نے ''عوامی جمہوریہ چین‘‘ کو تسلیم کیا، جس نے اس زندہ حقیقت کا اعتراف کیا کہ چین کی نام نہاد قوم پرست حکومت چیانگ کائی شیک کی قیادت میں شکست کھا کر ایک چھوٹے سے جزیرے میں قید ہو چکی ہے اور پچانوے لاکھ کلومیٹر رقبے پر چیئرمین مائوزے تنگ کی قیادت میں سرخ فوج قبضہ کرکے انقلاب کا پرچم لہرا چکی ہے۔ امریکہ اور دوسری مغربی طاقتیں یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہ تھیں، وہ فارموسا (تائیوان) میں پناہ گزین حکومت کو چین کا اصلی حکمران قرار دینے پر مصر تھیں اور ''باغی کمیونسٹوں‘‘ کے ساتھ وہی کچھ کرنے کی تمنا رکھتی تھیں جو تاریخ میں کیا جاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں پانچ ویٹو ممالک میں چین شامل تھا، لیکن اس کی نمائندگی کا حق چیانگ کائی شیک کو دے دیا گیا تھا۔ عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ تائیوان میں قائم حکومت کو ''ڈی ریکگنائز‘‘ کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی ملک دونوں حکومتوں کو تسلیم کرنے کی کوشش کرتا تو یہ چین کو گوارا نہیں تھا۔ کمیونسٹ حکومت کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ چین کی نمائندگی کا حق اس کو حاصل ہے اور سکیورٹی کونسل میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کا حق اسے ملنا چاہیے... باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے۔
پاکستان اس وقت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا تھا کہ یہ پہلے دن ہی سے اس پرمسلط کر دی گئی تھی۔ اگست 1947ء میں آزادی کا سورج (برصغیر پاک و ہند پر) طلوع ہوا تو اسلام کے نطفے اور انڈیا کی کوکھ سے ایک نیا آزاد ملک جنم لے چکا تھا، جس کا نام پاکستان تھا۔ انڈیا کو مسلم اور ہندو اکثریت کے منطقوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دونوں قوموں کی نمائندہ سیاسی جماعتوں... آل انڈیا نیشنل کانگرس اور مسلم لیگ... نے باہمی اتفاق سے کیا تھا۔ غیر ملکی حکمران برطانیہ کا وائسرائے بھی اس میں شریک تھا، ایک سہ فریقی معاہدے نے بھارت اور پاکستان کے نام سے دو ریاستیں قائم کی تھیں لیکن بھارتی قیادت نے اول روز ہی سے اپنے دستخط شدہ معاہدے کی تغلیط شروع کر دی۔ پاکستان کے حصے کے فنڈ اور اسلحہ روک لیا گیا۔ نیم خود مختار ریاستوں کو آزادانہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جو حق دیا گیا تھا، اسے (عملاً) تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ پاکستان میں ان کی شرکت کو ناممکن بنانے کے لئے جارحانہ اقدامات شروع کر دیئے گئے۔ کوشش یہ نظر آتی تھی کہ نئی مسلمان مملکت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی گرا دیا جائے، پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی معاونت درکار تھی، لیکن ہمارے ہمسایے کے پاس ہمارے لئے مخاصمت کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو، دور و نزدیک دوستوں کی تلاش شروع کر دی گئی۔ سوویت یونین بھارت کی ناراضی مول لے کر پاکستان سے تعاون کو گہرا کرنے پر تیار نہ تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف پاکستان کی نظریں اٹھی ہوئی تھیں۔ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورئہ امریکہ نے دور رس تعاون کی راہ ہموار کر دی تھی کہ چین کا چیلنج درپیش ہو گیا۔ پاکستان نے کسی دبائو (یا لالچ) میں آئے بغیر اپنا ہاتھ چین کے ہاتھ میں دے دیا۔ یا یہ کہہ لیجئے کہ آگے بڑھ کر چین کا ہاتھ تھام لیا۔ 21مئی 1951ء کو اعلان کر دیا کہ چین کی جائز اور قانونی حکومت وہی ہے، جس کی قیادت چیئرمین مائوزے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی کے پاس ہے۔
یہ فیصلہ جو پاکستان کے سب سے پہلے وزیراعظم نے کیا تھا، ایسی بنیاد فراہم کر گیا جس پر پاک چین دوستی کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔ ایک ایسے رشتے نے جنم لیا جو بین الاقوامی تعلقات میں اپنی مثال آپ ہے۔ پہاڑوں سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی دوستی۔
پاکستان بھر میں اس تعلق کی 65ویں سالگرہ منائی گئی، ساری دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا گیا کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا جو عزم کیا تھا وہ اس پر آج بھی قائم ہیں اور قائم رہیں گے۔ دونوں ملکوں کے اس تعلق نے دونوں کو بہت کچھ دیا ہے۔ ایک طرف پاکستان دنیا کی ایک ابھرتی اور آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقت تھا۔ اس کے محل وقوع اور سماجی اور سیاسی استحکام نے اسے ایک بڑا عالمی کردار سونپ دیا تھا، اس وقت پاکستان چین کا دروازہ بن گیا۔ دنیا اس سے ''کٹی‘‘ کئے ہوئے تھی، عالمی طاقتوں کے نزدیک یہ ایک اچھوت تھا، جسے چھونا بھی اپنے آپ کو بھرشٹ کر لینا تھا، پاکستان دنیا سے اس کا رابطہ بنا۔ پی آئی اے نے اسے عالمی منظر سے جوڑ دیا۔ پاکستان نے اپنے دوست کی وکالت کا حق بھی ادا کیا، سکیورٹی کونسل میں اس کے حقوق کی بحالی کے لئے لڑتا رہا۔ عالمِ اسلام میں بھی اس دلیل کو آگے بڑھایا کہ بین الاقوامی تعلقات ملکوں کے نظریات یا داخلی حالات کے تابع نہیں ہوتے۔ کمیونسٹ چین کو تسلیم کرنے کا مطلب کمیونزم کو گلے لگانا نہیں ہے۔ اگر سوویت یونین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے جا سکتے ہیں تو چین کے ایک ارب سے زیادہ عوام کو اپنے آپ سے کاٹ کر کیسے رکھا جا سکتا ہے؟
چین کی اولوالعزم قیادت نے بھی اپنے آپ کو اپنے پائوں پر کھڑا کر لیا، یہاں تک کہ اس کی اور امریکہ کی ضرورتوں کا تقاضہ ہو گیا کہ یہ ایک دوسرے پر اپنے دروازے کھولیں۔ پاکستان دونوں کے درمیان پل بنا اور تاریخ نے ایک نئی کروٹ لے لی۔ چین کو آگے بڑھنے کے لئے جو ذرائع اور وسائل درکار تھے، وہ امریکہ ہی سے مل سکتے تھے۔ امریکہ کو سرمایہ کاری کے لئے جس نئی دنیا کی تلاش تھی، وہ چین کی صورت میں اس کی دسترس میں تھی۔ چینی قیادت نے اجتہادی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دروازے غیر ملکی سرمائے پر کھول دیئے اور آزاد معیشت کو جزیرے قائم کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ اس کی شرح نمو 9فیصد سالانہ تک پہنچ گئی اور وہ ترقی کی شاہراہ پر فراٹے بھرنے لگا۔
آج چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اپنے داخلی بحرانوں پرقابو پانے کی صلاحیت نے اسے نئی بلندیوں سے آشنا کر دیا ہے۔ پاکستان کئی مواقع پر مطلوب ذہانت اور چابکدستی کا مظاہرہ نہیں کر سکا، سو اس کا مشرقی حصہ الگ ہو گیا۔ اس کی اقتصادی ترقی کو نیشنلائزیشن کے سانپ نے ڈس لیا۔ نتیجتاً اٹھان کے مطابق اس کا سفر جاری نہیں رہ سکا۔ اس کے باوجود اس نے اپنا سفر جاری رکھا ہے۔ ایٹمی صلاحیت حاصل کی اور اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کیا ہے۔ چین کی سرخ فوج کی طرح پاکستان کی سبز فوج بھی ملکی استحکام میں اپنا کردار رکھتی ہے۔
آج چین اور پاکستان شاہراہ ترقی پر ایک دوسرے کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ قراقرم سے گوادر تک سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے۔ گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی کا کام چینی کمپنیوں نے سنبھال رکھا ہے۔46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے بن چکے ہیں۔ پاکستان اپنی داخلی مشکلات پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے... اگر داخلی سیاست بے لگام نہ ہونے دی گئی تو پھر معجزوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔
جب سے بلبل تو نے دو تنکے لئے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لئے
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]