وقت گزر چکا تھا اور چیزیں ہاتھ سے نکل گئی تھیں۔
بہت دیر تک میں اسلام آباد میں حزب اسلامی افغانستان کے دفتر کے سامنے کھڑا رہا۔ بہت سے اور اخبار نویس بھی۔ ان میں سے اکثر غیر ملکی تھے اور زچ ہو چکے تھے۔ آدمی جب اکتا جاتا ہے تو توجہ مبذول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ''یہ کیا ہے؟‘‘ ایک جواں سال گورے سے میں نے پوچھا اور اس چھوٹے سے ڈبے کو چھوا، جو اس کی بیلٹ سے بندھا لٹک رہا تھا۔ ''یہ ایک بم ہے‘‘ اس نے برا سا منہ بنایا اور چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ایک محافظ آگے بڑھا اور بے رخی کے ساتھ اس نے مجھ سے کہا میں مرکزی دروازے کے سامنے سے ہٹ جائوں۔ کڑاکے کی ٹھنڈ میں، اس امید پر میں لاہور سے اسلام آباد پہنچا تھا کہ انجینئر گلبدین حکمت یار سے مل کر اندر کی کہانی جاننے کی کوشش کروں۔ اس معاہدے کی تفصیلات جو ابھی پوشیدہ تھیں اور جس نے انہیں افغانستان کا وزیر اعظم نامزد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کو۔ وہ آدمی جس کے فیصلوں پر افغان کرنسی ڈوبتی ابھرتی رہا کرتی۔
محافظ کے منع کرنے کے باوجود میں گیٹ کے سامنے چکر لگاتا (اور وہ دانت پیستا رہا)۔ دفتر کی چھت پر طیارہ شکن توپیں نصب تھیں اور اس کی حدود میں پرندہ بھی پر نہ مار سکتا تھا۔ 8 برس پہلے حکمت یار نے امریکی صدر رونالڈ ریگن کے ساتھ ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ حصار ختم کر دیا گیا۔ اس کے باوجود وہ ڈٹا رہا۔ اس کے باوجود کہ امریکی صدر کی صاحبزادی اس التجا کے ساتھ روزویلٹ ہوٹل پہنچی تھی کہ اگر صدر نہیں تو مسٹر اور مسز ریگن کے ساتھ چائے پینے کی زحمت گوارا کریں۔ جنرل محمد ضیاء الحق جن کے ایماء پر یہ ملاقات طے پائی تھی، عرب سفیروں اور لیڈروں سمیت ہر ممکن ذریعے سے دبائو ڈالتے تھک چکے تھے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن کو انہوں نے گتھی سلجھانے کا حکم دیا اور یہ کہا: اگر ہم اسے اٹھا سکتے ہیں تو گرا بھی سکتے ہیں۔ جنرل نے یہ ذمہ داری اپنے سب سے قابلِ اعتماد نائب، بریگیڈیئر یوسف کو سونپی، جن کے ان سے خوشگوار ذاتی مراسم تھے اور کبھی ان کے کان میں سرگوشی کیا کرتے۔ چند برس بعد جنہیں ایک شاہکار کتاب تخلیق کرنا تھی The beartrap ۔ بریگیڈیئر کا جواب یہ تھا: میں تعمیل کروں گا مگر حکمت یار ایسا آدمی ہے، جس کے پائوں کے نیچے گھاس نہیں اگتی۔ یہ آخری کوشش بھی ناکام رہی امریکی اس پر بھنائے۔ ٹونی نام کے ایک اخبار نویس کو انہوں نے افغان لیڈر کے پاس بھیجا اور اطلاع دی کہ اس کا حفاظتی حصار ختم کر دیا گیا۔ یہ قتل کی دھمکی تھی۔ اس دھمکی کا جواب اس نے ان الفاظ میں دیا۔
I have been waiting for a bullet for last 20 years, which will hit my head or chest; In Newyork, in Islamabad or inside Afghanistan,it doesn`t make a difference.
''بیس برس سے میں ایک گولی کا انتظار کر رہا ہوں جو میرے سر یا سینے سے ٹکرائے گی۔ نیویارک یا اسلام آباد میں، یا پھر افغانستان کے اندر۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔
ایک برس پہلے یہ کہانی بہت تفصیل کے ساتھ مجھے سنائی گئی تھی۔ کالے آہنی دروازے کے سامنے کھڑے بہت دیر ہو گئی تھی کہ میری نظر ڈاکٹر غیرت بہیر پر پڑی۔ وہ ٹہلتے ہوئے آئے اور اپنے ساتھ لے گئے۔ بے چارگی کے ساتھ پھر یہ کہا: میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ اوپر جانے والی سیڑھیوں پر آپ کو کھڑا کر دوں۔ 36گھنٹے کے بعد نمازظہر کے بعد وہ سوئے ہیں۔ عصر کے لیے جاگ اٹھیں گے تو ایوان صدر چلے جائیں گے۔ اگر آپ یہاں کھڑے رہ سکے تو ملاقات ممکن ہے۔
بہت دیر میں وہاں کھڑا رہا اور تیزی سے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتے لیڈروں اور جنگجوئوں کی شک بھری نظروں کے درمیان۔ آخر کار سامنے دکھائی دینے والے کمرے کا دروازہ کھلا اور کسی نے باہر جھانک کر دیکھا۔ شکوہ سنج آواز نے یہ کہا: ''آپ نے مجھے فراموش کیا‘‘۔ میں وہاں کھڑا رہا اور کوئی جواب نہ دیا۔ یہ گلبدین حکمت یار تھے۔ آہستہ روی کے ساتھ وہ میرے پاس پہنچے اور اپنا جملہ دہرایا۔ میں اب بھی خاموش رہا اور صرف یہ کہا: مجھے آپ سے بات کرنی ہے، تفصیل کے ساتھ۔ زندگی بھر اپنی کوئی تصویر میں نے محفوظ نہیں رکھی مگر اس وقت یاد نہیں کس فوٹوگرافر نے عنایت کی اور ایک نقل مجھے ارسال کر دی۔ اتفاق سے وہ بچ رہی اور بستر کے بائیں دراز میں پڑی ہے۔
کچھ دیر وہ بات کرتے رہے اور بتاتے رہے کہ کیسی ہولناک مصروفیت میں وہ گرفتار ہیں۔ مجھے ایوان صدر جانا ہے، جہاں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ الگ سے بات کرنی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں وقت کا پابند ہوں لیکن اب مشکل ہی سے پہنچ سکوں گا۔ کل صبح دوسرے لیڈروں کے ساتھ میں مکہ مکرمہ روانہ ہو جائوں گا۔ اس سے پہلے آٹھ بجے صبح حزب اسلامی کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس ہے۔ اپنے محترم دوست اور ہمیشہ اپنے فیصلے پر چٹان کی طرح ڈٹ جانے والے لیڈر سے میں نے بحث نہ کی اور صرف یہ کہا: ''صبح سات بجے میں آپ کے پاس پہنچ جائوں گا‘‘۔ میں جانتا تھا کہ خواہ اسے نصف شب کے بعد نیند نصیب ہو، نماز فجر کے لیے وہ جاگ اٹھے گا۔ اب وہ مسکرایا اور وہ آدمی کم ہی مسکرایا کرتا، جس کے باپ کو دشت ابادان میں جیپ کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ کر مار ڈالا گیا۔ شمال کے سب سے بڑی شکاری لالہ عبدالقادر کو۔ اس کے دو بھائی اٹھا لیے گئے اور کبھی کسی کو پتا نہ چل سکا کہ ان پر کیا بیتی ہے۔ وہ آدمی بار بار جس کے ساتھ غداری کی گئی اور ہر بار وہ بچ نکلا۔ پچھلے سال باجوڑ کے اوپر الفتح غنکر کی پہاڑی چوٹیوں پر جہاں مئی تک برف گرا کرتی، ان غداریوں کی کچھ تفصیلات اس نے مجھے سنائی تھیں، کچھ اور نازک تفصیلات بھی۔ پھر یہ کہا تھا: وہ سب کچھ میں نے آپ کو بتا دیا، جو بتا سکتا تھا۔ میرے خاندان اور دوستوں تک سے یہ راز میں نے پوشیدہ رکھے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ انہیں کب اور کس طرح لکھتے ہیں۔ ہرچیز کا ایک وقت ہوتا ہے اور ایک قرینہ۔
گیارہ برس پہلے، اسلام آباد کی ایک شام اس نے مجھ سے پوچھا تھا: میں زیادہ بہتر اور زیادہ تیزی کے ساتھ اردو زبان کس طرح سیکھ سکتا ہوں؟ ''ابھی اور اسی وقت اردو بولنا شروع کر دیجئے‘‘۔ میں نے اس سے کہا تھا۔ اب وہ فصیح اردو میں بات کیا کرتا، فارسی آمیزش کے ساتھ۔ ''ابوالاعلیٰ مودودی کے سب آثار میں نے پڑھے ہیں‘‘۔
ایک روز قبل معاہدہ ہوا تو حکمت یار نے اس پر دستخط کیے۔ اس وقت جب دوسرے افغان لیڈر طول طویل خطبے ارشاد فرما رہے تھے، وہ یکسر خاموش رہا۔فرمائش کی گئی تھی تو اس کے باوجود بھی۔ تب غلام اسحق خان نے اس سے یہ کہا: ''تبرک کے طور پر ہی کچھ کہہ دیجئے‘‘۔
ہر ہجوم میں تنہا، ہمیشہ تنہا، اس وقت وہ کن چیزوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ کیا اس بے وفائی پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف جس کے مرتکب ہوئے تھے؟
سوال جواب کا وقت کہاں تھا۔ صبح سات بجے مجھے ایف سیون ٹو کی اس عمارت میں پہنچنا تھا۔ ایک ہلکا سا اونی سوٹ پہنے جو مجھے اسلام آباد کے جاڑے سے بچا نہ سکتا تھا۔ (جاری)