خبر آئی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ لندن کے نو منتخب میئر صادق خان کو امریکہ میں داخل ہونے دیں گے، تاہم باقی تمام مسلمانوں کی امریکہ میں داخلے پہ پابندی ہو گی۔سوال یہ ہے کہ کیا اس پابندی کا اطلاق سعودی ارب پتیوں اور خلیجی ریاستوں کے شیخ صاحبان پر بھی ہو گا؟ ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکی ٹریژری بانڈز ، جن کی کل مالیت ایک ٹریلین ڈالرز ہے، میں سے ایک تہائی سعودیوں کی ملکیت ہیں، اور اگر سعودیوں نے اس سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا توڈالر بلکہ عالمی منڈیا ں بھی کریش کر جائیں گی۔ امریکی ارب پتی ڈونالڈ ٹرمپ خود کو ''آزاد دنیا‘‘ کا سربراہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ان کیلئے نسوانی حسن کا مطلب ہے بڑا سا گورا چٹا چہرہ اور دراز قامت اور سڈول جسم پر لہراتی سنہری زلفیں! یعنی ان کی بیوی میلینیا اور بیٹی آئیوانکا ہی کامل نسوانی پیکر کی مثالیں ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ رنگ برنگے لوگ ان کے ملک میں کچھ زیادہ ہی ہو گئے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ برسراقتدار آکر وہ ان بارہ ملین میکسیکن لوگوں کو واپس ان کے ملک بھجوا دیں گے جو غیر قانونی حیثیت میں امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ جنابِ ٹرمپ کی نظر میں یہ لوگ ''جنسی جرائم کے عادی، پیشہ ور قاتل اور منشیات کے کاروبار میں ملوث‘‘ ہیں۔ان کے خیال میں یہ لوگ ایک مدت سے امریکی فیاضی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور امریکہ میں بچے بھی پیدا کر رہے ہیں۔ سو ، ان لوگوں کو تو ٹرمپ صاحب واپس بھیج دیں گے لیکن جو امریکی بچے انہوں نے امریکہ میں پیدا کئے ہیں وہ وہیں رک سکتے ہیں۔انہیں مسلمان بھی امریکہ میں نہیں چاہئیں۔ صدر بنتے ہیں پہلے سو دنوں میں جنابِ ٹرمپ دنیا بھر سے مسلمانوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دیں گے۔ میکسیکن لوگوں کی طرح مسلمان بھی ان کی نظروں میں قاتل ہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ '' انتہا پسند مسلمانوں‘‘ کو امریکہ میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں۔ بے چارے چھیالیس ملین سیاہ فاموں کا وہ کچھ کر نہیں سکتے کہ وہ تو امریکی ہی ہیں! جنابِ ٹرمپ کی نسل پرستی پسند تو یقینایہی کر ے گی کہ ان سب کو بھی واپس افریقہ بھیج دیا جائے جہاں سے ان کے باپ دادا کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا تھا۔ڈونالڈ ٹرمپ کی طرح کے لوگ خود کو بہت بر تر سمجھتے ہیں اور ان کے پیروکار بھی سیاہ فاموں کو پسند نہیں کرتے۔تاہم، فی الوقت سیاہ فاموں کا ووٹ ان کے لئے کچھ وقعت نہیں رکھتا۔ وہ بس انہیں برداشت کر لیتے ہیں۔ان کا کام سفید فاموں کی خدمت سمجھا جاتا ہے جیسا کہ گھریلوکاموں میں معاون کے طور پر یا پھر سیکورٹی گارڈ ، یا لینڈ سکیپرز اور کیشیرز کے طور پر ان سے خدمت لی جاتی ہے۔ اپنے بڑے بڑے شاندار ہوٹلوں اور دیگر کاروباروں میں ڈونالڈ ٹرمپ نے یقینا ہزاروں سیاہ فام بھرتی کئے ہوں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جب ڈونالڈ ٹرمپ اپنی بیوی میلینیا کے ہمراہ وائٹ ہائوس میں رہ رہے ہوں گے اور ان کی بیٹی آئیوانکا ان سے ملنے آئے گی تو تب اس امریکی خاندانِ اول کی خدمت کے لئے انہیں بے شمار سیاہ فام خادموں کی ضرورت پڑے گی۔ڈونالڈ ٹرمپ اپنے ہونٹوں کو ایک مخصوص انداز میں سکیڑ کر بولنے کے عادی ہیں۔ اپنے اسی مخصوص انداز میں جب ایک مجمع کے سامنے انہوں نے اعلان کیا کہ '' میں تو عورتوں کو بے حد پسند کرتا ہوں۔‘‘ تو اسی مجمع میں سے آواز آئی کہ'' یہ سچ نہیں‘! عورتیں صنفی تعصب برتنے والوں کو پسند نہیں کرتیں۔عورتوں کے لئے ڈونالڈ ٹرمپ کی ناپسندیدگی اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے یہ کہا کہ جو عورتیں اسقاطِ حمل کراتی ہیں انہیں سزا ملنی چاہئے۔ یعنی ایک ایسا شخص جو ایک زمانے میں خود بڑے فخر سے جنسی بیماریوں سے اپنے بچنے کی کوششوں کا ''اپنے ذاتی ویتنام‘‘ کے طور پر تذکرہ کرتا تھا، اب وہ یکدم دوسروں پہ حد جاری کرنے کے لئے تقدس کا لبادہ اوڑھنے لگا ہے! ۔ڈونالڈ ٹرمپ عورتوں کے رسیا ہیں، اسی لئے تو انہوں نے ہلیری کلنٹن کے بارے میں یہ کہا کہ وہ ایک ایسی کمینی عورت ہے جس نے اپنے شوہر کی داشتائوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ کسی بھی صدارتی امیدوار کی فتح کے امکانات کی راہ میں حائل ہونے والی سب سے خطرناک چیز اس کی ماضی کی بد احتیاطیاں ہوتی ہیں۔ تاہم ڈونالڈ ٹرمپ کے لئے تو اس کے ماضی کے تجربات ہی ان کے دعوئوں کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔ وہ یہی کہتے ہیں معلوم ہوتے ہیں کہ '' سب سے اچھی اور سب سے زیادہ 'چیزیں‘ میں نے ہی پائی ہیں اور یہ ملک بھی اس سے کم کا حقدار نہیں۔ میں نے اتنا کچھ پایا ہے تو سب کو پانا چاہئے‘‘!
ان کو جتنا زیادہ جھوٹا، فحش گو، خود پسند، دھونس دھمکی دینے والا اور بداخلاق قرار دیا جاتا ہے ، اتنا ہی ان کے گیارہ ملین ووٹرز انہیں وائٹ ہائوس پہنچانے کے لئے باعزم ہو جاتے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا ہر ''غیر صدارتی‘‘ قدم انہیں مزید مقبول کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ووٹرز ہیں کون؟ان کے ووٹروں میں زیادہ تعداد ایسے سفید فام لوگوں کی ہے جن کا تعلق مزدور طبقے سے ہے، جو کالجوں سے نکالے جا چکے ہیں، نسل پرست اور متعصب ، اور مذہب کے نام پر دوسروں سے نفرت کرنے واے لوگ ہیں۔انہیں اس نظام سے شکایت ہے جس کی وجہ سے وہ بدستور غربت کا شکار ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ جب بھی مسلمانوں کی امریکہ میں داخلے پر پابندی اور ہسپانوی نسل کے لوگوں کو واپس ان کے وطن بھجوانے کی بات کرتے ہیں تو یہ لوگ خوشی کے نعرے لگاتے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ جب کہتے ہیں کہ وہ ایک بڑی ساری دیوار بنا کر میکسیکن لوگوں کے لئے ایک روک بنائیں گے اور اس دیوار کی تعمیر کا خرچہ بھی میکسیکو ہی برداشت کرے گا تو یہی لوگ ستائشی تالیاں پیٹنے لگتے ہیں۔جب ڈونالڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ جو ملازمتیں چین جا چکی ہیں وہ انہیں واپس امریکہ لے آئیں گے تو یہی لوگ ہیں جو ان کے نام کے نعرے بلند کرنے لگتے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ کا انتخابی نعرہ ہے Make America great againیعنی امریکہ کو پھر سے عظیم بنائیے، تجزیہ نگار سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوگا؟ ڈونالڈ ٹرمپ کا جواب ہمیشہ نفرت ، نسل پرستی ، ذاتی تفاخراورصنفی تعصب سے لبریز زہرآلود اورتلخ باتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ایسی باتیں ری پبلکن پارٹی کے ووٹروں کی کج فطرتی کو ہی پسند آتی ہیں۔اگر تو اس سال جولائی میں ان صاحب کو ری پبلکن پارٹی کے نامزد امیدوار کی حیثیت مل جاتی ہے تو کیا واقعی یہ اس قابل ہیں کہ ان جیسا غلط کار، ناقابلِ یقین حد تک مضحکہ خیز اور خطرناک شخص سی آئی اے کی جانب سے روزانہ کی بریفنگ پانے کا مستحق بنے؟ایسی معلومات جو صرف ایک صدر کے کانوں اور آنکھوں کے لئے ہوتی ہیں انہیں دی جا سکتی ہیں؟ کیا یہ اپنا منہ بند رکھ سکتے ہیں؟ صدر اوباما تک یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک ایک خطرے کے ساتھ کھیل رہا ہے۔''میں صرف اس امر پہ زور دینا چاہتا ہوں اس بات کو سمجھا جائے کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس کی سنگینی کا درجہ کیا ہے اور صدارت کا یہ کام ایک نہایت ہی سنجیدہ کام ہے۔ یہ انٹر ٹینمنٹ نہیں! یہ کوئی رئیلیٹی شو نہیں۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی صدارت پانے کا مقابلہ ہے۔‘‘ کیا کوئی یہ بات سن بھی رہا ہے؟ کچھ لوگ شاید سن رہے ہیں لیکن ان کے پاس پھر بھی کوئی چارہ نہیں۔ایک سابق امریکی صدارتی امیدوار سینٹر رینڈ پا ل نے ڈونالڈ ٹرمپ کوخود پسند پاگل ٹھہرایا ہے۔بقول ان کے خاک کا ایک ذرہ ڈونالڈ ٹرمپ سے زیادہ امریکی صدر بننے کا مستحق ہو سکتا ہے۔تاہم اس کے باوجود بھی ان کے پاس ڈونالڈ ٹرمپ کو سپورٹ کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔سپیکر آف دی ہائوس پال ریان بھی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ڈونالڈ ٹرمپ نے انہیں نکال باہر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار نے سات ماہ پہلے یہ لکھا تھاکہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ نے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کر لی تو وہ اپنا ایک کالم چبا لیں گے۔ یہ کالم نگار اب واقعتاً ایسا ہی کرنے جا رہے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے دیگر ایسے لوگ جو ڈونالڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتے وہ بھی اپنے الفاظ واپس لے کرانہی کے ساتھ مل گئے ہیں۔لندن کا میئر منتخب ہونے کے بعد جب صادق خان نے ٹائمز میگزین کو اپنا پہلا انٹرویو دیا تو انہوں نے کہا کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوئے تو اپنے مذہب کی وجہ سے میرا داخلہ امریکہ میں ممنوع ہو گا۔صادق خان کو 1.3ملین ووٹ ملے ہیں جو برطانوی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔ان کے انتخاب نے ثابت کیا ہے کہ اسلام اور مغرب کے مابین کو ئی تصادم نہیں۔صادق خان کہتے ہیں '' میں مغرب کا ہوں، میں لندن کا باسی ہوں، میں برطانوی شہری ہوں لیکن میرا مذہب اسلام ہے، میں ایشیائی نسل کا ہوں، میری ثقافتی جڑیں پاکستان سے ہیں، سو اگر یہ داعش والے اور دیگر بھی جو ہماری طرزِ زندگی کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں اور مغرب کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ میرے بارے میں بات کررہے ہوتے ہیں۔ ان کی زہر افشانی کا جواب اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے کہ مجھ جیسا شخص اس عہدے پر منتخب ہو گیا ہے؟‘‘
یہ بات ڈونالڈ ٹرمپ کو بھی سمجھ لینی چاہئے!