تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     22-05-2016

عمران خان کا سیاسی ہنی مون کب تک ؟

قومی اسمبلی میں تنخواہوںکے اضافے کا جو بل لایا گیا ہے اس میں ایم این ایز نے اپنی تنخواہوں کا موازنہ بھارت اور برطانیہ سے کیا ہے کہ وہاں کے سیاستدانوںکو زیادہ تنخواہیں ملتی ہیں، انہیں بھی ملنی چاہئیں۔ بل کے ساتھ برطانوی پارلیمنٹیرینزکی تنخواہوں اور مراعات کو بھی لف کیا گیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے، جنرل مشرف دور میں سابق سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے لیے جہاز خریدنے کی تجویز پیش کی تھی۔ سب راضی ہوگئے۔ مجھے پتا چلا تو میں نے فنانس کمیٹی کی خاتون ممبر کو فون کیا، وہ بولیں بالکل یہ تجویز آئی تھی،کیا حرج ہے، ایران کے سپیکر کے پاس بھی تو جہاز ہے، اگر ہمارے سپیکر کو جہاز مل جائے گا توکیا قیامت آجائے گی۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ 
کسی کو علم ہے، بھارت کے ریزرو ڈھائی سو ارب ڈالر ہیں اور جس ملک کے سیاستدان ان کے برابر تنخواہیں مانگتے ہیں ان کے ریزرو قرضے ملا کر بھی بیس ارب ڈالر ہیں۔ کیا ہمارے پارلیمنٹیرینز وہ کام کرسکتے ہیں جو برطانوی کرتے ہیں۔ مثلًا برطانیہ کے ایک ممبر پارلیمنٹ کو پچھلے دنوں چار برس کی سزا سنائی گئی کہ اس نے سرکاری فنڈز میں خورد برد کی تھی۔کسی نے پارلیمنٹ میں جمہوریت خطرے میں ہے کا نعرہ نہیں مارا۔ کچھ عرصہ قبل اسی برطانوی پارلیمنٹ میں ایک ممبرکی رکنیت اپنے ہی ساتھیوں نے یہ کہہ کر ختم کر دی کہ وہ چور تھا اور فنڈز کا غلط استعمال کر رہا تھا۔ برطانوی پارلیمنٹیرینز بیس ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز بھی نہیں لیتے، جن میں سے ہمارے سب نہیں تو اکثر سیاستدان بیس سے تیس فیصد کمشن کھاتے ہیں۔کیا ہمارے پارلیمنٹیرینز یہ کام کر سکتے ہیں؟ ان جیسی گورننس دے سکتے ہیں؟ برطانوی پارلیمنٹ میں ہی پچھلے دنوں سب نے دیکھا کہ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پاناما لیکس کے بعد پیش ہوئے۔ ڈھائی گھنٹے تک سوالات کے جوابات دیے۔ ان پر ہوٹنگ کی گئی، ان کا مذاق اڑایا گیا، سخت سوالات کیے گئے، وہ پھر بھی بڑے آرام سے ایک ایک سوال کا جواب دیتے رہے۔
ہمارے پارلیمنٹیرینزنے کیا کیا؟ جب نوازشریف پارلیمنٹ میں آئے تو سب نے کھڑے ہو کر نعرے مارے: ''دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا آیا‘‘۔ اسی نواز شریف نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہیں اور نہ ہی اپوزیشن ان سے کوئی سوال پوچھ سکتی ہے۔ جس پارلیمنٹ کا سربراہ سات ماہ بعد پارلیمنٹ میں آتا ہو، اس کے ممبران کو کیسے یہ حق مل سکتا ہے کہ وہ اپنی تنخواہیں چار سوگنا بڑھا لیں؟اس ایوان میں ستر سے زیادہ خواتین ایم این ایزہیں جو خصوصی نشستوں پر آئی ہیں، وہ سب وہاں تالیاں اور ڈیسک بجانے کے لیے بیٹھی ہیں۔ ان کو ہائوس میں لایا گیا تھا کہ وہ خواتین کے لیے کچھ کریں گی، لیکن آپ نے کبھی سنا کہ انہوں نے خواتین کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کی ہو؟ اکثر سیاستدان اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہوئوں کو ہائوس میں لا ئے ہیں۔ اب ہر سال چالیس لاکھ روپے وصول کریںگی۔ اس سے پہلے بیس ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز سے بھی حصہ لیا۔ نواز شریف کی دوبارہ ہائوس آمد پر نعرے لگائیںگی: شیر آیا شیر آیا‘‘۔ یہ انجام ہوا ہے خواتین کی مخصوص نشستوں کا۔
پورے ملک میں پچھلے دس برسوں میں دو فیصد لٹریسی ریٹ کم ہوا۔ سندھ میں چار فیصد کم ہوا۔ آپ نے کبھی سنا، کسی ایم این اے نے جو اب برطانیہ کے برابر تنخواہ مانگتے ہیں، ہائوس میں بات کی ہو؟اسی ہائوس میں نواز لیگ کے ایم این اے انجم عقیل خان پر نیشنل پولیس فائونڈیشن کے ساتھ چار ارب روپے کے فراڈ کا سکینڈل سامنے آیا۔ کیا کسی کو جرأت ہوئی کہ اٹھ کر کہتا ایسے ایم این اے کو ہمارے ساتھ بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ یہاں تو ایک دوسرے کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ رحمن ملک پر کتنے سنگین الزامات ہیں، اس نے سیکرٹ فنڈز میں تھرتھلی مچا رکھی تھی، زیورات خرید کے تحائف میں دیے جارہے تھے، لندن کے سیر سپاٹوں پر دو کروڑ روپے سیکرٹ فنڈز سے لگائے گئے، اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو بھی دوکروڑ روپے نقد ادا کرائے،کیا کبھی آپ نے سینیٹ میں سنا کسی نے رحمن ملک سے پوچھنے کی جرأت کی ہوکہ آپ نے دہشت گردی کے لیے مختص سیکرٹ فنڈز کو اپنی ذاتی عیاشیوں کے لیے کیوں استعمال کیا؟ جس سینیٹ کی کمیٹی برائے داخلہ نے رحمن ملک کی کرپشن کی انکوائری کرنی تھی، رحمن ملک کو طلب کر کے سوال و جواب کرنے تھے، اس کمیٹی کے چیئرمین خود رحمن ملک خود ہیں۔
خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ہیں۔ ان کی عدالت میں انہی کے خلاف سکینڈل پیش ہوا ہے۔ بتائیں فیصلہ کون کرے گا؟ آڈیٹر جنرل رانا اسد امین کے خلاف ان کے اپنے آڈیٹر نے کرپشن کی رپورٹ تیار کر کے کمیٹی کو بھیجی ہے۔ بتائیں آڈیٹر جنرل کیسے دوسروں کا احتساب کریںگے؟ آپ نے پورے سسٹم کو ہائی جیک کر لیا ہے، اس کے بعد بھی کہتے ہیں کہ آپ برطانیہ جیسی تنخواہیں چاہتے ہیں۔اب پاناما لیکس سکینڈل کو جس طرح اپوزیشن اور حکومت مل کر دبانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اس سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ جن کے ہاتھوں میں یہ ملک یرغمال بن چکا ہے، وہ اتنی آسانی سے اس پر اپنا اور اپنی نسلوں کا قبضہ نہیں چھوڑیںگے۔کیا واقعی اپوزیشن اور حکومت کو نئے کمیشن کی ٹی او آرز فائنل کرنے کے لیے پندرہ دن مذاکرات کی ضرورت ہے؟عمران خان بھی اخلاقی طور پر آسمان سے زمین پر آگرے ہیں، لہٰذا وہ بھی اب خورشید شاہ کی بنائی ہوئی حکمت عملی پر چل رہے ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے ملتانی شاہ محمود قریشی پوری کر رہے ہیں، جو عمران خان کو پیپلز پارٹی کا سیاسی گند اکٹھا کر کے دے رہے ہیں۔کسی نے بھی یہ بات ہائوس میں نہیں کی کہ ہم کیوں پندرہ دن ضائع کر رہے ہیں؟ ایک گھنٹے میں ستر سوالات تیار ہوسکتے ہیں تو ٹی او آرزکیوں نہیں؟ صرف اس لیے وقت لیا جارہا ہے کہ پندرہ دن بعد رمضان شروع ہو جائے گا، اس کے بعد سپریم کورٹ تین ماہ چھٹیوں پر چلی جائے گی اور اگست تک نئے آرمی چیف کا اعلان ہوجائے گا، یوں ہر طرف سکون ہوجائے گا۔
یہ سب کچھ اپوزیشن سے لے کر حکومت تک سب کو سوٹ کرتا ہے۔ جب عمران خان کے پاس موقع تھا کہ وہ تقریر کرتے، اس وقت وہ بائیکاٹ کر گئے۔ نجی محفلوں میں بتاتے ہیں انہیں بائیکاٹ کا علم نہ تھا؛ حالانکہ ان کے چار ایم این ایز خورشید شاہ کے ساتھ یہ سب کچھ طے کر کے آئے تھے۔ ڈرامہ ایسے کیا گیا جیسے عمران خان کو کچھ پتا نہ تھا۔ سب پتا تھا، وہ معصومیت کی اداکاری فرما رہے ہیں۔ طے تھا کہ وہ نواز شریف کی تقریر کے بعد تقریر نہیں کریںگے کیونکہ خطرہ تھا کہ حکومتی بنچوں سے ان پر ہوٹنگ ہوگی یا کچھ ایسے سوالات پوچھے جا سکتے ہیں جن کا جواب شاید ان کے پاس نہ ہو۔ 
اپوزیشن کا ایک اور ڈرامہ ملاحظہ فرمائیں۔ آفتاب شیر پائو جو نواز شریف کو ہر مشکل وقت میں مدد دینے کے لیے وزیراعظم ہائوس پائے جاتے ہیں، وہ بھی اپوزیشن میں شامل ہیں۔ اے این پی کے غلام بلور بھی اپوزیشن میں ہیں جن کے باس اسفندر یار ولی فرماتے ہیں، جس نے نواز شریف سے استعفیٰ مانگا وہ اس کا حشر کردیں گے۔ ادھر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی ہمیں بتاتی ہے کہ جناب ہم تو نواز شریف سے استعفیٰ مانگتے ہیں لیکن اے این پی اور شیر پائو نہیں مانتے جن کی قومی اسمبلی میں ایک ایک سیٹ ہے۔ یہ سب کس طرح کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آفتاب شیرپائو اور بلور اپوزیشن میں کیا کررہے ہیں؟ حکومت سے اپنا ریٹ لگوانے کے لیے وہ اپوزیشن کے کندھے استعمال کرتے ہیں اور اپوزیشن اپنے کندھے پیش کردیتی ہے کہ چلیں کسی کا ہماری وجہ سے بھلا ہوتا ہے تو کیا برائی ہے؟
عمران خان کو سیاست سیکھنے کے لیے دوسرا جنم لینا پڑے گا۔ بیس برس تو وہ یہ نہ سیکھ سکے کہ کس وقت پر درست ضرب لگانی ہوتی ہے۔ وہ ہر اہم وقت پر اتنی بڑی غلطی فرماتے ہیں کہ سب محنت غارت چلی جاتی ہے۔ جب اپوزیشن کو ملا کر دھاندلی کے خلاف دھرنا دینا چاہیے تھا اس وقت اکیلے کھڑے رہے اور آج جب انہیں اکیلے پاناما لیکس پر لڑنا چاہیے تھا تو وہ خورشید شاہ کے پیچھے کھڑے ہیں۔ جنرل راحیل کی چھ میں سے پانچ شرائط ماننے کی پیشکش کو ٹھکرانا، دھرنے کے دنوں میں شادی کا فیصلہ، پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے روز طلاق کا فیصلہ اور اب نواز شریف کی موجودگی میں تقریر نہ کرنے کا فیصلہ۔۔۔۔اس سے آپ نواز شریف کی خوش قسمتی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ انہیں کیسا سمجھدار اپوزیشن لیڈر ملا ہوا ہے جو اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مار کے خوش ہوتا ہے۔ اسی لاکھ لوگوں نے اس لیے عمران کو ووٹ دیا کہ وہ اسے پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے بہتر سمجھتے تھے۔ عمران خان آخرکار انہی کے ساتھ جا ملے ہیں۔ عامر متین درست کہتے ہیں کہ عمران خان کے نزدیک یہ سب شغل ہے، ہابی ہے! جس دن نواز شریف کے منہ پر تقریر کرنی چاہیے تھی اس دن اندر کھاتے پیپلز پارٹی سے ڈیل کر لی کہ وہ تقریر نہیں کریں گے اور جس دن نواز شریف ہائوس میں نہیں تھے، اس دن عالی شان تقریرکی۔ عمران اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر نواز شریف کے منہ پر تقریر کی تو ان پر نواز لیگ سخت حملے کرے گی، بالآخر وہی ہوا۔ جس دن انہوں نے تقریرکی، خواجہ آصف نے ان پر جگتیں لگا لگا کر حساب پورا کر لیا۔ تو کیا پایا نواز شریف کے منہ پر تقریر نہ کر کے؟ 
عمران خان کو کوئی یہ بات نہیں سمجھا سکتا کہ ان کا مقام خورشید شاہ اور شاہ محمود قریشی کے پیچھے کھڑے ہوکر سیاست کرنے سے نہیں بنے گا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کا کچرا اپنی پارٹی میں اکٹھا کرنے سے انہیں اقتدار ملے گا ۔ وہ کوشش جاری رکھیں، ان کی سیاسی کنفیوژن شاید عمرکے آخری حصے میں دور ہو جائے۔۔۔۔ جب وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے اور پھر اپنی سیاسی آپ بیتی میں درست وقت پر کیے گئے غلط فیصلوں کو یاد کر کے بنی گالہ کی اونچی پہاڑی پر واقع گھر کے لان میں بیٹھ کر اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں کو دیکھ کر ٹھنڈی سانسیں لیا کریں گے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved