تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     22-05-2016

ادلتی بدلتی وفاداریوں کی کہانی

وہی بات مفتی منیب الرحمن صاحب نے جس کی طرف اشارہ کیا (برادرِ محترم عبدالقادرحسن بھی جس کا ذکر کرتے رہتے ہیں )ایک دور تھا کہ کسی شہر میں ہونے والا جلسہ ، اُسی شہر کا جلسہ ہوتا تھا اور یوں اسے وہاں اس جماعت (یا لیڈر) کی مقبولیت کا پیمانہ بھی بنایا جا سکتا تھا۔ تب سیاست پیسے کا کھیل نہیں ، نظریے اور اصول کا نام تھا ۔چنانچہ سیاسی جلسے بھی بہت سستے ہوتے تھے جن کی پبلسٹی کے لئے شہر بھر میں رنگ برنگے پوسٹرز اور دیدہ زیب بینرزاور فلیکسزکے بجائے سادہ سے بے رنگ اشتہار اور تانگے پر لائوڈ سپیکر کے ذریعے اعلان۔ سیاسی شوق رکھنے والے خود ہی چلے آتے ان کے لئے کرسیوں کا بندوبست کرنا پڑتا، نہ جلسہ گاہ کی تزئین وآرائش اور سازوآواز کے دلکش اہتمام پر لاکھوں روپے اُٹھتے۔ سٹیج کے سامنے پرانی سی دریاں بچھی ہوتیں ، جنہیں یہاں جگہ نہ ملتی ، انہیں ننگی زمیں پر بیٹھ جانے میںبھی عار نہ ہوتی ، کئی لوگ کھڑے کھڑے سارا جلسہ سن لیتے ۔ان میں 99فیصد سے بھی زائد یہیں کے باسی ہوتے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ قریب کے ایک دو شہروں سے دو، چار بسیں آ جاتیں جنہیں اخبار نویسوں کی نظروں سے بچانے کے لئے کہیں دور پارک کیا جاتا کہ خبر میں یہ نہ آجائے کہ جلسہ گاہ کو بھرنے کے لئے باہر سے بھی لوگ آئے تھے ۔ لیکن اب زمانہ اور ہے ۔ ''تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘‘۔ اب کسی بڑے شہر میں جلسے پرایک آدھ کروڑ سے کم کیا خرچ آتا ہو گا ۔قرب و جوار کے ایک آدھ شہر سے ایک دو بسوں کی بجائے ، دور دراز کے شہروں سے بھی قافلہ ہائے شوق پورے دھوم دھڑکے سے روانہ ہوتے ہیں ۔مقامی سطح پر لیڈروں میں ''پارٹی بازی‘‘ہو تو کوشش ہوتی ہے کہ ایک کا قافلہ دوسرے کے قافلے سے بڑا ہو کہ آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کے لئے کام آئے گا۔ اُدھر جلسہ گاہ میں اسٹیج سے کمنٹری جاری رہتی ہے ، فلاں شہر سے ، فلاں صاحب کی قیادت میں اتنی بسوں پر آنے والا قافلہ جلسہ گاہ میں داخل ہو رہا ہے ۔ چنانچہ مختلف جلسوں کی ٹی وی کوریج میں بیشتر چہرے ہر جلسے میں نظر آتے ہیںتو اس میں چنداں حیرت کی بات نہیں رہی ۔ 
خان نے لاہور کے یکم مئی کے جلسے میں فیصل آبادکے جلسے کی تاریخ بھی دے دی تھی۔ 8مئی کا یہ جلسہ 13مئی پر ملتوی ہو گیا اس کا سبب مقامی سطح پر "تنظیمی اختلافات "بتائے گئے ۔ پرانے نظریاتی کارکنوں کو 30اکتوبر 2013ء کے لاہور کے سونامی جلسے کے بعد پارٹی میں گھس آنے والے Electables" "ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔ موروثی سیاست کا خاتمہ اور نئے پاکستان کے لئے نئی قیادت ‘خان کا نعرہ تھا۔ 30اکتوبر کے جلسے میںسٹیج پرکسی "Electable" کا نام و نشان نہ تھا ۔ البتہ ہوا کا رخ دیکھ کر نئی منزل کا تعین کرنے والے کچھ "خاندانی" حضرات جلسہ گا ہ کے باہر گھومتے پائے گئے۔ کہا جاتا ہے ، ان کی نئی پود کی پسند بھی کپتا ن تھا ۔ وہ اس سے بھی متاثر ہوئے ہوں گے ۔کچھ لوگ جنرل پاشاکا نام بھی لیتے ۔ تب یہ بات بھی سننے میں آئی کہ گجرات کے چودھریوں نے جنرل کیانی سے شکایت کرتے ہوئے کچھ ٹیلی فون نمبروں کا حوالہ بھی دیا تھا۔ اورو ں کا تو پتہ نہیں، ملتان کے گدی نشین سیاست دان کے بارے میں تو یہ بات عام تھی کہ مسلم لیگ (ن) میں واپسی کے لئے تو وعدے وعید بھی ہو چکے تھے ۔
2008 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی تو خود میاں صاحب بھی جوڑ تو ڑ کے ذریعے اس کا راستہ روکنے کے بجائے یہ''باری ‘‘اسے دینے کے حق میں تھے۔تب ہالاشریف (سندھ ) کے مخدوم کے علاوہ ملتا ن کا یہ مخدوم بھی وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار تھا ۔ ( اس کے لئے اضافی خوبی صاحبزادے کی واشنگٹن میں جان کیری کے آفس سے وابستگی بھی تھی)۔ لیکن ہماملتان ہی کے ایک اور سیّد زادے کے کندھے پر جا بیٹھاتو مخدوم کو وزارتِ خارجہ کا منصب دے دیا گیا ۔ تب اسے بھٹو یاد آئے ، اُنھوں نے بھی وزارتِ خارجہ ہی سے مقبولیت کی اُڑان بھری تھی ۔پونے تین سال بعد کابینہ کے ردوبدل میں مخدوم کے لئے وزارتِ خارجہ کے بجائے پانی و بجلی کی وزارت تجویز ہوئی اُنہی دنوں لاہور میں ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ بھی ہو چکا تھا ۔ مخدوم نے اسے "معاہدئہ تاشقند "بنانے کی کوشش کی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی ؟ بھٹو ، بھٹو تھے ۔ وزارت خارجہ سے محرومی کے بعد مخدوم صاحب پارٹی سے بھی لاتعلق ہو گئے تو مسلم لیگ (ن) سے دوبارہ رسم وراہ کا آغاز ہوا ۔
بڑے مخدوم صاحب (مرحوم ) بھٹو دور میں سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین ہوتے تھے ۔ بھٹو اقتدار سے محرومی کے بعداگلے جہان روانہ ہوگئے تو مخدوم صاحب ضیاالحق کی طرف چلے آئے ۔ جنرل جیلانی کے بعد وہ لاہور کے گورنر ہائوس کے مکین ہوئے ۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی ۔ ایوان ِ صدر اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں بھان متی کا کنبہ بنا کرمحترمہ کا راستہ روکا جا سکتا تھا لیکن کچھ امریکی مہربانوں کی مداخلت اور کچھ اسٹیبلشمنٹ کی اس حکمتِ عملی کے تحت کہ پیپلز پارٹی میں طویل تلخی اور سیاسی احساس ِ محرومی کی بھاپ نکل جانے دی جائے ، بعض یقین دہانیوں کے ساتھ محترمہ کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا تب یہ صدر کا صوابدیدی ختیار تھا ۔ نامزد وزیراعظم کو 60دنوں میں اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا تھا ۔ وزارت اعلیٰ کے حوالے سے یہی اختیار گورنروں کو تھا ۔ پنجاب میں نواز شریف اس کے لئے مضبوط امیدوار تھے نامزد وزیراعظم کی طرف سے گورنر پنجاب مخدوم سجاد قریشی کے لئے پیغام تھا کہ وہ ان کی وزارتِ عظمیٰ کی حلف برداری تک کسی کو وزیراعلیٰ نامزد نہ کریں ۔ انہیں خوش فہمی تھی کہ وزیراعظم بن کر وہ پنجاب میں نواز شریف کے بجائے اپنا وزیراعلیٰ لانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ لیکن گورنر کے لئے صدر کی ایڈوائس مختلف تھی ۔ چنانچہ عین اُس وقت جب اسلام آبا د میں محترمہ وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھا رہی تھیں ، لاہور میں گورنر قریشی نواز شریف سے وزارت اعلیٰ کا حلف لے رہے تھے ۔
والد صاحب کی گورنری کے دوران عملی سیاست کے لئے مخدوم زادے کا فطری انتخاب مسلم لیگ ہی تھی۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو پنجاب میں غلام حیدر وائیں کی کا بینہ میں بھی شاہ محمود قریشی شامل تھے۔ نواز شریف کی برطرفی 1993ء کے بعد ایوانِ صدر کی اشیر باد سے منظور وٹو نے وائیں صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اس کی مخالفت میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پنجاب اسمبلی کی یا د گا رتقاریر میں ایک تھی ۔ 1993ء کے عام انتخابات میں ''مقامی مجبوریوں‘‘کے تحت نوجوان مخدوم نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو خاندانی وضع داری نبھاتے ہوئے اس نے ماڈل ٹائو ن کا رخ کیا اور نواز شریف سے اس کے لئے "اجازت "چاہی ۔پیپلزپارٹی سے اس کی وفاداری کی تاریخ برسوں پر محیط تھی ۔پرویزمشرف کے دور میں بھی اس نے محترمہ سے اپنی وفاداری پر کوئی حرف نہ آنے دیا جب بی بی کے کتنے ہی جانثار وں نے " پیٹریاٹ " بن کرڈکٹیٹر سے سیاسی وفاداریوں کا سودا کر لیا تھا ۔ 
محتر مہ کے قتل کے بعد اب یہ نئی پیپلز پارٹی تھی جس میں اطاعت اور وفاداری کا مرکز و محور بھی نیا تھا ۔ وزارت خارجہ سے محرومی کے بعد پارٹی سے فاصلے پیدا ہوئے تو پرانی محبت کی بناء پر شاہ محمود کا نیا انتخاب پھرمسلم لیگ تھی ۔ شمولیت کے لئے قول و قرار ہو چکے تھے کہ نئی سیاسی ہوا کا رخ دیکھ کر اس نے تحریک انصاف سے وابستگی کا فیصلہ کیا تو روایتی وضع داری کے طور پر اس نے جاتی عمرہ جا کر میاں صاحب کو اپنے نئے فیصلے پر "اعتماد "میں لینا ضروری سمجھا ۔
بات کہا ں سے کہاں نکل گئی !30 اکتوبر کے سونامی جلسے کے بعد ادھر کا رخ کرنے والے موروثی سیاست دانوں کو قبول کرتے ہوئے خان کا عذر تھا ، کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لائوں ؟ اب فیصل آباد میں ایک اور Electable" "قافلہ انقلاب کے سالاروں میں شامل ہو گیا ہے، راجہ ریاض ۔ 2008 ء کے الیکشن کے بعد بھوربن معاہدے کے تحت(30روز کے اندر عدلیہ کی بحالی کی شرط پر )مسلم لیگ (ن) گیلانی حکومت کا حصہ بنی تو جوابی جذبہ خیر سگالی کے طور پر شہباز شریف کی پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کو بھی شامل کر لیا گیا ۔ راجہ ریاض سینئر منسٹر بنے ۔ زرداری صاحب معاہدہ بھوربن سے منحرف ہو گئے (ان کے بقول یہ ایک سیاسی معاہدہ ہی تو تھا ، اُنھوں نے کوئی حدیث تو نہیں لکھ دی تھی ) مسلم لیگ 13وفاقی وزارتوںسے استعفے دے کر باہر آگئی تو احسن اقبال سمیت بعض مسلم لیگی ترجمان یہ یاد دہانی کرانے لگے کہ اب پنجاب حکومت میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کا کوئی جواز نہیں رہا ، ہم باہر آگئے ہیں تو وہ بھی تشریف لے جائیں لیکن پیپلز پارٹی سنی ان سنی کرتی رہی ۔ فروری 2009ء میں صدر زرداری کی اشیر باد کے ساتھ گورنر تاثیرنے شہباز شریف حکومت کو رخصت کر کے گورنر راج نافذ کر دیا ۔ اس کھیل میں ایوانِ صدر ؍گورنر ہائوس کی ناکامی کے بعد شہباز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ بن گئے تو پیپلز پارٹی پھر سر جھکاکے داخلِ میخانہ ہو گئی ۔ خادمِ پنجاب تو اپنے مسلم لیگی وزیروں کو زیادہ اختیارات دینے میں فراخ دل واقع نہیں ہوئے تھے ، وہ پیپلز پارٹی کے وزیروں کو کیا گھاس ڈالتے لیکن راجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کو یہ بے اختیاری بھی گوارا تھی وہ کام کے نہ سہی ، نام کے وزیر تو تھے ۔ اب وہ خان کے قافلہ ء تبدیلی کا حصہ ہے فیصل آباد کے جلسے میں وہ بھی طاقت کے بھر پور مظاہرے کے ساتھ شریک تھے ۔ جلسہ گاہ روانگی سے قبل ایک چینل نے انہیں مالشیے سے باقاعدہ مالش کراتے بھی دکھا دیا ۔ فیصل آباد میں یہ دلچسپ منظر تھا تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن سراپا احتجاج تھے تو پیپلز پارٹی کے نظریاتی ورکر اس بوجھ سے نجات پر مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved