مولانا غلام رسول مہر
وہ لگی لپٹی کہے بغیر لکھتے تھے‘ انداز خطیبانہ‘ زبان اور بیان‘ لطف دونوں کا پائیے گا۔ اشعار خصوصاً فارسی کا برمحل استعمال اور بڑی کثرت سے‘ ایک خاص ادیبانہ بھی اور ناصحانہ شان۔ طوالت کلام کے ساتھ ساتھ بیزاری اور احساس ذمہ داری۔ خط کی رسید مرتے مرتے بھی ان کے قلم سے نکلی‘ جوابی لفافے بخوشی قبول کر لیتے‘ ٹکٹوں سے گھبراتے تھے‘ ٹکٹوں کا سنبھالنا دراصل مشکل تھا۔ اس تاک میں ہرگز نہ رہتے کہ کوئی چیز مفت ہاتھ آجائے تو بُرا کیا ہے‘ نہایت غیور‘ خود دار اور بااصول سانچا تھا مرحوم کا۔ خط لکھنے کے لیے معمولی کاغذ بالکل ردی استعمال کرتے تھے۔ سرنامہ میں نے کبھی اُردو میں چھپا ہوا تو دیکھا نہیں‘ انگریزی ہی کو ترجیح رہی۔ مرحوم بدخط تھے‘ جوش میں آ کر اور بے رنگ ہو جاتے۔ اپنے قلم سے نکلتی ہوئی بعض چیزیں خود ان سے بھی نہ پڑھی گئی ہوں تو کچھ بعید نہیں‘ پھر بھی خط انگریزی‘ اُردو شکستہ اور پختہ تھا‘ ہر خط کا جواب دیتے تھے‘ اکثر بادل ناخواستہ مگر دیتے ضرور تھے۔ کافی و شافی‘ علمی ادبی‘ مذہبی‘ سیاسی معلومات کا خزینہ تھے اور خوب پھیلا کر لکھتے تھے۔ پورے دستخط بہت کم کئے‘ البتہ رجسٹری سے بھیجے گئے لفافوں کی رسیدوں پر اُردو انگریزی میں پورے دستخط 'غلام رسول مہر‘ موجود ہیں۔ مرحوم کی بدخطی سے میری نگاہوں کو ایک گونہ مناسبت پیدا ہو گئی تھی‘ چند ایک ہی لفظ ہوں گے جو مجھ سے پڑھے نہ گئے ہوں۔
دو سو چونسٹھ خط اٹھارہ برسوں میں میرے نام آئے۔ ہر تحریر میں نے سینت سینت کر رکھی جس کی داد ایک خط میں مہر صاحب نے بھی دی۔ مکتوب نویسی ایک مشغلہ کم از کم میرا تو ہے اور یہ مجھ سا جھکّی ہی تھا جس نے مکتوب نگار سے زیادہ نہ سہی تھوڑا بہت اُگلوا لیا۔ ایک خصوصیت ان خطوں کی یہ بھی ہے کہ میری حاشیہ آرائی پر مرحوم نے بھی جگہ جگہ اپنے اختلافی حاشیے سپرد قلم کئے ہیں‘ بیحد گرم اور خشک‘ یہی نہیں بعض اصل تحریروں میں ردّ وبدل کے مرتکب بھی ہوئے۔ یہ تمام مکتوبی ذخیرہ ''متاع خوش قماش‘‘ کے عنوان سے مرتب کر کے ابن مہر امجد سلیم علوی کے حوالے ہو چکا‘ چھپ ہی جائے گا عنقریب۔ مطالعے کی لت کیوں نہ ہوتی بلکہ دھت‘ مہنگی کتابیں خریدنے کے حق میں نہ تھے۔ معمولی کاغذ ہو‘ غیر مجلّد ہو‘ چھپائی ناقص ہو‘ کتاب ہو۔ دقت نظر سے پڑھتے اور جگہ جگہ حاشیہ آرائی پورے اہتمام سے کرتے چلے جاتے‘ یہاں تک کہ کسی نے انشاء اللہ لکھا تو ان شا اللہ‘ بد توفیقی کو بے توفیقی‘ عزیزان کو عزیزوں‘ تقاضہ کا تقاضا‘ پتہ کو پتا، 52ء کو 1952ء بنا دیا۔ میں نے ایک بیاض میں یونہی ایک کونے پر غلط سلط ان کے بارے میں لکھ رکھا تھا‘ اوّل و آخر کانگرسی تھے‘ ان کی نظر کہاں چوکنے والی تھی‘ لکھا ہے‘ کون؟ اسی پر بس تھوڑی کرتے تھے‘ اگر ایک نقطے‘ ایک شوشے کی کمی بیشی ہوتی تو اس کی بھی چول صحیح بٹھائے بغیر دم نہ لیتے۔ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن پر مرحوم کی حاشیہ آرائی معرکے کی چیز ہے۔ دیکھیے کب روشناس خلق ہوتی ہے۔ میری کتابوں پر جہاں جہاں مرحوم نے کچھ لکھا ہے یکجا کر کے پیش کر دیا گیا ہے۔ لاکھوں صفحے پڑھے اور لاکھوں ہی لکھے ہوں گے۔ اخبار نویسی کے علاوہ بے شمار مضامین ‘کتابیں اور رسالے مرتب فرمائے۔ خط نویسی میں بھی کمال رکھتے تھے‘ تصانیف کی فہرست بے حد طویل ہے‘ ان کے مرنے کے بعد جو کتاب میری نظر سے گزری وہ ''رسول رحمت‘‘ تھی۔ ایسے آدمی کا خاتمہ ظاہر ہے بالخیر ہونا تھا۔ آخر آخر میں وہ سوشلزم کی طرف بھی مائل ہو گئے تھے۔ ایک ہفت روزہ لیل و نہار کی عامیانہ زبان کو نہایت عالمانہ تحریر کہتے ہی نہیں قصیدے لکھتے تھے۔ برسوں نظرانداز کیے جانے کا ردعمل ہی اسے کہیے‘ باقاعدگی مرحوم کی زندگی کا ایک حصہ بن کر رہی۔ معمولات میں یکسانی پیدا کر لی تھی‘ وقت ضائع کرنا وہ جانتے ہی نہ تھے‘ کام گھُٹی میں پڑا ہوا۔ کسی کے دست نگر نہ تھے‘ اپنے دست و بازو سے کمایا اور کھایا‘ گھر کے اندر اور باہر ساکھ بنی ہوئی تھی۔ بخیل تو نہیں جُز رس ضرور تھے‘ اچھا کھایا‘ اچھا پہنا‘ بچوں کو پڑھا یا لکھایا‘ اپنی تمام تر ملکی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوئے‘ ہر شادی غمی میں شریک‘ اُردو کا معاملہ ہو تو جلوس میں پیدل پیش پیش‘ میری بیاض پر مولانا نے دو بار اپنی پسند کے شعر لکھے‘ یہاں نقل کرتا ہوں:
باسمہ سُبحانہ
باایں ہمہ بیچارگی و ہیچ کسی
واماندہ بہ نارسائی و بوالہوسی
دادیم نشاں ز گنجِ مقصود ترا
گر ما نرسیم تو شاید بہ رسی
ازصد سخنِ پیرم یک حرف مرا یاد است
عالم نشود ویراں تا میکدہ آباد است
تاجاں کہ تواند داد حال آنکہ تواند بُرد
جاں دادن و دل بُردن ایں ہردو خدا دادست
مجھ سے مرحوم کی جو دو ایک ملاقاتیں ہوئیں وہ سرسری ہی تھیں‘ بہت چاہا محمد آباد آجائیں‘ صد سالہ تقریبات غالب کے سلسلے میں کراچی گئے‘ یہ ایک ترکیب اور تقریب نکلی تو تھی، طرح دے کر بالا بالا نکل گئے۔ برسوں تصویر کے تقاضے کئے‘ آج کل پر ٹالتے رہے‘ بعد از رحلت ایک تصویر ملی‘ پتلون چسٹر، بوٹ ‘ ٹائی۔ غالبی وضع کی ٹوپی‘ ایک ہاتھ میں دستانے ایک میں چھڑی ‘گول تالوں کی عینک‘ ہلکی مونچھیں‘ بھاری بھرکم سیدھے الف‘ ٹھکے ہوئے‘ گول چہرہ ‘چاہ ذقن‘ لمبی ناک‘ رنگ مجھے یاد ہے گندمی تھا‘ سیاہ فام نہ تھے۔ تصویر دیکھ کر کہنا پڑا۔۔۔۔ گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی۔ آخر میں لباس اچکن اور شیروانی رہ گیا تھا۔
پھولپور ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے‘ دس سال کے تھے کہ والد چوہدری محمد علی خاں کا انتقال ہوگیا‘ والدہ نے پال پوس کر جوان کر دیا‘ پڑھایا لکھایا‘ بی اے کر کے حیدرآباد دکن چلے گئے‘ وہاں محکمہ تعلیم میں گردش کرنے کے بعد لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے۔ ادبی‘ سیاسی ‘صحافتی حلقوں میں مقبول اور محترم‘ مقبول کم محترم زیادہ۔ ستّر برس جیے‘ لاہور ہی میں دفن ہوئے ع
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
19 جون 1967ء
آج کا مطلع
گرچہ کہتی تو نہیں خلق خدا سب اچھا
شور ہے پھر بھی ہر ایک سمت بپا سب اچھا