تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     23-05-2016

چین کو چلئے…(4)

شیان جانے کے لئے ہم ایئرپورٹ روانہ ہو رہے ہیں۔ سامان پہلے ہی ایئرپورٹ جا چکا ہے۔ بورڈنگ پاس لینے کا کام مادام ڈو اور ان کے معاون کر رہے ہیں ۔ہم آرام سے وی آئی پی روم میں براجمان ہیں۔ CPIFA کی جانب سے مادام ڈو کے علاوہ مسٹر ہان بھی ہمارے ساتھ شیان جا رہے ہیں۔ بیجنگ ایئرپورٹ پر ایک نہیں کئی وی آئی پی روم ہیں۔ جہاز روانگی سکیوروٹی کے لئے تیار ہے۔ سیکورٹی گیٹ سے گذرتے ہیں یہاں چار لڑکیاں پولیس کی وردی پہنے کھڑی ہیں اور مستعدی سے ہر مسافر کی جامہ تلاشی لے رہی ہیں۔ جامہ تلاشی سے کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں۔ ان دھان پان سی لڑکیوں کے سامنے ہر کوئی ساکت اور مؤدب کھڑا ہے۔ چین میں ریاست تگڑی اور ادارے مضبوط ہیں۔ یہ لڑکیاں ریاست کی رٹ ظاہر کر رہی ہیں اگر کوئی ان کی حکم عدولی کرے گا تو سیدھا جیل جائے گا۔ جہاز میں ایئر ہوسٹس سے انگریزی کا اخبار مانگا چین میں اب کئی انگریزی اخبار نکلتے ہیں اخبار میں ایک کالم انتہائی دلچسپ ہے اور یہ آج کے چین میں ازدواجی مسائل سے متعلق ہے۔ معاشی خوشحالی آنے سے طرز زندگی تیزی سے بدل رہا ہے ۔خواتین ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں ۔طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے ۔ ایک حالیہ سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کالم نگار لکھتا ہے کہ ہر تین چینی خاوندوں میں سے ایک شادی سے باہر افیئر چلا رہا ہے جبکہ بیویوں میں سے سات میں صرف ایک ہی ایسی حرکت کر رہی ہے ۔اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ چینی بیویاں اپنے خاوندوں کے مقابلے میں زیادہ وفاشعار ہیں۔
آگے چل کر کالم نے جاسوسی کہانی والی شکل اختیار کر لی ہے ۔ایسا خاوند یا بیوی‘ جسے اپنے شریک حیات کی حرکتوں پر شک ہو اور پرائیویٹ جاسوسوں کی فیس ادا کرسکے وہ ان کی خدمات حاصل کرتاہے۔ کالم نگار نے یہ بھی لکھا ہے کہ پرائیویٹ جاسوس کے پیشے کو قانونی حیثیت حاصل نہیں لیکن پھر بھی کئی لوگ یہ کام کر رہے ہیں ۔یہ لوگ اپنے شکار کا بڑی مہارت سے پیچھا کرتے ہیں۔ بے وفائی کو ثابت کرنے کے لیے انٹرنیٹ اکائونٹ اور موبائل فون کالز کا پتہ لگاتے ہیں اور اگر مطلوبہ شخص مشکوک حالت میں نظر آ جائے تو ویڈیو بھی بنا لیتے ہیں۔ اس تمام مواد کی مدد سے اگر کوئی خاوند یا بیوی یہ ثابت کر دے میرا شریک حیات بے وفائی کر رہا ہے تو کورٹ جرمانہ کر سکتی ہے اور شکایت کنندہ کو طلاق کی صورت میں معقول معاوضہ بھی ملتا ہے۔ گڑ بڑ کرنے والا یا تو آئندہ کے لیے تائب ہو جاتا ہے بصورت دیگر طلاق بھی ہو گی اور جرمانہ بھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین میں قانون کی بالادستی ہے اور لوگوں کو عدالتوں سے انصاف ملتا ہے۔
بیجنگ سے شیان کی پرواز تقریباً دو گھنٹے کی ہے شیان وسط چائنا میں واقع ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ چار شاہی خاندانوں کا دارالحکومت رہا۔ دراصل موجودہ چین کی تاریخ ہی اس شہر سے آغاز پاتی ہے 221 قبل مسیح میںشہنشاہ چن Qin نے چین کو متحد کیا چینی زبان میں کیو Q کا آہنگ CH (چ) والا ہے۔ دراصل چین نے اپنا موجودہ نام بھی شہنشاہ چن سے حاصل کیا۔ شیان میں ہمارا قیام شہر سے باہر ایک خوبصورت ریزرٹ ہوٹل میں ہے۔ ہوٹل کے بالکل ساتھ گرم چشمہ ہے۔ قدرتی گرم چشمہ کے پانی میں نہانا کئی جلدی امراض کے لیے فائدہ مند ہے۔ شیان کوئی عام شہر نہیں یہ تاریخ کی کھلی ہوئی کتاب ہے۔ آب و ہوا صحت دوست ہے۔ شہر دو حصوں میں تقسیم ہے قدیم اور جدید۔ قدیم شہر کے گرد تیرہ کلومیٹر لمبی فصیل ہے۔ تیرہ سو سال پرانی مسجد بھی ہے شیان میں اس وقت بیس ہزار مسلمان رہتے ہیں ۔بدھ مت کے پگوڈے قابل دید ہیں لیکن وہ تاریخی اہمیت کی چیز جس کی 
وجہ سے شیان پوری دنیا میں مشہور ہے وہ اس کا ٹیراکوٹا Terra Cotta نامی میوزیم ہے۔ چین کا ایک شہنشاہ جن شی ہوانگ گزرا ہے اس کے مقبرہ کے اردگرد تقریباً دو ہزار سپاہیوں کے قد آدم مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔ قدیم چین میں یہ عقیدہ تھا کہ انسان مرنے کے بعد پھر سے زندہ ہوتا ہے یہ مجسمے شہنشاہ کی حفاظت پر مامور زندہ افسروں اور سپاہیوں کے ہیں۔ ہر مجسمہ مختلف نقوش رکھتا ہے۔ انسانی مجسموں کے علاوہ گھوڑوں کے مجسمے بھی ملے ہیں اور بگھیاں بھی۔ تاریخی تشریح یہ بتائی جاتی ہے کہ چینی عقائد کے مطابق بادشاہ کا دوبارہ زندہ ہونا لازمی امر تھا اور اُس صورت میں ان مجسموں نے بھی دوبارہ زندگی پا کر ایک بار پھر بادشاہ کی سکیورٹی کے فرائض سنبھالنا تھے‘ یہ تمام مجسمے ایک خاص میٹریل سے بنائے گئے ہیں جسے Terra Cotta کہا جاتا ہے۔
قدیم شیان کی فصیل جو پرانے شہر کا احاطہ کرتی تھی تیرہ کلومیٹر لمبی ہے۔ فصیل چالیس فٹ بلند ہے۔ مغل عمارتوں کی طرح چھوٹی اینٹ یعنی گٹکے سے بنی ہوئی ہے۔ زمین پر فصیل کا عرض پچاس فٹ ہے جبکہ اوپر جا کر چالیس فٹ رہ جاتا ہے۔ اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بھی دیوار کی حالت اچھی ہے۔ ہم دیوار کے اوپر گئے دیوار کی بلندی سے اردگرد کی تاریخی عمارتیں 
خوبصورت لگتی ہیں ۔ آئیے !اب شیان کی تاریخی مسجد چلتے ہیں۔ مسجد چینی اور اسلامی طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ مسجد کا دالان وسیع باغیچے کی طرح ہے۔ مین ہال میں ایک ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ عیدین کی نماز کے لیے دالان بھی استعمال ہوتا ہے۔ چین میں اسلام حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں آیا۔ عرب تاجر اپنا سامان لے کر چین جاتے تھے کچھ نے چینی خواتین سے شادیاں کیں اور یہیں کے ہو گئے۔ حضرت عثمانؓ نے مشہور صحابی حضرت سعد بن وقاصؓ کی قیادت میں ایک وفد بھیجا‘ یہ صحابی چین میں ہی مدفون ہیں۔ شیان کے مفصل بیان کے لیے متعدد کالم درکار ہیں۔ صوبائی انتظامیہ نے ہمیں پرتکلف ظہرانہ دیا۔ چین میں ویٹر کے فرائض اکثر لڑکیاں سرانجام دیتی ہیں۔ کھانے کے بعد ہم انڈسٹریل ایریا اور مواصلات کا نیا نظام دیکھنے گئے شیان کا ماضی تو شاندار ہے ہی اس کا مستقبل بھی تابناک ہے۔ 2012ء میں Logishi Park پر کام شروع ہوا اور کافی کچھ بن چکا ہے شیان سے ہالینڈ تک ٹرین چلے گی۔ ان میں سے زیادہ گڈز ٹرینیں ہونگی۔ تجارت کا فروغ چینی اقتصادی پلاننگ کا محور ہے۔ تجارت ‘دوستی اور امن کو فروغ دیتی ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم شیان سے شروع ہوتی تھی اور اب جدید شیان سڑکوں‘ بلٹ ٹرین ‘ انٹرنیشنل ٹریڈ اور جدید وسیع تعلیم کا مرکز بن رہا ہے۔ شہر کی تیز اقتصادی ترقی اس کے روشن مستقبل کی نوید ہے۔ ہمارا اگلا پڑائو ارمچی میں تھا جس کا ذکر آئندہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved