آج کل ہمارے ہاں پاناما لیکس، دبئی لیکس اور آف شورکمپنیوں کاشور و غوغا ہے۔ آگے چل کرنہ جانے کون کون سی نئی آفات اور بے پناہ دولت جمع کرنے کے کون کون سے نئے عنوانات سامنے آئیں گے۔ ہماری سیاسی قیادت کے اثاثے میں استثناء کی گنجائش کم ہے ،گنتی کے چند لوگ شاید بے داغ اور پارسا ثابت ہوں۔انسان کی نفسیات یہ ہے کہ دنیا کی نعمتوں میں سے جو چیز وافر مقدار میں دستیاب ہوجائے، اُس کی طلب اور ہوس کم ہوجاتی ہے،لیکن مال وزر اور دولت ایسی آفت ہے کہ جتنی اس کی کثرت ہوتی جاتی ہے، اتنی ہی اس کی طلب اور ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے اور انسان کہے: بس بہت ہوچکا، جسے انگریزی میں Enough is Enough سے تعبیر کرتے ہیں۔ اِسی بشری کمزوری کو رسول اللہ ﷺ نے ان کلمات میں بیان فرمایا(1): ''عباس بن سہل بن سعد نے کہا: میں نے مکۂ مکرمہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر خطبے کے دوران یہ کلمات کہتے ہوئے سنا: اے لوگو! بے شک نبی ﷺ نے فرمایا: اگر ابنِ آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی عطا کردی جائے تو وہ چاہے گا کہ اسے ایسی دوسری وادی بھی مل جائے اور اگر اسے دوسری وادی بھی عطا کردی جائے، تو وہ چاہے گا کہ اسے ایسی تیسری وادیٔ زربھی مل جائے اور ابن ِآدم کا پیٹ صرف(قبر کی) مٹی ہی بھر سکتی ہے،(بخاری:6438)‘‘۔ (2)''ابوزبیر نے حضرت جابر سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر بنی آدم کے لیے ایک وادی ہوجائے، تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرے گا؟حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اگر ابن آدم کے لیے کھجوروں کے باغات کی ایک پوری وادی ہوجائے، تو وہ اس جیسی ایک اور وادی کی تمنا کرے گا اور اگراسے دوسری وادی بھی مل جائے تو (اس کی ہوس ختم نہیں ہوگی بلکہ) وہ تمنا کرے گا کہ اس جیسی کئی وادیاں ہو جائیں اور ابن آدم کے پیٹ کو آخر کار (قبر کی) مٹی ہی بھرے گی،(مسند احمد:14665)‘‘۔
اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ان کلمات میں بیان فرمایا: ''(اے انسان!) تمہیں کثرتِ مال کی خواہش نے (اللہ سے ) غافل کردیا،یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ جائو گے،(التکاثر:1-2)‘‘۔ الغرض اللہ کو مسبِّبُ الاسباب اور قاضیُ الحاجات ماننے کی بجائے، انسان کا دولت کے قاضی الحاجات ہونے پر یقین زیادہ ہوگیاہے، ایک صاحب کہا کرتے ہیں:
کیسا نبی ،کیسا خدا
پیسا نبی، پیسا خدا
اسی معنی میں دلاور فگارنے کہا ہے:
حاکمِ رشوت ستاں، فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتائوں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
لیکن انجامِ کار نتیجہ یہی ہے کہ یہ مال وزر، یہ دولتِ دنیا بہر حال فانی ہے اور انسانی زندگی بھی لافانی نہیں ہے،کتنے ہی لوگ آپ کو ایسے ملیں گے کہ جنہیں دنیا کی ہر نعمت میسر ہے، مگربوجوہ اُن نعمتوں سے لطف اندوز ہونے نہیں ہو پاتے،کیا یہ سامانِ عبرت دیدۂ دل کو وا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟
یہاں کے احتساب اور نظامِ عدل سے چھوٹنے کی تو ہزار تدبیریں کی جاسکتی ہیں،لیکن جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی حقیقی عدالت لگے گی تو پھر کوئی حیلہ،کوئی مکر اور کوئی تدبیر کام نہیں آئے گی۔ دولتِ دنیا کی بے قدری کی تصویر کشی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی: ''وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب کے احکام کو مانا،اُن کے لیے (آخرت میں )اچھا اجر ہے اور جنہوں نے اللہ کے احکام کو نہیں مانا (اور دنیا کی دولت جمع کرنے میں مگن رہے،قیامت کے دن ) اگر وہ زمین کی ساری دولت کے بھی مالک بن جائیں اور اتنی ہی اور بھی انہیں مل جائے تو (اپنی نجات کے لیے ) وہ یہ ساری دولت فدیے کے طور پر دے دیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کا سخت حساب ہوگا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے،(الرعد:18)‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ''اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا، اگر زمین کی ساری دولت کے مالک بن جائیں اور اتنی ہی انہیں اور بھی مل جائے تو قیامت کے دن کے بدترین عذاب سے (چھٹکارے کے لیے ) اسے فدیہ دے دیں اور اُن کے لیے اللہ کی جانب سے وہ انجام ظاہر ہوگا،جو اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا، (الزمر:47)‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو جائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی رنگ برنگی اون کی طرح ہوجائیں گے اور کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا،حالانکہ وہ سب انہیں دکھا دیئے جائیں گے(اس دن) مجرم تمنا کرے گا کہ کاش وہ اپنے بیٹوں،اپنی بیوی،اپنے بھائی اور اپنے کنبے کو جو (ہر مصیبت کے وقت )اُسے پناہ دیتے تھے اور اُن سب کو جو زمین میں ہیں،اس دن کے عذاب سے رہائی کے بدلے میں فدیے کے طور پر دے دیں،پھر یہ بدلہ اسے عذاب سے نجات دے دے، (المعارج:8-14)‘‘۔
اس موضوع پر آیاتِ الٰہیہ بہت ہیں،کاش کہ ہم ان پر غور کرلیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''کیا یہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں،(محمد:24)‘‘۔ ماضی کے فرعونوں،نمرودوں اور بادشاہوں کی داستانیں ہر سو پھیلی ہوئی ہیں اور اُن کے کھنڈرات اور آثار دولت واقتدارِ دنیا کی ناپائیداری کا کھلا اشتہار ہیں، لیکن انسان کی فطری کمزوری کو اللہ تعالیٰ نے ان کلمات میں بیان فرمایا :''حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ سینوں میں دھڑکنے والے دل بصیرت سے محروم ہوجاتے ہیں، (الحج:46)‘‘۔ سکندرِ اعظم جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس نے آدھی دنیا فتح کرلی تھی،اُس کی بے بسی کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا:
مہیا گرچہ سب اسباب ملکی اورمالی تھے
سکندر جب گیادنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے
اورسید ولی محمد نظیر اکبر آبادی نے دنیا کی ناپائیداری کے بارے میں نہایت بامعنی اشعار کہے تھے :
کچھ کام نہ آوے گا تیرے، یہ لَعل زَمرد سیم و زر
جو پونجی بات میں بکھرے گی ،پھر آن بنے جاں اوپر
نقّارے نوبت بان نشان،دولت حشمت فوجیں لشکر
کیا مسند تکیہ ،ملک مکاں، کیا چوکی کرسی تخت چھپر
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا، جب لاد چلے گا بنجارا
ہر آن نفع اور ٹوٹے میں، کیوں مرتا پھرتا ہے بَن بَن
ذیل میں ہم عبرت کے طور پر ایک طویل حدیث پیش کر رہے ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے: کوڑھی، گنجا اور اندھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آزمائش کے لیے ایک فرشتہ ان کی طرف بھیجا۔ وہ فرشتہ کوڑھی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟اس نے کہا: خوب صورت رنگ اور خوبصورت کھال،لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ آپﷺ نے بتایا: پس فرشتہ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس سے کوڑھ چلی گئی، پس اس کو خوب صورت رنگ اور خوب صورت کھال دی گئی، پھر اس سے پوچھا : تمہیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟اس نے (اپنے عہد کے مطابق)کہا: اونٹ یا فرمایا:گائے، سو اس کو دس اونٹنیاں دے دی گئیں، پھر کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں ان میں برکت دے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس گیا اوراس سے پوچھا : تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: خوب صورت بال اور میرا یہ گنج چلا جائے، لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔ آپ ﷺنے بتایا : پھر فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کا گنج چلا گیا اور اس کو خوبصورت بال دیئے گئے، پھر اس سے پوچھا: تمہیں کون سال مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے بتایا: گائے، تو فرشتہ نے اس کو ایک گابھن گائے دی اور کہا: اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے! پھر فرشتہ اندھے کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: تمہیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ میری بینائی لوٹادے اور میں اس سے لوگوں کو دیکھوں۔ فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹادی، پھراس سے پوچھا: کون سا مال تم کو سب سے زیادہ پسند ہے؟اس نے کہا: بکریاں۔ پس فرشتے نے اس کو بکریاں دیں اوران کے ہاں بھی بچے ہوئے۔ پس کوڑھی کے ہاں وادی اونٹوں سے بھر گئی اورگنجے کے ہاں وادی گایوں سے بھر گئی اور اندھے کے ہاں وادی بکریوں سے بھر گئی۔ پھرفرشتہ کوڑھی کے پاس اسی شکل وصورت میں آیا اور کہا: میں ایک مسکین مرد ہوں، میرے سفر میں میرے ذرائع آمدنی منقطع ہوگئے ہیں، اللہ کے سوا اب میرا اور کوئی سہارا نہیں ہے، میں تم سے اس ذات کے نام پر سوال کرتا ہوں جس نے تم کو خوب صورت رنگ اور خوب صورت کھال عطاکی ہے اور اونٹوں کا مال عطا کیا ہے۔ تم مجھے ایک اونٹ دے دو، جس کے ذریعے میں اپنا سفر جاری رکھ سکوں۔ اس نے کہا: میرے ذمے بہت زیادہ حقوق ہیں۔ پھر فرشتے نے کہا: شاید میں تمہیں پہچانتا ہوں، کیا تم کوڑھی نہیں تھے! تم سے لوگ گھن کھاتے تھے،تم فقیر تھے، پس اللہ تعالیٰ نے تم کو (مال )عطا کیا۔ اس نے کہا: میں اس مال کا اپنے آبائواجدادسے وارث ہوں۔ فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت کی طرف لوٹادے۔ پھرفرشتہ اسی شکل وصورت میں گنجے کے پاس گیا اور اس سے بھی اسی طرح کاسوال کیا، اس نے بھی فرشتے کواسی طرح جواب دیا۔ پھر فرشتے نے کہا: اگر تم جھوٹے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں پہلی حالت کی طرف لوٹا دے۔ پھر وہ اسی صورت میں اندھے کے پاس گیااور اُسی طرح کا سوال کیا اورکہا: میں تم سے اس ذات کے نام سے سوال کرتا ہوں جس نے تمہاری بینائی لوٹائی ہے کہ تم مجھے ایک بکری دے دو، جس کے ذریعے میں اپنی ضروریات پوری کرسکوں۔ اس شخص نے کہا: میں اندھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے میری بصارت لوٹادی اور میں محتاج تھا تو اس نے مجھے غنی کردیا، پس تم جتنا چاہتے ہو وہ لے لو، اللہ کی قسم! آج تم جو کچھ بھی اللہ (کی رضا)کے لیے لو گے میں تم کو اس سے نہیں روکوں گا۔ فرشتے نے کہا: تم اپنا مال اپنے پاس رکھو، تم سب کی آزمائش کی گئی تھی، اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہوگیا اور تمہارے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہوگیا،(صحیح البخاری:3464)۔