آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بھارت کے پانچ صوبوں کے حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ جہاں اپوزیشن کانگریس کا براہ راست مقابلہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے ساتھ ہے، وہاں کانگریس کی ہزیمت کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ بھارت کی مڈل کلاس ابھی تک کانگریس کے نائب صدر اور گاندھی خانوادہ کے جانشین راہول گاندھی کو بطور لیڈر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان انتخابات میں دو اہم صوبے۔۔۔ شمال مشرقی صوبہ آسام اور جنوبی ساحلی ریاست کیرالا کانگریس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ اہم صوبوں میں کانگریس کے پاس اب صرف کرناٹک بچا ہے۔ بھارت کے جغرافیائی رقبہ کے صرف 6 فیصد حصے پر اس وقت کانگریس کی حکمرانی ہے۔ یہ بات بھی اب تقریباً ثابت ہوگئی ہے کہ صرف غیر کانگریس مقامی سیکولر پارٹیاں ہی بی جے پی کی نکیل کسنے کی قوت رکھتی ہیں، چاہے وہ بہار میں جنتا دل کے لیڈر نتیش کمار ہوں، دہلی میں عام آدمی پارٹی یا مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس۔ تجزیہ کاروں کے بقول اگر ہزیمتوں کا یہ سلسلہ اگلے سال اتر پردیش اور پنجاب میں بھی جاری رہا تو کانگریس کے اندر ہی راہول گاندھی کے خلاف بغاوت کا اندیشہ ہے۔ اب بھی کانگریسی لیڈرز دبی آوازوں میں راہول کی ہمشیرہ پریانکا گاندھی وڈرہ کو کمان سنبھالنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر راہول کی لیڈر شپ پر انکا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر آسام میں پچھلے پندرہ سال سے مسلسل وزارت اعلیٰ کی مسند پر فائز ترون گوگوئی کو دو سال قبل لو ک سبھا انتخابات میں ہارنے کے فوراً بعد ہٹا کر ان کے نائب ہیمنت بسوا سرما کو اس مسند پر بٹھا گیا ہوتا تو شاید کانگریس کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ راہول بسوا سرما کے بجائے ترون گوگوئی کے صاحبزادے اور اپنے دوست گورو گوگوئی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے
خواہشمند تھے، مگرپارٹی کے اندر اپوزیشن کو مدنظر رکھ کر انہوں نے بڑے گوگوئی کو ہی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر برقرار رکھا۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ پچھلے سال ہیمنت بسوا سرما جب راہول گاندھی سے ملاقات کے لئے دہلی پہنچے تو انہیں کئی دن تک انتظار کروایا گیا۔ ہیمت کے بقول جب ان کو شرف باریابی نصیب ہوا تو راہول گاندھی کے ایک معتمد نے انہیں کہا کہ وہ اپنا مدعا صرف دو منٹ میں بیان کریں کیونکہ راہول دو منٹ سے زیادہ کسی موضوع پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔ دیگر لیڈروں کے ہمراہ جب ہیمنت بسوا سرما، راہول گاندھی کے ڈرائنگ روم میں براجمان ہوئے اور آسام میں لیڈرشپ اور دیگر اہم قومی مسئلوں کے حوالے سے گفتگو کا آغازہی کیا کہ کمرے میں راہول گاندھی کا ایک اعلیٰ نسل کا پالتو کتا نمودار ہوا۔ بس پھر کیا تھا، راہول بجائے قومی مسائل میں سر کھپانے کے کتے سے کھیلنے لگے۔ مہمانوں کے لئے لمحہ بھر قبل ملازموں نے چائے اور بسکٹ میز پر رکھے تھے، کتے نے ان پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے پلیٹیں چاٹنی شروع کر دیں۔ راہول بجائے کتے کو بھگانے کے، اس کو اور بھی سہلارہے تھے۔کمرے سے باہر آتے ہی سرما نے دیگر لیڈروںکوکہا کہ اب ان(سرما) کے دن کانگریس میں پورے ہو چکے ہیں۔ چنانچہ کچھ عرصے کے بعد وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے اور اس کی حالیہ جیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ بات درست ہے کہ سرما کی صورت میں ایک اہم لیڈر پانے کے علاوہ بی جے پی نے دو علاقائی جماعتوں سے الحاق کرکے اپنی پوزیشن مضبوط بنائی تھی، مگر کانگریس کی نخوت اورگھمنڈ نے بھی اس کی راہ ہموار کی۔
اگر کانگریس نے سیکولر ووٹوں کی تقسیم ہونے سے بچانے کی ذرا بھر بھی کوشش کی ہوتی تو نتائج بالکل مختلف ہوتے۔آسام میںکانگریس کو31 فیصد ووٹ ملے تو مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ ( اے آئی یو ڈی ایف ) کو 13فیصد ووٹ ملے۔ اگر دونوں مل کر الیکشن لڑتے تو 44 فیصد ووٹ حاصل کرکے اکثریت حاصل کرتے، مگر کانگریس آج بھی60 سالہ اقتدارکے زعم سے باہر نہیں نکل پا رہی ہے۔ اسی لئے شاید مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ نریندرمودی کا سب سے بڑا سرمایہ راہول گاندھی ہی ہیں۔
آسام میں مسلمانوں کا موقف یہ تھا کہ وہ کیرالا کی طرح ایک بڑی سیاسی قوت اور بادشاہ گر بن سکتے تھے۔ اجمل کے بقول کانگریس کو بی جے پی کا اقتدار میں آنا گوارا تھا مگر اے آئی یو ڈی ایف کے ساتھ ہاتھ ملانے میں تامل تھا۔کئی علاقوں میں تو کانگریس نے بی جے پی کے بجائے اے آئی یو ڈی ایف کو ہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ آسام بنیادی طور پر ایک قبائلی ریاست ہے جہاں کی تقریباً40 فیصد آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے، یعنی ان کا ہندو دھرم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی خوف فرقہ پرستوں کو ستاتا رہاکہ انتخابی نظام کی کمزوری کے سبب کہیں مسلمان اقتدار پر فائز نہ ہوجائیں؛ چنانچہ صوبہ میں نام نہاد بنگلہ دیشی کے نام پر بنگالی آبادی کو ہراساں کیا گیا جس کا مقصد انہیں اقتدار سے دور رکھنا تھا۔ اس فتنے کا آغاز اس وقت ہوا جب1978ء میں پہلی بار اسمبلی کے چھٹے انتخابات میں 16، 17مسلمان منتخب ہوگئے۔ اس پر آسمان سر پر اٹھا لیا گیا کہ آسام کو''اسلامی ریاست ‘‘ میں تبدیل کرنے کے لئے بنگلہ دیشی مسلمانوں کا ایک ریلا چلا آرہا ہے۔ اسی طرح 1979ء میں فرقہ پرست تنظیموں اور حکومتوںکی در پردہ حمایت سے طلبا کی ایک تحریک کھڑی کی گئی۔۔۔ آل آسام اسٹوڈنٹس یونین، جس نے صدیوں سے آباد بنگالی آبادی کے خلاف پر تشدد اور خونین مہم چلائی۔ فروری 1983ء میں ہندوستان کی تاریخ میں قتل عام کا سب سے بڑا واقعہ پیش آیا۔ ضلع نوگائوں کے قریہ نیلی تین سے پانچ ہزار افرادکو بیدردی سے قتل کردیا گیا جن میں بچے، عورتیں اور بوڑھے شامل تھے۔ اس بہیمانہ قتل عام کے مجرموںکو آج تک سزا نہیں ملی۔ اسے ایسے دبا دیا گیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ بنگالی مسلمانوںکے خلاف یہ مہم چلانے والی آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے بطن سے نکلی آسام گن پریشد کو بطور انعام اقتدار سونپ دیا گیا۔
اس کے بعد اب تک 'بنگلہ دیشی دراندازوں‘ کا نام نہاد مسئلہ فرقہ پرست جماعتوں کے لئے ایک مجرب سیاسی حربہ بنا ہوا ہے۔ دراصل اس کی پشت پر یہی نفسیات کار فرما نظر آتی ہے کہ آسام کے مسلمان 'شیر‘ بن کر نہ رہیں۔ ان کے سر پر شہریت کی تلوار لٹکادی گئی، تقریباً پانچ لاکھ بنگالیوںکو مشتبہ یا ڈی ووٹر قرار دے دیا گیا۔ مرکز میں جب بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کی حکومت تھی اس نے 2003ء میں بوڈولبریشن ٹائیگرز سے معاہدہ کرکے بوڈ وعلاقائی کونسل قائم کر لی تھی۔یہ معاہدہ جنوبی افریقہ کی سفید فام اقلیت کے نسلی حکمرانی
(اپارتھیڈ رول) کی یاد دلاتا ہے کیونکہ جن اضلاع میں یہ کونسل قائم کی گئی ان میں بوڈو قبائل کی تعداد محض 28فیصد ہے۔ اس پس منظر میں بنگالی بولنے والی آبادی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے 1980ء کی دہائی میں یونائٹیڈ مائنارٹیز فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم بنائی تھی لیکن یہ تجربہ باہمی اختلافات کی وجہ سے زیادہ کامیاب نہ ہوسکا؛ حالانکہ اسے اسمبلی اور پارلیمنٹ میں قابل ذکر کامیابی ملی تھی۔ فرنٹ سے منتخب ہونے والے رکن پارلیمان بیرسٹر ایف ایم غلام عثمانی ( مرحوم) اور دیگر لیڈرکانگریس میں چلے گئے۔ ریاست کے حالات اورکانگریسی حکومت کے رویے سے مایوس ہوکر اکتوبر 2005ء میں اس تجربے کا احیا کیا گیا۔ صوبے کی 13ملی تنظیموں نے ایک نیا سیاسی محاذ آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے تشکیل دیا جس میں ایڈووکیٹ عبدالرشید چودھری کا اہم رول رہا، لیکن انہوں نے اس کی قیادت قبول نہیںکی کیونکہ کوئی سیاسی جماعت چلانے کے لئے پیسے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ قرعہ فال عود اور عطرکے بڑے تاجر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی کے نام نکلا۔ ا ن کی قیادت میں فرنٹ ریاست میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت بن گیا اور پارلیمنٹ میں بھی اس کی نمائندگی ایک سے بڑھ کر تین ہوگئی۔ لیکن انہوں نے بہت جلد اسے اپنی خاندانی جماعت بنانا شروع کردیا۔ بدرالدرین کے علاوہ ان کا چھوٹا بھائی سراج اجمل بھی رکن پارلیمان ہے جبکہ بیٹا صوبائی اسمبلی کا رکن تھا۔ یو ڈی ایف پر بڑھتے ہوئے خاندانی تسلط اور مولانا اجمل کی غلط پالیسوں اور آمرانہ رویہ کے خلاف بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی ۔ جب دو اسمبلی ارکان شریمن علی اور عطا الرحمن مزاربھوئیاں نے اس غیر جمہوری طریقہ کار کے خلاف آواز اٹھائی تو مولانا اجمل نے انہیں پارٹی کی رکنیت سے معطل کردیا۔(بقیہ صفحہ13 پر)
ان ارکان کاالزام تھاکہ مولانا اجمل نے (بقیہ صفحہ13 پر)
وزیراعلیٰ گوگوئی کو نیچا دکھانے کی غرض سے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں سب حلقوں میں امیدوار کھڑے کرکے بی جے پی کی کامیابی کا راستہ ہموارکیا تھا۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے 126میں سے 76 اسمبلی نشستو ں پر امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ فرنٹ کے بغیر اس دفعہ کوئی حکومت نہیں بنا سکے گا۔ اس دعوی کے علی الرغم مولانا اجمل سے آسامی مسلمانوںکا ایک بڑا طبقہ سخت ناراض ہے اور اس بات سے فکر مندکہ سیکولر ووٹوںکی تقسیم سے بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔کانگریس کے متکبرانہ رویہ کے علاوہ مولانا اجمل کی اپنی شخصیت بھی ہارکی ذمہ دار ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگ رہے تھے۔ وہ جو فلاحی ادارے چلارہے ہیں وہ انک ی کمپنی کی آمدنی کے دو فیصد حصہ سے چلاتے ہیں جسے کمپنی ایکٹ کے تحت خرچ کرنا لازمی ہے۔ علاوہ ازیں ان پر بیرونی ملکوں سے عطیات لاکر اسے صحیح مدوں میں خرچ نہ کرنے کا بھی الزام تھا۔ ان کے بیٹے پر علاقہ میںاین آر آئی‘ ایم ایل اے کی پھبتی کسی جاتی ہے جن کا زیادہ تر وقت کاروبار کے سلسلہ میں خلیجی ملکوں میں گزرتا ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یو نیورسٹی کے بانی اور چانسلر ڈاکٹر محبوب الحق نے کہا کہ ووٹروں نے بدرالدین اجمل کو اس لئے بھی سزا دی کہ انہوں نے ریاست کے مسلمانوںکو اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے خود مختار اور کفیل بنانے کے لئے کبھی کوشش نہیںکی۔ وہ قوم کو جاہل اور غریب رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ا ن کی بندھوا ووٹر بنی رہے۔
ان ارکان کاالزام تھاکہ مولانا اجمل نے وزیراعلیٰ گوگوئی کو نیچا دکھانے کی غرض سے گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں سب حلقوں میں امیدوار کھڑے کرکے بی جے پی کی کامیابی کا راستہ ہموارکیا تھا۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے 126میں سے 76 اسمبلی نشستو ں پر امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا اور دعویٰ کیا کہ فرنٹ کے بغیر اس دفعہ کوئی حکومت نہیں بنا سکے گا۔ اس دعوی کے علی الرغم مولانا اجمل سے آسامی مسلمانوںکا ایک بڑا طبقہ سخت ناراض ہے اور اس بات سے فکر مندکہ سیکولر ووٹوںکی تقسیم سے بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔کانگریس کے متکبرانہ رویہ کے علاوہ مولانا اجمل کی اپنی شخصیت بھی ہارکی ذمہ دار ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگ رہے تھے۔ وہ جو فلاحی ادارے چلارہے ہیں وہ ان کی کمپنی کی آمدنی کے دو فیصد حصہ سے چلاتے ہیں جسے کمپنی ایکٹ کے تحت خرچ کرنا لازمی ہے۔ علاوہ ازیں ان پر بیرونی ملکوں سے عطیات لاکر اسے صحیح مدوں میں خرچ نہ کرنے کا بھی الزام تھا۔ ان کے بیٹے پر علاقہ میںاین آر آئی‘ ایم ایل اے کی پھبتی کسی جاتی ہے جن کا زیادہ تر وقت کاروبار کے سلسلہ میں خلیجی ملکوں میں گزرتا ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یو نیورسٹی کے بانی اور چانسلر ڈاکٹر محبوب الحق نے کہا کہ ووٹروں نے بدرالدین اجمل کو اس لئے بھی سزا دی کہ انہوں نے ریاست کے مسلمانوںکو اقتصادی اور تعلیمی اعتبار سے خود مختار اور کفیل بنانے کے لئے کبھی کوشش نہیںکی۔ وہ قوم کو جاہل اور غریب رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ا ن کی بندھوا ووٹر بنی رہے۔