اسے رنگ ادب کراچی نے چھاپا اور قیمت1200روپے رکھی ہے۔ یہ شاعر کے چار مجموعوں چراغِ نیم شب‘ اکائی‘ مشرق اور بیاض پر مشتمل ہے۔ انتساب کچھ اس طرح سے ہے: سلیم احمد کی علمی و تخلیقی شخصیت کو بنانے والے پروفیسر کرار حسین اور پروفیسر محمد حسن عسکری کے نام۔ چراغِ نیم شب کی تحسین کرنے والوں میں ریاض فرشوری اور جاذب قریشی ہیں جبکہ اندرون سر ورق اکرام الحق شوق کی رائے درج ہے۔ ٹائٹل اور گٹ اپ عمدہ۔
جب ہم نے شعر کہنا شروع کیا تو سلیم احمد اس وقت تک مشہور ہو چکے تھے اور جس میں ان کی تنقید نگاری کا حصہ نمایاں تھا جس میں چونکا دینے والے عناصر بہرحال موجود تھے‘ خاص طور پر کتابوں کے نام مثلاً ''نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ اور ''غالب کون‘‘ وغیرہ۔ تنقید اور ڈرامہ نگاری میں وہ اتنا آگے نکل گئے کہ ان کی شاعری بہت پیچھے رہ گئی؛ چنانچہ اس بات پر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ پہلی دو کتابوں میں ایک بھی غیر معمولی شعر دستیاب نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ شعر معمولی ہیں تو کچھ زیادہ معمولی۔ اس کے باوجود یار لوگوں میں اس کی شاعری کی دھوم مچی ہوئی تھی۔
حق تو یہ ہے کہ کراچی نے کوئی بڑا شاعر پیدا ہی نہیں کیا‘ یعنی پنجاب سے اُبھرنے والے شعراء میں ن م راشد‘ مجید امجد‘ ناصر کاظمی‘ فیض احمد فیضؔ اور منیر نیازی کے کینڈے کے کسی شاعر کا یہاں سراغ نہیں ملتا۔ لے دے کے سلیم احمد ہیں اور جون ایلیا۔ جون ایلیا پھر بھی غنیمت ہے کہ اس نے اپنا ایک لہجہ تو استوار کیا جو اسی سے مخصوص ہے جبکہ سلیم احمد کی پہلی تین کتابوں میں ایک یکسانیت ہی ملتی ہے اور بس۔ سلیم احمد کو اہمیت اس وقت ملی جب اس نے اس یکسانیت کو توڑنے کی کوشش کی اور ایسے اشعار کہے جنہیں اینٹی غزل کا نام دیا گیا۔تاہم اینٹی غزل میں بھی شعریت کا اہتمام بروئے کار لانا پڑتا ہے‘ محض غیر مانوس‘ کھردرے الفاظ استعمال کرنے سے بات نہیں بنتی بلکہ بعض جگہ تو باقاعدہ کراہت محسوس ہونے لگتی ہے‘ مثلاً
تری جانب سے دل میں وسوسے ہیں
یہ کُتّے رات بھر بھونکا کیے ہیں
سر مُنڈاتے ہیں ہم سے آ کے خیال
اپنا پیشہ ہوا ہے حجّامی
سلیم احمد بہرحال ایک بڑا نام ہے اور جو جتنا بڑا نام ہواس سے توقع بھی اتنی ہی بڑی باندھی جاتی ہے۔ آخری کتاب''بیاض‘‘ میں پھر بھی بہتر اشعار دستیاب ہیں لیکن ایسے نہیں کہ آپ کو پکڑ کر بٹھا لیں۔ جب یہ شعر کہے گئے تھے‘ اس زمانے میں ممکن ہے کہ ان میں مطلوبہ تازگی بھی ہو جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی ہے ورنہ جس گرمجوشی سے سلیم احمد کو پڑھنے بیٹھا تھا‘ وہ رفتہ رفتہ کافور ہوتی چلی گئی کیونکہ شعر میں اتنا دم خم تو ہو کہ اپنی تاثیر کو قائم رکھ سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شعر کا فیشن ہی اس قدر تبدیل ہو چکا ہے کہ کوئی دھانسُو قسم کا شعر ہی آپ پر اپنا اثر چھوڑتا ہے حالانکہ شعر تو وہ ہے جسے جب بھی پڑھیں‘ تازہ لگے۔
یقیناً یہ شاعری اس شاعری سے بدرجہا بہتر ہے جو ہمارے اطراف میں منوں اور ٹنوں کے حساب سے تخلیق کی جا رہی ہے اور جس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے، لیکن جس سلیم احمد کا تصوّر ہمارے دل و دماغ میں محفوظ ہے وہ ان کتابوں میں بس خال خال ہی دستیاب ہوتا ہے۔ موصوف کا تیسرا مجموعہ''مشرق‘‘ نظموں کا مجموعہ ہے جو زیادہ تر طویل اور اکتا دینے والی ہیں، حتیٰ کہ انہیں پڑھنے کے لیے بھی اپنے آپ کو مجبور کرنا پڑتا ہے کیونکہ شاعری تو خود اپنے آپ کو پڑھواتی بلکہ خود پر لکھنے کے لیے بھی اکساتی ہے۔سو‘ معلوم ہوا کہ سلیم احمد بھی بس ہم جیسے ہی تھے!
جن اشعار میں سلیم احمد کا خاص رنگ جھلکتا ہے ان میں کچھ یہ ہیں:
جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے
ہم سے وہ یارِ طرحدار نہ سمجھا جائے
دل کے لینے میں سلیمؔ ان کو نہیں ہے انکار
لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے
قرض مع سود وصولیں گے کسی دن تجھ سے
دل کے کھاتے پہ ترا نام چڑھا رکھا ہے
اس کو ٹوٹا ہوا دل ہم بھی دکھائیں گے سلیمؔ
کوئی پوچھ آئے وہ کیا لیتے ہیں بنوائی کا
یا ان کا یہ شعر جو ضرب المثل بن چکا ہے ؎
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
ایک شعر پر تھوڑا تامل ہوا ‘ یعنی ؎
گانٹھتے ہیں پھٹے ہوئے جذبات
ہو کے سیّد بنے سلیمؔ چمار
یہاں سلیم احمد نے لفظ چمار کو موچی کے معنوں میں استعمال کیا ہے جبکہ میری ناقص رائے میں چمار چمرنگ یعنی چمڑا رنگنے والے کو کہتے ہیں۔ بس مجھے گمان سا ہی ہے‘ ہو سکتا ہے میں غلطی پر ہوں!
کتاب پر مزید جن حضرات نے خیال آرائی کی ہے اور جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی‘ عزیز حامد مدنی‘ شمیم احمد اور سراج منیر شامل ہیں‘ میں ان سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ سبھی ثقہ حضرات ہیں‘ میں تو محض اٹکل پچو سے کام لیتا ہوں اور میرے منہ کا ذائقہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ چنانچہ میں نے محض ان کے نیازمند اور ایک قاری کی حیثیت ہی سے اس شاعری کو دیکھا ہے اور مجھے اتنا مزہ نہیں آیا جتنے کی میں توقع کر رہا تھا۔
آج کا مطلع
الزام ایک یہ بھی اٹھا لینا چاہیے
اس شہرِ بے اماں کو بچا لینا چاہیے