تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-05-2016

بیماریوں میں دم کہاں؟

برازیل میں ایک شخص عجیب و غریب، جان لیوا قسم کی الجھن سے دوچار ہے۔ ہوا یہ کہ اُسے مچّھر نے پاؤں پر کاٹ لیا۔ تھوڑی سی تکلیف ہوئی مگر اُس نے توجہ دینا ضروری نہ سمجھا۔ اس لاپروائی کا انتہائی خطرناک نتیجہ برآمد ہوا۔ وہ شخص ''ہاتھی پیر‘‘ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ پاؤں سُوجھ کر ہاتھی کی سُونڈ جیسا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر اُس نے بھرپور توجہ نہ دی اور علاج نہ کرایا تو یہ خطرناک بیماری پورے جسم کو ناکارہ بنا دے گی یعنی اُس کی جان بھی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹرز اُس کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ریو ڈی جنیرو کے ایک ہسپتال میں اِس شخص کا علاج کیا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں حالت کچھ بہتر ہوئی ہے مگر خطرہ مکمل طور پر اب بھی نہیں ٹلا۔ 
بہت سے ممالک میں صحتِ عامہ کا معیار بہت بلند ہے۔ لوگ صاف سُتھری زندگی بسر کرنے کے ایسے عادی ہو چکے ہیں کہ اگر معمولی سا زکام بھی ہو جائے تو جان پر بن آتی ہے۔ کھانسی شدت اختیار کرلے تو ڈھنگ سے سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ جسم میں کہیں معمولی سا درد ہو تو ڈاکٹرز تین چار دن کے لیے بیڈ ریسٹ کا مشورہ دے بیٹھتے ہیں۔ برازیل تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ معیشت مستحکم ہونے سے عمومی معیار زندگی بھی بلند ہوتا جا رہا ہے۔ صحتِ عامہ کی سہولتیں بہتر ہونے سے لوگوں میں نزاکت کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مچّھر کے کاٹے سے پاؤں سُوج کر ہاتھی کی سُونڈ جیسا ہو گیا ہے۔ اور اِس سُوجے ہوئے پاؤں کے ہاتھوں ایک شخص کی جان خطرے میں ہے۔ 
ترقی ہو مگر اِتنی بھی نہ ہو کہ ایک معمولی مچّھر کے کاٹے سے زندگی داؤ پر لگ جائے۔ ترقی کا گراف بلند ہوتے رہنے سے ہر معاملے میں بہتری کا معیار بھی بلند ہوتا جاتا ہے۔ انسان عجیب مخلوق ہے۔ ترقی اُسے آسانیوں سے زیادہ الجھنوں سے دوچار کرتی جاتی ہے۔ سہولتیں پا کر انسان میں نزاکت بڑھتی جاتی ہے۔ اچھی خاصی زندگی بسر کرتے کرتے وہ ناز نخروں کے آغوش میں پروان چڑھنے لگتا ہے۔ یہ کیفیت اُسے رفتہ رفتہ مستقل نوعیت کی پریشانیوں سے دوچار کرتی جاتی ہے۔ معمولی سا بخار بھی زندگی کے لیے خطرہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ دو چار چھینکیں آجائیں تو دل و دماغ پر ہتھوڑے سے برسنے لگتے ہیں۔ مغربی دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں کا حال ہم سے چھپا نہیں۔ کوئی معمولی سی موسمی بیماری بھی پھیل جائے تو لوگ اپنے پورے وجود کو بوجھل محسوس کرنے لگتے ہیں۔ تیز رفتار ترقی نے ہر شعبے کو ایسی جدت اور ندرت سے ہمکنار کیا ہے کہ سیدھی سادہ زندگی طرح طرح کی الجھنوں سے دوچار ہو کر رہ گئی ہے۔ 
ترقی یافتہ معاشروں کی الجھنوں پر نظر دوڑانے کے بعد جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جدت، ندرت اور نزاکت نے ابھی یہاں ڈیرے نہیں ڈالے۔ ماحول میں بہت کچھ اچھا ہو تو ذرا سی خرابی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ صحتِ عامہ کا انتہائی بلند معیار معمولی نوعیت کی بیماریوں کو بھی جان لیوا بنا دیا کرتا ہے۔ کئی ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ جن بیماریوں کے ہاتھوں اذیت سے دوچار نظر آتے ہیں اُن بیماریوں کو ہم گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ دن بھر میں ڈیڑھ سو چھینکیں بھی آجائیں تو یہاں کوئی زیادہ سوچتا نہیں۔ سوچنے سے چھینکوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے! کسی کو کھانسی ہو تو دل کے دورے کی طرح کھانسی کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔ گھنٹوں کھانستے رہنے سے پھیپھڑوں کا حشر نشر ہو جاتا ہے مگر پھر بھی کھانسنے والا کوئی دوا لینے کا نہیں سوچتا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ کھانسی تنگ آکر خود ہی رخصت ہو جاتی ہے۔ جب کوئی گھاس نہ ڈال رہا تو بِن بلائے مہمان کی طرح کوئی بیماری کب تک پڑی رہے! 
مرزا تنقید بیگ کا شمار بھی اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو کسی بھی چھوٹی موٹی بیماری کو خاطر میں نہیں لاتے۔ نزلہ، زکام وغیرہ ہو جائے تو مرزا ایک پورا دن اُس کی نذر کرتے ہیں یعنی توجہ نہیں دیتے۔ ناک بہتے بہتے تنگ آجاتی ہے اور پھر اُس کے سَوتے سُوکھ جاتے ہیں! ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جب مرزا کو کھانسی ہوتی ہے تو وہ دوا لینے کے حوالے سے کسی کا کوئی مشورہ نہیں مانتے۔ کھانسی کو بھگانے کا اُن کے پاس ''قدرتی نسخہ‘‘ یہ ہے کہ کھانس کھانس کر پھیپھڑوں کو ہلکان کر دیجیے یعنی جب پھیپھڑوں میں کھانسنے کا دم ہی نہ رہے گا تو کھانسی بھی نہ رہے گی! یہی حال چھینکنے کا بھی ہے۔ کبھی کبھی جب اُن پر چھینکنے کا ''شوق‘‘ سوار ہو تو اِس قدر چھینکتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کسی گانے میں جھنکار ڈال رہے ہیں! 
ایک بار مرزا کو شدید بخار لاحق ہوا۔ مرزا نے ذرا بھی توجہ نہ دی۔ بخار بھی خاندانی قسم کا تھا یعنی یہی سوچ کر آیا تھا کہ جب تک جانے کو کہا نہیں جائے گا، نہیں جاؤں گا! مرزا ٹھہرے ایک نمبر کے ضِدّی اور ڈھیٹ۔ ہم نے لاکھ سمجھایا کہ بھائی! اِس بخار کا کوئی توڑ کرو ورنہ یہ جی کا روگ ہو جائے گا۔ اخبارات کا مطالعہ کرتے کرتے بیماریوں اور دواؤں کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات مرزا کے ذہن میں بھی مقیّد ہیں۔ کہنے لگے: ''کوئی بیماری ہو تو علاج بھی کروں؟ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ بخار کوئی بیماری نہیں۔‘‘ 
ہم نے حیران ہوکر پوچھا کہ بخار اگر بیماری نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ اس پر مرزا نے کہا : ''ماہرین کی رائے یہ ہے کہ بخار دراصل اس بات کا اشارا ہے کہ جسم میں کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہے۔ یعنی بخار کسی بیماری یا تکلیف کا 'اشاریہ‘ ہے!‘‘ 
یہ بات سن کر ہم مزید حیران ہوئے اور عرض کیا کہ اگر ایسا ہے تو بخار کا نہ سہی، اُس بیماری ہی کا کچھ سوچا جائے جس کی طرف بخار اشارا کر رہا ہے۔ ہماری بات سُن کر مرزا نے دو تین ساعتوں تک توقّف کیا اور پھر خاصے سنجیدہ و پُرسکون لہجے میں جواب دیا : ''ارے میاں! چار دن سے چڑھا ہوا بخار اگر کسی پرانی بیماری کا پتا دے رہا ہے تو ہم کوئی اقدام کیا کریںِ؟ جو بیماری ہمارے اندر رہتی ہے وہ اگر جان لیوا ہوتی تو ہم کب کے مر چکے ہوتے۔ ہمارا جسم اُس بیماری کے لیے کرائے کے مکان کی طرح ہے۔ پُرانی کرائے دار ہے، رہتی رہے۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ 
ایک مرزا پر کیا موقوف ہے، یہاں تو جسے دیکھیے وہ کسی بھی بیماری کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ جان پر بن آئی ہو تب بھی لوگ ڈاکٹرز کے پاس جانے اور مشورہ و دوا طلب کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور یہ صورت حال بیماریوں کے لیے بھی خاصی حوصلہ شکن ثابت ہوتی آئی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اول تو کسی کو پیچش جیسی کوئی پیچیدگی لاحق ہوتی نہیں۔ اور اگر ہو جائے تو جان پر بن آتی ہے، بلکہ جان چلی بھی جاتی ہے۔ یہی حال دوسری چھوٹی موٹی بیماریوں کا ہے۔ اگر کسی کو شدید کھانسی ہوجائے تو پھیپھڑوں کا انفیکشن دیکھتے ہی دیکھتے اِتنا پھیل جاتا ہے کہ ڈاکٹرز کنٹرول نہیں کر پاتے۔ اور ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ کیسی ہی کھانسی ہو، لوگ کھانستے کھانستے اُسے دیس نکالا دے ہی دیتے ہیں! 
مچّھر کے کاٹے سے برازیل میں ایک شخص کا پاؤں سُوج کر ہاتھی کی سُونڈ کی سی شکل اختیار کر گیا۔ اگر یہ نزاکت ہمارے ہاں ہوتی تو ہر گھر میں ہاتھی کی دو تین سُونڈیں ضرور دکھائی دے رہی ہوتیں! مچّھر رات دن کاٹ کاٹ کر ہلکان ہوتے رہتے ہیں مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے، اُن کی محنت کا کوئی اثر قبول کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے ہم مچّھروں اور طبّی ماہرین کے ہر انتباہ کو یکسر ناکام بنا دیتے ہیںہیں! 
کہنے کو پس ماندہ معاشرہ سہی مگر پاکستانی معاشرے میں اتنا دم تو ہے کہ معمولی بیماریوں کے آگے سجدہ ریز نہیں ہوتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم میں آگے بڑھنے کی سَکت نہیں۔ مگر یہ بھی دیکھیے کہ جن چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے ہاتھوں دنیا بھر میں لوگ جان سے جاتے رہتے ہیں ہم اُنہیں برائے نام بھی گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ اب اگر یہ ''استقامت‘‘ نہیں تو پھر کیا ہے! ''صحتِ عامہ‘‘ اور کیا ہوتی ہے کہ بیماریاں کچھ کر ہی نہ پائیں اور تھک ہار کر خود ہی چلی جائیں! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved