طبیعیات اور فلکیات (Physics-Astronomy) کے نام سے فیس بک پر یہ ایک شاندار صفحہ (Page) ہے۔ یہاں کائنات اورکرّہء ارض کے بارے میں شاندار معلومات اور بڑے دماغوں کے تبصرے موجود ہیں۔ اس صفحے پر آپ کو معلوم ہو گا کہ سائنس کائنات اور زندگی کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ خدا ان موضوعات پر کیا فرماتا ہے۔ مغرب میں الہامی کتابیں بگاڑ دی گئیں۔ مغربی مفکرین اور سائنسدانوں کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ وہ تحریف شدہ الہامی کتاب میں سے ایک تبدیل شدہ آیت کو جدید سائنسی تحقیق کے نتیجے میں مسترد کر سکیں۔ وہ اس لیے بھی اس کارِ خیر میں مصروف رہتے ہیں کہ مغرب میں اپنے بھرپور عروج اور اقتدار میں مذہب کے نمائندوں نے ایک عام شخص کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ وہ جدید سائنسی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ بنا۔ سترھویں صدی کے اطالوی ماہرِ فلکیات، طبیعیات دان، فلسفی اور ریاضی دان گیلی لیو گیلی لی (Galileo Galilei) کو کائنات کے بارے میں سچ بولنے کی پاداش میں نظر بند کر کے تنہائی کی موت مار ڈالا گیا۔ اس وقت ایجاد ہونے والی دوربین کی مدد سے اس نے نظامِ شمسی کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس نے یہ انکشاف کیا تھا کہ اس نے کئی چاند ایک بڑے سیارے مشتری کے گرد گھومتے دیکھے ہیں۔ چرچ کا نقطہء نظر یہ تھا کہ کائنا ت کی ہر شے کرّہء ارض کے گرد گھومتی ہے۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کا خیال یہ ہے کہ مذہب اور سائنس کو الگ رکھنا چاہیے۔ اس نقطہء نظر کی بنیاد یہ ہے کہ ایک طبقے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سائنس کی ہر نئی دریافت قرآن و حدیث میں پہلے سے موجود ہے‘ اور اس سے مذہب کو نقصان پہنچا۔ ایک لحاظ سے یہ نقطہء نظر درست ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کائنات اور زندگی کے بارے میں خدا اور اس کے پیغمبرؐ جب تبصرہ فرمانا چاہیں تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا۔ اس میں کائنات کی ابتدا اور اس کے اختتام کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ تیسویں سیپارے کی آخری سورتیں تو کائنات کے اختتام پر انکشافات سے بھرپور ہیں۔ مثلاً ''اور (قیامت کے دن) پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوں گے‘‘ القارعہ۔ یہ پڑھیے ''جب زمین زلزلوں سے ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ باہر نکال پھینکے گی ‘‘الزلزال۔ ''پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہو گا۔ جب آنکھیں چندھیا جائیں اور چاند گہنا جائے۔ اور سورج اور چاند جمع کر دیے جائیں‘‘ القیامہ6-9۔ ''جب آسمان پھٹ جائے گا اور تارے جھڑ جائیں گے‘‘ سورۃ الانفطار۔ ''اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے‘‘ سورۃ التکویر3۔ ''اور جب سمندر جل اٹھیں گے‘‘ التکویر8۔ ''بے شک انسان پر ایک وقت ایسا بھی گزرا، جب وہ قابلِ ذکر شے نہ تھا‘‘ الدھر1۔
اب آپ مجھے بتائیں کہ ان آیات میں فلکیات، کرّہء ارض کے اختتام، آدمی اور زندگی کی ابتدا اور اختتام کے بارے میں کیا واشگاف الفاظ میں بات نہیں کی گئی؟ انتہا پسندی کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم ہر جدید سائنسی تحقیق پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ اس کا ذکر قرآن و حدیث میں گزر چکا ہے، خواہ حقیقت میں ایسا نہ ہو۔ دوسری انتہا پسندی یہ ہے کہ فلکیات، کائنات، زندگی، انسان کی تاریخ اور اس کے اختتام کے بارے میں جو کچھ قرآن اور حدیث میں کہا گیا ہے، ہم اس کے ذکر سے اس بنا پر اجتناب کریں کہ سائنس اور مذہب دو الگ چیزیں ہیں۔ استاد احمد رفیق اختر نے اس پر یہ کہا: خدا کو ہم روک نہیں سکتے کہ وہ کائنات پر تبصرہ کرے‘ اور اگر اللہ ہی خالق ہے تو جب وہ کائنات کے بارے میں کوئی تبصرہ کرے گا‘ تو اسے سو فیصد درست ہونا چاہیے اور وہ ہمیشہ درست ہوتا ہے۔ انسان ہزار غلطیاں کر کے بھی انسان رہتا ہے‘ لیکن خدا ایک غلطی کر کے بھی خدا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کہ خدا غلطی کر ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ غلطی کر رہا ہے، تو پھر وہ حقیقی خدا نہیں۔ آپ قرآن کا بغور مطالعہ کریں، کہیں کوئی ایک بھی غلطی آپ ڈھونڈ نہیں سکتے۔ پروفیسر صاحب رہنمائی کے جس مقام پر پہنچے، اس کا سبب ہی یہ تھا کہ جوانی کے ایام میں انہوں نے قرآن سے غلطی ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اپنی اس کوشش میں وہ ناکام ہو گئے لیکن اس ناکامی میں بہت بڑی کامیابی چھپی تھی۔
فزکس آسٹرانومی نے ایک دانشور کیرولین پورکو کا قول لکھا ہے۔ محترمہ کہتی ہیں: نظامِ شمسی کے اختتام پر، ہمارے (مردہ) اجسام کے ایٹم (خلیات) ایک دھماکے سے خلا میں بکھر جائیں گے۔ یہ ایٹم مادے اور توانائی کی شکل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچّوں کو یہ بات پڑھانی چاہیے، بجائے فرشتوں اور جنّت کے فرضی تصورات کے۔ اس پر میرا تبصرہ یہ ہے: ہم اپنے بچّوں کو کیسے یہ سمجھائیں کہ کرّہء ارض کی تاریخ میں بیچاری پانچ ارب مخلوقات خوراک اور افزائشِ نسل سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ پانچ ارب میں سے ایک یعنی انسان سورج کے مرکز میں ایٹموں کو بنتا ہوا دیکھنے لگا۔ ہم کائنات پہ غور کرنے لگے۔ اس پر تبصرہ کرنے لگے۔ ہر سائنس کا مطالعہ کرنے لگے۔ طبیعیات اور فلکیات کے قوانین لکھنے لگے۔ کمپیوٹر سے ڈیٹا ایک دوسرے کو بھیجنے لگے۔ ایک لمحے کو ذرا سوچیے کہ پانچ ارب مخلوقات وہیں رہ گئیں۔ صرف ایک آسمان تک بلند ہونے لگی۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم انسان ایک خاص مخلوق ہیں اور ایک خاص آزمائش کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور اگر انسان دوسرے جانوروں جیسا ہی ایک جانور ہے جو اتفاقاً ذہین ہو گیا اور اگر ہم دوبارہ زندہ نہ کیے جائیں گے تو پھر ہمیں محبت، ایثار اور دوسروں کی فلاح و بہبود کے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر تو ہمیں اسی دنیا میں اپنی تمام تر حسرتیں پوری کرنا چاہییں، خواہ اس کے لیے ہمیں قتل و غارت اور لوٹ مار کرنا پڑے۔
کیرولین نے جو اعتراض کیا ہے، یہ کوئی نیا نہیں۔ جیسا کہ قرآن میں لکھا ہے، انکار کرنے والے ہمیشہ یہی کہا کرتے کہ بھلا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی ہو جائیں گے تو کیا پھر ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے؟ قرآن اس پر یہ کہتا ہے ''کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں دوبارہ اکٹھی نہ کر سکیں گے؟ بلکہ ہم تو اس کی پور پور (finger prints) کو بھی ٹھیک کر دیں گے۔ اب ڈیڑھ ہزار سال پہلے کون یہ راز جانتا تھا کہ ہر انسان کی انگلی کا نشان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ 1858ء میں پہلی بار سر ولیم ہرشل نے انگلیوں کے نشانات کو جرائم کی تحقیقات میں استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ یہ ان آیات میں سے ایک ہے، جو ہمارے زمانے کے لیے نازل ہوئی ہیں۔ یہی وہ نشانیاں ہیں، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ان پر غور کرو۔ وہ بار بار کہتا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرو۔ ہم خود ہی ڈرے سہمے بیٹھے رہیں تو یہ ایک الگ بات ہے۔