جو ملک وزیرخارجہ کے بغیر‘ خارجہ پالیسی چلا رہا ہو اور اس کے وزیراعظم باربار نیم امریکی دورے کر کے سمجھتے ہوں کہ وہ ایک کل وقتی وزیرخارجہ کی کمی پوری کر سکتے ہیں‘ اس کے نتائج وہی ہوتے ہیں‘ جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ہمارے پچھلے تین سال کسی خارجہ پالیسی کے بغیر گزرے۔ بدقسمتی سے انہی تین سالوں میں ہمارے خطے میں بنیادی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ ایران جو ہمارے پڑوس کا ایک فعال اور مستحکم ملک ہے‘ طویل معاشی اور سیاسی پابندیوں سے نکل کر ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ مسلسل رابطوں اور کانفرنسوں کے بعد مغربی بلاک‘ ایرانی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے ‘گنجائشیں پیدا کرتا ہوا سست روی سے آگے بڑھتا رہا اور پھر آخری دنوں میں انتہائی تیز رفتاری سے پیش قدمی کرکے ‘آخری اور فیصلہ کن قدم بڑھا کرمنزل تک پہنچ گیا۔ اس معاہدے تک پہنچنے میں‘ آخری مرحلوں پر جو تیزرفتاری دیکھنے میں آئی‘ اس سے ظاہر ہوا کہ دونوں فریق باہمی لاتعلقی اور کشیدگی سے نکل کر‘ ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ ایران نے تیزرفتاری سے چاہ بہار کی بندرگاہ کی تعمیر جاری رکھی اور اس کے ساتھ ہی خشکی کے راستوں کی تعمیر جاری رکھی۔ میں اپنی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہر مرحلے پر ہونے والی پیش رفت سے قارئین کو باخبر رکھا۔ مثلاً میں نے تین سال پہلے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ چاہ بہار سے وسطی ایشیا تک‘ خشکی کے تجارتی راستے تیار کئے جا رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب چاہ بہار کی بندرگاہ ‘ مغربی دنیا اور وسطی ایشیا کو ملا دے گی۔ اب وہ مرحلہ قریب آ چکا ہے۔ ایران نے افغانستان کی سرحد تک‘ بھاری ٹریفک کے لئے سڑکیں‘ کم و بیش تیار کر لی ہیں۔ اب چاہ بہار کی بندرگاہ کو تیزرفتاری سے مکمل کرنے کا کام شروع ہو جائے گا۔ بھارت کی طرف سے بندرگاہ کی تعمیر کے آخری مراحل مکمل کرنے کے لئے ایران کو 50کروڑ ڈالر فوری طور پر دینے کا معاہدہ ہو چکا ہے۔
ہماری خارجہ پالیسی تشکیل دینے اور چلانے کے لئے کوئی ذمہ دار شخصیت موجود نہیں۔ کہیں وزیراعظم اسے ترتیب دے رہے ہوتے ہیں‘کہیں جناب سرتاج عزیز متحرک نظر آتے ہیں اور کبھی طارق فاطمی امور خارجہ کی دیکھ بھال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ساجھے کی ہنڈیا پکتی تو بہت دیکھی اور سنی‘ لیکن خارجہ امور میں ساجھے کی ہنڈیا پکتی بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب دو آزاد اور خود مختار ملکوں کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا مسئلہ درپیش ہو‘ تو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتا ہے‘ خصوصاً امریکہ جیسی خطرناک سپرپاور کے معاملے میں۔ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''نہ اس کی دوستی اچھی‘ نہ اس کی دشمنی اچھی۔‘‘ میں اسے اپنی بدقسمتی ہی کہوں گا کہ جب سرد جنگ کا دور تھا تو ہم آنکھیں بند کر کے‘ امریکیوں کے کیمپ میں جا کھڑے ہوئے۔ اس پالیسی کے نتیجے میں جو کچھ ہم پر گزری‘ اسے قومی مفادات کے اعتبار سے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ بھارت روزاول ہی سے‘ ہمارے بارے میں واضح پالیسی رکھتا تھا۔ اس نے کشمیر پر شروع ہی میں قبضہ مستحکم کرنے کی پالیسی اختیار کر لی تھی۔ سلامتی کونسل میں مذاکروں کو طول دیتے رہنا‘ کشمیر پر قبضے کو مستحکم کرنا اور امریکہ کے مخالف بلاک کا اعتماد حاصل کرنا‘ بھارتی پالیسی کے بنیادی مقاصد تھے اور اس میں وہ ہر مرحلے پر کامیابی حاصل کرتا رہا۔ یو این میں بااثر ممالک کو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ پاکستان قابل اعتماد حلیف نہیں اور نہ ہی وہ طاقت میںبھارت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ یہ پالیسی کامیاب رہی اور ایک ایک کر کے‘ بیشتر قابل ذکر ممالک بھارتی پالیسیوں کی جانب مائل یا انہیں قبول کرتے چلے گئے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں‘ جب بھی ہم کشمیر کا سوال اٹھاتے ہیں‘ ہمیں کوئی اپنا حامی نظر نہیں آتا۔ آج یہ مسئلہ دنیا کے لئے ایک بند فائل بن چکا ہے۔ میدان جنگ میں بھارت نے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی اور مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں میں کمی آتی جا رہی ہے۔ بھارت نے کمال چابکدستی سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر دیا اور اب وہ آخری مرحلے کے قریب پہنچ چکا ہے‘ جس میں مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کو جائز قرار دلوانا مقصود ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد ‘ موجودہ بھارتی حکومت اور انتہاپسند بی جے پی‘ کشمیریوں کی نمائندگی کرنے والی ایک جماعت کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ مسلمانوں کا جو حصہ مخلوط حکومت سے باہر ہے‘ وہ بھارتی کانگرس پارٹی کا اتحادی ہے۔ اگلا مرحلہ کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے بارے میں اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی دونوں انتخابی جماعتیں‘ بھارت کی مرکزی سیاسی قوت کے قریب آ چکی ہیں۔
گزشتہ دنوںہم نے روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی‘ لیکن اس نے ہمیں اپنے قریب نہیں آنے دیا۔ امریکہ نے بھی اب آنکھیں دکھانے کا رویہ اختیار کر لیا ہے۔ پاکستانی سرحدوں کے اندر حالیہ ڈرون حملے کے ساتھ ہی‘ امریکی لہجے کی تلخی بھی سامنے آنے لگی ہے۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ جس امریکہ کے لئے ہم نے ساری دنیا سے تعلقات بگاڑے‘ اب وہ ہم پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہا ہے۔ نئی عالمی صف بندی میں امریکہ ہمارے ساتھ کھڑا نظر نہیں آتا۔ پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات سٹریٹجک تو ہیں لیکن انہیں دفاعی نہیں کہا جا سکتا اور یہ ہو بھی نہیں سکتے۔ کیونکہ چین کی ضروریات اورہمارے دفاعی تصورات میں ہم
آہنگی نہیں پائی جاتی۔ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی پاگل پن کی حدیں چھو رہی ہے۔ ان دونوں ملکوں نے اچھے ہمسایوں کی طرح مشترکہ تدبیریں کبھی اختیار نہیں کیں۔ ہمارا ایک اور المیہ یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد یہاں پر شخصی حکومتوں کی بالادستی رہی۔ فوجی حکمران آئے‘ تو انہوں نے اپنی سوچ کے مطابق بھارت کے ساتھ محاذ آرائی کا رویہ اختیار کیا اور جزوی جنگوں کے ساتھ ساتھ‘ ہمیں ایک بڑی جنگ میںبھی جھونک دیا گیا۔ جمہوری حکومت یہاں کبھی آئی ہی نہیں۔ انتخابات جیسے بھی ہوئے ہوں لیکن ہر بار بالادستی فوج کو حاصل رہی۔ وہ ایوان اقتدار میں ہو یا بیرکوں میں‘ انتخابی نتائج وہی آئے‘ جو فوج نے چاہے۔ موجودہ حکومت بظاہر جمہوری ہے‘لیکن فوج سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یہ حکومت نہ تو مکمل جمہوری ہے اور نہ ہی اس کی انتخابی کامیابی قابل اعتبار ہے۔آج کی صورتحال تکلیف دہ بھی ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ نہ آدھی حکومت فوج کے پاس ہے اور نہ ہی غیرفوجی حکومت کے پاس پورا اختیار ہے۔ ان دونوں کو سمجھ بھی نہیں آرہی کہ اگر تقسیم اختیارات کی بھی جائے‘ تو وہ کیسی ہو گی؟ آف شور بینک اکائونٹس ساری دنیا میں مشکوک سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان پہلا ملک ہے‘ جس کی حکومت انہیں باضابطہ قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں سیاسی طور پر تو پہلے ہی الگ تھلک کیا جا چکا ہے‘ ہم عالمی مالیاتی نظام سے بھی الگ تھلگ ہونے جا رہے ہیں۔ ہمارے وزیرخزانہ نہ تو باقاعدہ نائب وزیراعظم ہیں اور نہ ہی مکمل وزیر خزانہ۔ وزیراعظم حقیقی معنی میں مکمل بااختیار ہیں اور نہ ہی بے اختیار۔ وہ اپنے وزیرخزانہ کو آرڈر نہیں دیتے‘ فرمائشیں کرتے ہیں۔ ہماری معیشت کو نجی شعبے میں منتقل کرنے کے لئے دائو پیچ لڑائے جا رہے ہیں۔ لیکن نہ تو وہ ابھی تک نجی شعبے میں گئی ہے اور نہ ہی سرکاری شعبے کے پاس ہے۔ جن افغان مجاہدین کو ہم نے اپنے زیرسایہ تیار کیا‘ آج وہ ہمارے وطن میں پنجے گاڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کا ساتھ دے؟ امریکہ یا مجاہدین؟ مجھے وہ دن دور نظر نہیں آتا‘ جب مجاہدین اور بھارت میں تعاون کے امکانات دکھائی دینے لگیں۔کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کا جھکائو پہلے سے بھارت کی طرف ہے۔ پاکستان سے دشمنی میں دونوںایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں۔ حالات کی چھوٹی سی کروٹ بھی انہیں اتحادی بنا سکتی ہے۔ اشرف غنی‘ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے جو ارادے لے کر آئے تھے‘ اب وہ ان میں متزلزل نظر آتے ہیں۔ موجودہ حکومت نہ تو اپنے پیروں پر کھڑی ہے اور نہ ہی لڑکھڑاتی نظر آرہی ہے۔ کچھ بھی تو مستحکم نہیں۔ ریاست کے سارے ستون متزلزل ہیں۔ عدلیہ عدم اطمینانی کا اظہار تو کر رہی ہے لیکن واضح پوزیشن نہیں لیتی۔ فوج کی منزل کیا ہے؟ نام نہاد سول حکومت کیا کرنا چاہتی ہے؟ اور جو کرنا چاہتی ہے‘ کیا وہ کر پائے گی؟