تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     25-05-2016

ٹوٹے اور شاعر علی شاعر

مرحبا!
چیف جسٹس صاحب نے ایک سو پچھترویں بارکہا ہے کہ کرپشن اور نا اہلی ختم کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب جو روزانہ یہ خبر دیتے ہیں کہ ملک تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ ٹی او آرز کا جو حشر ہونے جا رہا ہے اور حکومت اور اپوزیشن مل کر اس سلسلے میں جو گُل کھلانے والی ہیں اور جو گلی سے گزرنے والے ہر شخص کو بھی اچھی طرح معلوم ہو چکا ہے‘ اس کے بعد اور ملک بھر کی فریاد کے باوجود اگر وہ اس معاملے کا سوؤموٹو ایکشن نہیں لیتے تو براہ کرم اس طرح کے بیانات نہ دیا کریں کیونکہ بقول خود ان کا کام فیصلے کرنا ہے‘ سیاسی معاملات میں مداخلت اور ایسے کام کرنا نہیں جو حکومت کے کرنے کے ہیں، تو براہ کرم ایسے بیانات دینے سے بھی اجتناب کریں جن سے ہر خاص و عام کو یہ امید ہو جاتی ہے کہ وہ اس پر جلد از جلد اور ضرورتوجہ دیں گے کیونکہ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے والی ہے!
سب ساتھ ہیں!
وزیر اعظم کا یہ بیان بڑا خوش آئند ہے کہ پاناما لیکس پر تمام سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کرچلیں گے‘ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں تو پہلے ہی آپ کے ساتھ چل رہی ہیں۔ رہے عمران خان‘ تو وہ چونکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے پیچھے چل رہے ہیں‘ اس 
لیے بالواسطہ طور پر وہ بھی آپ ہی کے ساتھ چل رہے ہیں‘ اس لیے ظاہر ہے کہ پاناما لیکس بھی آپ ہی کے پیچھے اور ساتھ چلیں گی بلکہ اب تو لوگ بھی اچھی طرح جان گئے ہیں کہ جب آپ سارے بغل گیر ی کی حالت میں ہیں تو آپ کو یعنی جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، اس لیے پاناما لیکس کا اب ذکر بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ فالتو چیزوں کا ذکر کرنے سے وقت ہی ضائع ہوتا ہے۔ ان حالات میں تو اب برائے چیک اپ وغیرہ لندن جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ایک تو آپ کی صحت ماشاء اللہ ویسے بھی کافی بہتر ہو چکی ہوگی اور دوسرے زرداری صاحب سے بھی ملاقات کی کوئی خاص حاجت نہیں رہ گئی کیونکہ مولانا کے ذریعے ان کے ساتھ آپ کا رابطہ پہلے ہی موجود ہے۔
حسبِ معمول
بجٹ پیش کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں اور وزیر خزانہ ہر سال کی طرح اب بھی خوشخبری دے رہے ہیں کہ اس کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا بیان ہے کہ مہنگائی بلند ترین سطح پر جائے گی‘ چنانچہ عوام بھی ساتھ ساتھ پورا پورا تعاون کریں گے اور سڑکوں پرنکلنے کی بجائے خودکشیاں بھی کریں گے‘ جرائم کی طرف بھی مائل ہوںگے اور اپنی اولادیں بیچنے پر بھی آمادہ رہیں گے کہ ایسے صابر و شاکر عوام کی دنیا بھر میںکہیں مثال ہی نہیں ملتی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے جس کے خلاف دم مارنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے برملا کہہ دیا ہے کہ 2018ء کے بعد بھی حکومت انہی کی ہو گی جس کے بعد اندھیرے دور کرنے سمیت عوام کے دیگر مسائل حل کرنے کے نئے وعدے کئے جائیں گے اور کوئی وجہ نہیںکہ اس سے اگلا دور بھی انہی کا ہو! ہیں جی؟
سیاسی طوفان؟
برادرم رئوف کلاسرا کا کہنا ہے کہ اب ہر سیاسی طوفان کا رخ ایوانِ وزیر اعظم کی طرف ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک عزیز میں سیاسی طوفان اٹھانے والے عناصر اپوزیشن کے علاوہ کوئی اور بھی ہیں کیونکہ اپوزیشن تو اب زبانی جمع و خرچ ہی سے کام چلا رہی ہے تاکہ عوام بھی مطمئن رہیں۔ ان پیش گوئیوں سے بہتر ہوتا کہ بھائی صاحب کے پاس جس قدر میگا سکینڈلز اکٹھے ہو چکے ہیں تو کسی عدالت کی توجہ ہی ان پر دلاتے‘ لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا اس لیے انہیں اس موضوع پر کتاب لکھنے کا مشورہ دے رہا ہوں اگرچہ اس کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ جلے دل کے یہ پھپھولے کسی کتاب ہی میں پھوڑے جا سکتے ہیں اور معزز عدلیہ کرپشن کے خلاف جو تابڑ توڑ بیانات دے رہی ہے‘ قومی ضروریات کے لیے وہی کافی ہیں ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند
شاعر علی شاعر
اور اب کراچی سے شاعر علی شاعر کی یہ ذرا وکھری ٹائپ کی غزل:
ہو کے ناکام اوڑھ لیتا ہوں
گرد ایّام اوڑھ لیتا ہوں
جب بھی فرصت نصیب ہوتی ہے
پھر کوئی کام اوڑھ لیتا ہوں
مجھ کو تنہائیاں ڈراتی ہیں
میں ترا نام اوڑھ لیتا ہوں
جسم ہوتا ہے جب تھکن سے چُور
تھوڑا آرام اوڑھ لیتا ہوں
سوچتا ہوں میں بعد میں آغاز
پہلے انجام اوڑھ لیتا ہوں
پاس خوشیاں جو آنے لگتی ہیں
رنج و آلام اوڑھ لیتا ہوں
میں تری یادکی حسیں چادر
برسرِعام اوڑھ لیتا ہوں
شب بناتا ہوں فرش کو بستر
اور دروبام اوڑھ لیتا ہوں
دھوپ سر سے اتار کر شاعر
ڈُوبتی شام اوڑھ لیتا ہوں
آج کا مقطع
ظفر‘ کس کس کو دکھلاتے پھرو گے اورپھر کب تک
کہ یہ زخم تماشا کوئی دن میں بھرنے والا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved