کہانی دراز ہوئی جاتی ہے اور اب اسے سمیٹناہو گا۔ کتنے ہی موضوعات ہیں، جن پر لکھنا ضروری ہے۔ اخبار نویس خاکہ نگاری کا متحمل نہیں کہ واقعات کی رفتار بہت تیز ہے۔ فیصلہ کن مرحلے سے ہم دوچار ہیں ملک کا مستقبل جس میں مرتب ہوناہے۔ امکانات ابھرتے اور تحلیل ہو جاتے ہیں۔ قیادت ایسی ہے کہ سبحان اللہ ۔ ؎
حسرتیں دل کی مجسّم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
پچیس برس بیت گئے کہ حکمت یار سے ملاقات ہو نہیں سکی۔ بہت دنوں سے ڈاکٹر غیرت بہیر سے بھی، جو اس کے قابلِ اعتماد ترجمان ہیں۔ ایسے اشارے ملے ہیں کہ اب اس میں زیادہ لچک ہے۔ چیزوں کو وہ زیادہ وسیع تر دائرے میں دیکھتا ہے۔ پہلے سے کہیں زیادہ صبر کا مظاہرہ کر سکتا ہے اور استقلال کا بھی، جو اس کی شخصیت کا کبھی نہ الگ ہونے والا حصہ ہے۔ برسوں سے عرض کر رہا ہوں کہ پاکستانی قیادت کا اس سے رابطہ ہونا چاہیے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہ دماغوں کو افسوس کہ ادراک نہیں، اکثر جو غیر ضروری اور سطحی بحثوںمیں الجھے رہتے ہیں۔
1992ء میں ایک گاڑی پر سوار ہم پشاور سے کابل کے لیے روانہ ہوئے۔ سہیل وڑائچ، تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری جو تب لاہور کارپوریشن کے ڈپٹی میئر تھے اور اب نمک کی کان میں نمک ہو چکے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک نوجوان جس کا نام حافظے سے اتر چکا۔ کابل کے دھماکوں اور ٹینکوں کی جنگ کے ہنگام جس کی بے خوفی نے ششدر کیے رکھا۔ چہار اسیاب نواح کابل میں‘ جسے اسلام آباد کا بارہ کہو کہنا چاہیے، حکمت یار سے ملاقات ہوتے ہوتے رہ گئی۔ پیغام بھیجا گیا تو جواب ملا: ہارون الرشید منتظر، باقی معذرت۔ ہماری کاکول اکیڈمی کی مانند، اگرچہ اس سے کمتر فوجی تربیت گاہ کے ایک ویران سے کمرے میں تھکا ماندہ یہ مسافرسو رہا۔ آنکھ کھلی تو ہُو کا عالم۔ شاخ تھی ‘نہ قفس تھا‘ نہ آشیانہ تھا۔ تلاش کے بعد ایک محافظ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ کسی اچانک حملے کی خبر پا کر حکمت یار اور اس کے ساتھی، محفوظ مقام پر منتقل ہو چکے۔ بائیس برس کی عمر سے، جب اس نے عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھا، دنیا اس کے ساتھ ایسے ہی کھیل کھیلتی آئی ہے۔ ہوش سنبھالا تو ایک بھوکے بھیڑیے کی طرح زمانہ اس پر پل پڑا۔ کبھی نہ ٹلنے والے آدمی نے بھیڑیے کے جبڑوںمیں ہاتھ ڈال دیئے اور آج تک اس سے نبرد آزما ہے۔ ہمارے عہد میں شاید ہی کسی رہنما نے ایسی خطرناک زندگی جی ہو گی۔ مدتوں اس کا انداز یہ رہا کہ اگر تین کھلے ہوں تو چوتھا محاذ کھولنے میں بھی اسے تامل نہ ہوتا۔ خوف اس کی کھال میں داخل نہیں ہوتا اور مفاہمت اس نے سیکھی ہی نہ تھی؛ اگرچہ مذاکرات کی میز پر وہ کبھی زچ نہ ہوتا۔ تحمل کا دامن تھامے رکھتا اور دلائل سے حریف کو چت کر دیتا۔
صدر ریگن کے ساتھ ملاقات سے انکار کے بعد مغربی جرمنی سے ہوتے ہوئے جب اسلام آباد کے ہوائی اڈے پہ اترا تو فوجی افسروں نے اس کا سواگت کیا اور بتایا کہ جنرل محمد ضیاء الحق اس کے منتظر ہیں۔ کوئی دوسرا ہوتا تو شاید فوراً ہی ایوانِ صدر کا رخ کرتا۔ آخر کو اس کا تمام تر انحصار پاکستان پر تھا۔ ظاہر ہے کہ امریکہ پر بھی۔ حزبِ اسلامی سب سے بڑی جماعت تھی؛ چنانچہ اسلحی اور مالی اعانت میں سب سے بڑا حصہ بھی اسی کا۔ ایسی جماعت کا لیڈر پاکستان اور امریکہ کی ناراضی گوارا کرنے پر کیونکر آمادہ ہوا؟ کئی سال کے بعد پارہ چنارکی برف سے ڈھکی ایک چوٹی پر اس نے میرے سوال کا جواب دیا:''حزبِ اسلامی کے بغیر افغانستان میں جنگ ہو سکتی ہے اور نہ امن‘‘۔ ایک عشرہ پہلے پشاور کے قلعہ بالا حصار میں پہلی بار پاکستانی افسروں سے اس کی ملاقات ہوئی اور انہوں نے اپنا منصوبہ پیش کیا۔ اس کا جواب یہ تھا: '' منصوبہ نہیں، آپ صرف تجاویز پیش کر سکتے ہیں‘‘۔ پاک فوج کے کرنل نے حکمت یار کو اس کی پرانی تصویر دکھائی، کابل یونیورسٹی کے بے ریش طالب علم کی۔ اس نے نگاہ اٹھاکر دیکھا اور خاموش رہا۔ وہ تصویر جو افغانستان کے ہر پولیس سٹیشن میں آویزاں تھی، ایک خطرناک اور مطلوب آدمی ۔اس کا پیغام شاید یہ تھا: میں خوف زدہ نہیں اور مجھے کمزور ثابت کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ آئندہ برسوں میں دیکھا کہ اپنی حفاظت کا وہ خوب بندوبست کرتا مگر خوف زدہ ہونے سے اس نے انکار کر دیا۔ ذہنی طور پر خوف کا سامنا کرنے کے لیے ہمیشہ وہ تیار رہتا۔ طاقتوروں کے دبائو‘مزاحمت اور مخالفت کا بھی۔ اپنے قدیم دوست خالد فاروقی کے ساتھ جب پیدل چلتے ہوئے، پکتیکا سے وہ پاکستان میں داخل ہوا تو جنرل محمد ضیاء الحق نہیں، یہ ذوالفقار علی بھٹو کا عہد تھا۔ بعد کے برسوں میںبروئے کار آنے والی افغان پالیسی کی بنیاد جنرل محمد ضیاء الحق نہیں، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی، اگرچہ فیصلہ کن اقدام جنرل محمد ضیاء الحق نے 27 دسمبر1979ء کے فوراًبعد کیا، جب سوویت یونین کی سرخ سفاک سپاہ افغانستان میں داخل ہوئی۔ حفیظ اللہ امین کو قتل کرنے کے بعد دنیا کو انہوں نے مطلع کیا کہ اُسی نے انہیں کابل آنے کی دعوت دی تھی۔ ضیاء الحق اگر یہ فیصلہ نہ کرتے تو تاریخ مختلف ہوتی۔ افغانستان میں سوویت یونین قدم جمانے میں کامیاب ہو جاتا تو اس کااگلا پڑائو پاکستان میں
ہوتا۔'' روسی جنرل اگر چاہیں تو ٹینکوں میں نہیں، مرسڈیز گاڑیوں میں سوار ہو کر طورخم سے کراچی پہنچ سکتے ہیں‘‘فخر افاغنہ خان عبدالغفار خان کے فرزندِ ارجمند عبدالولی خان نے اعلان کیا تھا۔ 1979ء سے 1992ء تک پھیلی ہوئی جنگ میں تیرہ لاکھ افغان شہری قتل ہوئے، اور تیرہ لاکھ اپاہج۔ ہزاروں برس سے آباد چلے آتے، ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ لگ بھگ 70فیصد آبادی کو ہجرت کرنا پڑی ‘چندبڑے شہروں کی طرف یا بیرونِ ملک۔ عبدالولی خان کو کبھی افغانستان میں گولی چلنے کی آواز سنائی نہ دی۔ ایئرمارشل اصغرخان سمیت اکثر دوسرے لیڈروں کو بھی۔ افغانستان کے مسئلے پر، پاکستان میں جتنا جھوٹ لکھا اور بولا گیا، تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ ایک طرف افغان مجاہدین کے حامیوں نے انہیں قرونِ اولیٰ کے مسلمان بنا کر پیش کیا تو دوسری طرف ویت نام کو رونے والے بائیں بازو کے دانشوروں نے افغانوں کے قتلِ عام پر خاموشی ہی روا رکھی۔ ان میں سے بعض سوویت یونین کی مدح میں اس طرح کے قصیدے لکھا کرتے جیسے کہ عہدِ قدیم کے شاعر درباروںمیں۔ شاعروں کو خلعتیں اور موتیوں کے ہار ملا کرتے، انہیں کیا عطا ہوا؟انتہا یہ ہے کہ اس زمانے میں فیض احمد فیض جیسے عظیم شاعر نے ''ماہ و سالِ آشنائی‘‘ کے عنوان سے سوویت معاشرے پر اپنے تاثرات اس طرح قلم بند کیے کہ آج پڑھیں تو گھن آتی ہے۔
جنرل کے دور میں بہت سی خرابیوں نے جنم لیا اور بڑھتی پھلتی چلی گئیں، حتیٰ کہ شریف خاندان ہم پر مسلط ہو گیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق سے بائیں بازو کے مفکرین کی نفرت کا سبب یہ نہیں، جن میں اکثر اب مشرف بہ امریکہ ہو چکے اور این جی اوز کے نام پر روشن خیالی کا کاروبار کرتے ہیں، بلکہ سوویت یونین کے انہدام میں ان کا تاریخی کردار۔ ذاتی زندگی میں جنرل ایک نجیب‘منکسر مزاج اور سادہ اطوار آدمی تھا۔ ہاں! مگر ہوسِ اقتدار۔ ہاں مگر قدامت پسند مذہبی طبقات کی سرپرستی۔بدعنوان وہ ہر گز نہ تھا۔ اپنا واحد مکان اس نے اپنے بیٹے سے قرض لے کرتعمیر کیااور ادائیگی نہ کر سکا۔
فوری طور پر ایوانِ صدر کا رخ کرنے سے حکمت یار نے گریز کیا اور یہ کہا: ''تھکا ہوا ہوں۔ کل پہ اٹھا رکھیے‘‘۔ ذہنی طور پر بدترین مشکلات کے لیے وہ تیار تھا۔ اس شب وہ کیا سوچتا رہا؟ شاید ان ایام کے بارے میں، جب پکتیکا میں تیسرے درجے کے ایک ہوٹل میں وہ قیام پذیر رہا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اس نے پاکستان کا قصد کیا تھا کہ افغانستان میں فروغ پذیر کمیونسٹوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو سوشلزم کے حامی ہیں، پھر وہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان رکھنے والوں کی مدد کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ اکثر پاکستانی سوشلسٹوں کے برعکس افغان کمیونسٹ کھلم کھلا مذہب کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔''میں نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا تھا‘‘۔ اس نے مجھے بتایا اور داڑھی کا ذکر کیا اور نہ اس بات کا کہ اس نے اپنی چال اور آواز بدلنے کے لیے کتنی ریاضت کی تھی۔ وہ شاد اور مطمئن رہا کہ ہوٹل کا مالک اسے پہچان نہ سکا، جو کبھی کابل میں اس کا ہم جماعت تھا۔
تیسرے دن ہوٹل سے وہ پاپیادہ نکلے تو عقب سے اس آدمی نے آواز دی:'' گل بدین، گل بدین‘‘۔ اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ گل بدین وہ تھا ہی نہیں، اب وہ حکمت یار بن چُکاتھا۔
یاللعجب! اگلے دن وہ جنرل محمد ضیاء الحق سے ملاتو پاکستان کے فوجی حکمران نے اس بات کا ذکر تک نہ کیا کہ صدرِ امریکہ کے ساتھ ملاقات سے اس کے انکار نے کیسی کیسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ وہ دونوںعجیب آدمی تھے۔ قدرت نے شاید انہیں اس لیے پیدا کیا تھا کہ اُس سفاک استعمار کا خاتمہ کر دیں، جسے سوویت یونین کہا گیا‘ لیکن دراصل وہ خوں آشام روس ہی تھا‘ طریق کوہکن میں جس کے سارے ہتھکنڈے پرویزی تھے۔ سوویت یونین کی شکست وریخت کا آغاز ہوتے ہی، جنرل کا کردار ختم ہو گیا مگر قندوز کا باغی زندہ رہا۔ کیا تاریخ کی بساط پر اس کا حصہ ابھی باقی ہے؟(جاری )